کینسر کے مریض،مساجد اور مدارس کے عملے کے لئے خاص رعایت ہونی چاہیئے,الخدمت کم خرچ اور بہترین سہولیات کی عمدہ مثال ہے،ماہر امراض نسواں ،ڈاکٹر صدیقہ فیاض سے گفتگو
ڈاکٹر صدیقہ فیاض گائناکولوجسٹ سرجن ہیں، وہ الخدمت کے لیے خدمات انجام دینے والی پہلی گائنا کولوجسٹ ہیں۔ انہوں نے الخدمت اسپتال اورنگی ٹائون میں امراضِ نسواں کے علاج کا آغاز کیا، ان کے والد سید فضل اللہ حسینی رکن جماعت اور اپنے علاقے کے ناظم تھے۔ انہوں نے پورے ملک خصوصاً کے پی کے اور اندرونِ سندھ میں میڈیکل کیمپوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ہم نے الخدمت کے ساتھ ان کے سفر اور خواتین کے طبی مسائل کے حوالے سے ان سے گفتگو کی جسے اپنے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
جسارت میگزین: الخدمت کے ساتھ آپ کے سفر کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: میں اور میرے شوہر بنیادی طور پر ڈاکٹر ہیں۔ جماعت اسلامی سے بھی تعلق تھا۔ یہ 1995ء کا زمانہ تھا جب الخدمت کی زیر نگرانی کوئی اسپتال نہ تھا، محض اورنگی ٹائون میں الخدمت کلینک ہوا کرتا تھا۔ پھر جب الخدمت اسپتال کا ارادہ ہوا تو الخدمت اسپتال ناظم آباد کا وژن میرے نصف بہتر کا ہی تھا۔ ہائوس جاب کے بعد مزید پڑھائی جاری تھی مگر ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر پڑھائی سے رخصت لی اور اسپتال کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ مجھے یاد ہے دسمبر 1995ء کا زمانہ تھا جب کراچی کے حالات نہایت کشیدہ تھے۔ ان حالات میں اورنگی سے ناظم آباد جانا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔ ابتدائی طور پر او پی ڈی ہی کی، پھر ڈیلیوری کے کیسز بھی آنے لگے۔ اسٹاف بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ میرا بیٹا بھی گود کا تھا۔ بہت مشکل حالات رہے۔ الخدمت اسپتال اورنگی میں بھی یوں کہیے کہ صفر سے شروع کیا۔ مریضوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ میٹرنٹی کا باقاعدہ انتظام کرنا پڑا۔ پھر میرا دو بچوں کے بعد آنا جانا مشکل ہوا تو میں نے الخدمت ناظم آباد میں کام جاری رکھا۔ علاوہ ازیں الخدمت کی جانب سے لگائے گئے میڈیکل کیمپوں میں بھی جایا کرتی۔ اندرون سندھ کے علاقوں میں بچوں کی موجودگی میں جانا کٹھن مراحل میں سے تھا۔ میں تیسرے بچے کی پیدائش سے قبل تک دشوار گزار راستے طے کرکے مٹھی اور تھرپارکر جاتی تھی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ تھرپارکر میں پہلی الخدمت خاتون ڈاکٹر میں ہی تھی۔ تیسرے بچے کی پیدائش سے چند ماہ قبل کوئی اور ڈاکٹر نہ مل رہا تھا، نہ رضامند تھا۔ اُس وقت وہاں اتنی مہلک بیماریاں پھیلی ہوئی تھیں کہ مجھے اپنے بچوں کا دھڑکا لگا رہتا۔ بعدازاں ناظم آباد شاخ میں مریضوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا تو طبی ماہرین نے باقاعدہ اپنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔
جسارت میگزین: خواتین کی صحت کے حوالے سے اُس زمانے اور آج کیا فرق دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: بہت زیادہ فرق تو نہیں آیا، شہری علاقوں میں تو حالات بہتر ہیں مگر دیہی علاقوں میں خواتین کی صحت ابتر اور غیر تسلی بخش ہی ہے۔ مٹھی اور قرب و جوار میں پھر بھی حالات ذرا بہتر ہیں، مگر دور دراز علاقوں میں اب بھی اینیمیا اور دیگر بیماریاں جڑ پکڑے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ وہاں خواتین کو اس بات کا شعور بھی نہیں۔
جسارت میگزین: کیا وجہ ہے کہ آج کل نارمل کی نسبت آپریشن کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ لڑکیاں درد برداشت نہیں کر پاتیں۔ پہلے لوگ آپریشن نہیں کروانا چاہتے تھے مگر اب والدین خود آپریشن پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچی کو جلدازجلد تکلیف سے نجات مل جائے۔ حالانکہ انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ آپریشن زچہ کی صحت کے لیے بہتر نہیں بلکہ نارمل میں ہی آسانی ہے۔ پہلے خواتین آخری وقت تک مشقت بھری زندگی گزارتی تھیں۔ اس سے برداشت بڑھتی تھی، نتیجتاً ڈیلیوری کے دوران درد بھی سہہ لیتی تھیں۔ مگر آج کل حالات بالکل برعکس ہیں۔ لڑکیاں زچگی کی ابتدا سے ہی غیر ضروری طور پر آرام چاہتی ہیں۔ والدین کو نئی شادی شدہ لڑکیوں کو سمجھانا چاہیے کہ حمل زندگی کا حصہ ہے۔
جسارت میگزین: بچپن میں گھر کا ماحول کیسا تھا؟ کیا خواب دیکھے، کیا پورے؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: بنیادی طور پر ماحول پڑھنے لکھنے کا ہی تھا۔ میرے والد عبداللہ حسینی جماعت اسلامی سے وابستہ اور علاقہ ناظم تھے۔ شادی کے بعد ماسٹرز مکمل کیا۔ والدہ بھی جماعت میں سرگرم کارکن رہیں۔ وہ ٹیچر بھی تھیں۔ بہت محنت اور لگن سے زندگی گزاری۔ ہم بہن بھائیوںمیں بھی یہ عادت آگئی۔ پڑھنے کی شوقین تھی مگر ابتدا سے کوئی خواب نہیں تھا۔ البتہ میرے والد اکثر خواہش ظاہر کرتے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ شادی سے قبل میں نے سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کیا۔گائنی کی ڈگری میں نے بعداز شادی ہی حاصل کی۔ شادی کے بعد کیریئر بھی رکھا۔ مدر کیئر اسپتال میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ آج کل الخدمت اسپتال کے علاوہ ایک اور نجی اسپتال میں بطور ماہر امراضِ نسواں فرائض انجام دے رہی ہوں۔
جسارت میگزین: شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنے میں ہونے والی مشکلات کے بارے میں کیا کہیں گی؟ خاص طور پر شادی میں تاخیر کے حوالے سے؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: شادی کے بعد پڑھائی میں مشکلات بہرحال ہوتی ہیں۔ یہ شوہر اور سسرال کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہر کسی کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ پہلے گھر، شوہر اور بچے اہم ہیں۔ اس پر سمجھوتا کرکے کیریئر بنانا دانش مندی نہیں۔ سوال کے دوسرے حصے کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ بانجھ پن کے مسائل پہلے کی نسبت بڑھ رہے ہیں۔ اضافہ پریشان کن ہے۔ شادی میں تاخیر، طبی مسائل کے علاوہ لڑکیوں کا جان بوجھ کر ماں بننے کے عمل سے گریزاں رہنا… یہ تمام عوامل مسائل میں بتدریج اضافہ کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ پڑھنے اور کیریئر بنانے میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مگر شادی اور بچے پیدا کرنے کی عمر ہوتی ہے۔
جسارت میگزین: آپریشن کے بعد نارمل ہونے کے لیے خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: آج کل تو خواتین کو ہم تیسرے روز ہی کھڑا کر دیتے ہیں۔ ماسوائے کچھ احتیاط کے تمام سرگرمیاں ہی کی جاسکتی ہیں جیسے زائد وزن اٹھانے سے اجتناب، ایسی اشیاء نہ کھائیں جس سے قبض ہو۔ ورزش اور چہل قدمی کریں۔ انڈا، دودھ، دہی، گوشت، سبزی سب مناسب مقدار میں کھائیں۔ کولڈ ڈرنک چاہے شوگر فری ہی کیوں نہ ہو، نقصان دہ ہے۔ کولڈ ڈرنک عموماً ہاضمے کے لیے پی جاتی ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں۔ محض فیشن ہی بن گیا ہے۔ صبح ناشتا جلدی کریں، کھانا بھوک لگنے پر ہی کھائیں۔ روزمرہ کے کام کرسکتی ہیں۔
جسارت میگزین: اپنی میڈیکل خدمات کے حوالے سے کوئی ایسا واقعہ جو یاد رہا ہو؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: خدا کا شکر ہے مریض اور ان کے خاندان والے غیر معمولی اعتماد کرتے ہیں جس پر بعض دفعہ حیرت بھی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ایک پیچیدہ کیس میں مریضہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل تھی۔ زندگی کی طرف واپس نہ لوٹ سکی۔ اس کے شوہر نے بعد میں دوسری شادی کی۔ بھروسے کا عالم یہ تھا کہ دوبارہ میرے پاس ہی اپنی بیوی کو لایا۔
27 دسمبر 2007ء جس دن محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا، اُس روز حالات بہت خراب ہوگئے تھے، کراچی میں جگہ جگہ جلائو گھیرائو کی خبریں تھیں۔ میں اُس دن الخدمت میں حسب معمول مریض دیکھ رہی تھی، اتنے میں موبائل پر فون آیا، فون کرنے والے نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ایس ایس پی چودھری اسلم بول رہا ہوں، میری ٹیم کے ایک انسپکٹر کی اہلیہ اسپتال میںداخل ہے، آپ براہِ کرم کیس کرکے گھر جائیے گا وہ بہت پریشان ہیں۔
میں نے کہا میرے لیے سارے مریض ایک جیسے ہوتے ہیں، اگرچہ شہر کی صورتِ حال خراب ہے لیکن کیس کے بغیر گھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مریضہ کے جسم میں خون کی کمی تھی، اُس زمانے میں الخدمت اسپتال میں بلڈ بینک کی سہولت بھی نہیں تھی۔ اس خاتون کے شوہر نے خون کے حصول کے لیے تعاون کی درخواست کی۔ میں ان خراب حالات میں پولیس موبائل پر حسینی بلڈ بینک گئی، پولیس کے مسلح سپاہیوں کو دیکھ کر بلڈ بینک کا عملہ گھبرا گیا۔ بہرحال ہم مریضہ کے لیے وہاں سے خون لے کر واپس آئے اور رات کو اس کا آپریشن ہوا، اور زچہ بچہ بخیریت رہے۔ اس واقعے کے بعد محکمہ پولیس کے بہت سے لوگ میرے پاس اپنی بیگمات کو لے کر آنے لگے۔
جسارت میگزین: ڈاکٹروں کی عید کیسی ہوتی ہے؟ آپ عید پر کیا کرتی ہیں؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: تمام ڈاکٹروں کی عیدیں عام لوگوں سے مختلف انداز میں گزرتی ہیں، خاص طور سے ایسے ڈاکٹر جن کو ایمرجنسی میں کیس دیکھنے اسپتال جانا پڑتا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں خواتین چوبیس گھنٹے میں سے کسی وقت بھی اسپتال آسکتی ہیں، اس لیے میری شاید ہی کوئی عید یا بقرعید ایسی گزری ہو جس میں ایک یا دو تین بار اسپتال نہ جانا پڑا ہو۔ بعض دفعہ تو عید کا زیادہ دن اسپتال میں گزر جاتا ہے جس کے باعث بچے اور فیملی کے لوگ ناراض بھی ہوتے ہیں، لیکن ہم جس پیشے سے وابستہ ہیں اس میں مریض ہی سب سے اہم ہوتے ہیں، خاص طور سے حاملہ خواتین کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے اگر ڈاکٹر صحیح وقت پر نہ پہنچے۔ اس کے باوجود ہماری عید بھی اسی طرح خوشیاں لے کر آتی ہے جیسی کہ باقی تمام مسلمانوں کے لیے کر آتی ہے۔
جسارت میگزین: قارئین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
ڈاکٹر صدیقہ فیاض: او پی ڈیز کے دوران اندازہ ہورہا ہے کہ لڑکے لڑکیوں میں ذہنی ہم آہنگی کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھیں، مل کر ساتھ چلنے سے بہت سے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ والدین شادی سے قبل لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو برداشت اور سمجھوتا کرنا سکھائیں۔ لڑکے خواتین اور نئے بننے والے رشتوں کا احترام کریں۔ لڑکیوں کو کچھ زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن کچھ دن برداشت سے رشتے میں قدر بڑھ جاتی ہے۔ برابری کے چکر میں خرابیاں ہورہی ہیں۔ کسی ایک کو جھکنا ہی پڑے گا۔
اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے لیے یہ پیغام ہے کہ ہمیں کینسر پیشنٹ اور مساجد و مدارس سے وابستہ لوگوں کو ہر ممکن رعایت دینا چاہیے۔ میں اس کے لیے خود بھی ہر ممکن کوشش کرتی ہوں۔ ہمارا معاشرہ علما اور مساجد سے وابستہ لوگوں کی عزت تو کرتا ہے لیکن ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرتا۔ مساجد اور مدارس کے عملہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، اس لیے ان کے لیے خاص طور سے رعایت ہونی چاہیے۔ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ نارمل ڈیلیوری ہر مریضہ کا حق ہے جس کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے۔ ڈاکٹر کسی بھی حال میں اپنی کسی مصروفیت یا مالی فائدے کے لیے آپریشن نہ کرے، کیوں کہ یہ اخلاقی اور شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
جسارت میگزین: بہت شکریہ ڈاکٹر صدیقہ فیاض صاحبہ۔