جماعت اسلامی کے اخبار میں صحافت کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا رحجان نہ تھا اور نہ ہے،سید محمود احمد مدنی کا ایک یادگار انٹریو

278

(دوسرا اور آخری حصہ)

طاہر مسعود: ملک میں صحافت کے ضابطہ اخلاق کی تشکیل کے سلسلے میں ایک بحث و مباحثہ بہت عرصے سے جاری ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ صحافت کے ایک ضابطۂ اخلاق کی تشکیل ہونی چاہیے لیکن اس ضابطۂ اخلاق پر صحافتی انجمنوں‘ حکومت اور مالکان اخبارات کا کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔ اسی حوالے سے پریس کونسل کی تشکیل کے سلسلے میں ایک خاکہ بھی سامنے آیا ہے لیکن اس پر بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے کہ ضابطۂ اخلاق ہو یا پریس کونسل ان پر کوئی اتفاق رائے کیوں نہیں ہوتا؟ جب کہ دوسرے ملکوںمیں مثلاً بھارت میں پریس کونسل بنے ہوئے ایک زمانہ ہوچکا ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ہمارے ہاں پریس کونسل کا قیام ایک ایشو کیوں بن گیا ہے؟

محمود احمد مدنی: دیکھیے میں اخباری تنظیموں میں بھی رہا ہوں۔ مدیرانِ جرائد کے فورم پر بھی بیٹھا ہوں اور یہ جو پروسس ہمارے ملک میں چلا ہے اس میں‘ میں بڑی حد تک شریک بھی رہا ہوں۔ میری رائے یہ ہے کہ کچھ مفاد پرست عناصر ہیں جو کسی قسم کی پابندی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ ایسے ضابطۂ اخلاق کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں مثلاً یہ بات کہ اگر کوئی غلط خبر چھپی ہے اور عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے یا جس بھی فورم پر اس کا فیصلہ آیا ہے کہ جناب یہ خبر غلط چھپی ہے تو اخبار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس فیصلے کو چھاپے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت سے مفاد پرست عناصر ایسے ہیں جو اس قسم کی پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور اس صورت حال سے حکومت بھی فائدہ اٹھاتی ہے یعنی حکومت عوام میں یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اخبار والے کسی بات پر متفق نہیں ہوتے ہیں حالانکہ جہاں تک سی پی این ای کا تعلق ہے اس نے یہ پہلے کہہ دیا ہے کہ آپ ضابطۂ اخلاق جاری کریں اور اس کی پابندی بھی سب کے لیے لازمی قرار دیں۔ اب اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو یہ حکومت کی اپنی کم زوری ہے۔

طاہر مسعود: ملک میں صحافت کے معیار کے حوالے سے ایک بات کہی جاتی ہے کہ اردو صحافت کا معیار انگریزی صحافت کے معیار سے کم تر ہے اور اردو اخبارات میں خاص طور پر تفتیشی رپورٹنگ نہیں ہوتی۔ سیاسی تجزیے زیادہ گہرائی میں جا کر نہیں کیے جاتے‘ صرف تبصرے ہوتے ہیں اور ان میں بھی چل چلائو کا انداز ہوتا ہے۔ اردو صحافت کے معیار کے بلند نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

محمود احمد مدنی: اس کی دو‘ دو جہتیںہیں۔ ایک یہ کہ اردو صحافت میں جب تک نیا خون نہیں آئے گا اور نئے آنے والے صحافیوں کو تفتیشی رپورٹنگ کا شوق اور ولولہ نہیں ہوگا‘ اس وقت تک یہ کمی پوری نہیں ہوسکتی۔ ہوتا اصل میں یہ ہے کہ جیسے ہی آدمی رپورٹر بنتا ہے اس کے اوپر بہت سے نئے دروازے کھل جاتے ہیں‘ مفادات‘ آرام طلبی اور دوسری کمزوریوں کے۔ تو وہ یہ سوچتے ہیں کہ جب یہ سارے کام ہو رہے ہیں تو ان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ جا کر تفتیشی رپورٹنگ میں اپنا وقت ضائع کریں۔ جب تک یہ صورتِ حال رہے گی۔ اس وقت تفتیشی رپورٹنگ کا جو پہلو کمزور ہے وہ رہے گا اور اس کی ذمہ داری بہت کچھ مالکان اخبارات پر بھی ہے‘ مالکِ اخبار کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی واقعہ اگر ہوا ہے تو اس پر فوری طور پر چند گھنٹوں میں ایک چلتی ہوئی رپورٹ آجائے اور اس کے چھپنے کے دو‘ تین دن بعد اس مسئلے کو بھلا دیا جاتا ہے۔ کوئی نیا موضوع پیدا ہو جاتا ہے‘ کوئی نیا دھماکا ہو جاتا ہے۔ تفتیشی رپورٹنگ میں جو تیاری کا کام ہے اپنا وقت لگا کر محنت کرنے کا جو جذبہ ہے وہ ہمارے صحافیوں میں کم ہے۔ جب تک یہ صورت حال رہے گی‘ اردو جرنلزم میں یہ کمزوری باقی رہے گی۔

(اس خاکسار نے جنگ اخبار کے میر شکیل الرحمن سے ایک مرتبہ استفسار کیا تھا کہ آپ کا اخبار اردو دنیا کا سب سے بڑا اخبار ہے‘ لیکن آپ کا اخبار تفتیشی خبر نگاری پر بالکل توجہ نہیں دیتا۔ کیا آپ ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ ملک میں کرپشن‘ کمیشن اور کک بیک کا جو بازار گرم ہے‘ تفتیشی خبر نگار ان بدمعالگیوں کو بے نقاب کریں۔ میر شکیل الرحمن نے جو جواب دیا اس سے محمود احمد مدنی کے بتائے گئے اسباب کی کہ اردو اخبارت میں فیچر نگاری کا فقدان کیوں ہے؟ تصدیق ہوتی ہے۔ میر شکیل صاحب نے فرمایا ’’ہم تو چاہتے ہیں مگر رپورٹروں کی اپنی اپنی Excuces (معذرتیں) ہیں‘ ہم انہیں مجبور تو نہیں کرسکتے۔‘‘ (ط۔م)

طاہر مسعود: ہمارے ہاںگزشتہ کچھ عرصے میں لفافہ جرنلزم کے اصطلاح سامنے آئی اسی طرح بلیک میلنگ اور دھونس کی صحافت عام ہوتی جارہی ہے خصوصاً جب سے ڈیکلریشن کی پابندیاں نرم پڑی ہیں اور اخبار آسانی سے جاری کرنا ممکن ہو گیا ہے اب ایسے لوگ بھی اخبار جاری کر رہے ہیں جن کے بیرونی مفادات ہیں‘ جو کاروبار کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں اور ایک ہتھیار کے طور پر اخبار کو استعمال کرنا چاہے ہیں۔ اس رجحان سے جو صحافت کی بدنامی ہوتی ہے اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

محمود احمد مدنی: یہ ہمارے معاشرے میں جو عمومی انحطاط پیدا ہوا ہے مختلف شعبہ ہائے حیات میں۔ زندگی کے مختلف پہلوئوں میں‘ یہ بھی اس کا ایک مظہر ہے۔ میں نے جیسا پہلے عرض کیا کہ صحافت اب مختلف بدعنوانیوں کو چھپانے کا اور مختلف بدعنوانیوں کے ذریعے مفادات حاصل کرنے کا نام بن گیا ہے۔ جب تک اس رجحان کو روکا نہیں جائے گا اور معاشرے میں یہ شعور پیدا نہیں ہوگا کہ کون سے اخبارات اور کون سے اخبار والے اپنے مفادات کے لیے صحافت کا استعمال کر رہے ہیں‘ اُس وقت تک یہ رجحان باقی رہے گا‘ ختم نہیں ہوگا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں صحافت کے شعبے میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں بھی اخلاقی پہلو پر زور دینے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہے۔ اس ضمن میں بھی صرف تاریخ‘ جغرافیہ اور مختلف اسالیب تحریر پر تو بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن جو کمٹ منٹ ہے صحافت میں‘ جو بے نفسی ہونی چاہیے اس کا ہمارے ملک میں کوئی اہتمام نہیں ہے۔ جب تک یہ رہے گا‘ صحافت مطلب پرستی کا اور دنیا کمانے کا ذریعہ بنی رہے گی۔

طاہر مسعود: آپ ایک عرصے تک ایک جماعت کے اخبار سے وابستہ رہے تو آپ کا تجربہ کیا ہے‘ جماعتی پریس جو ہے وہ معروضی پریس تو نہیں ہوتا اور نہ غیر جانب دار پریس ہوتا ہے‘ بڑی حد تک وہ جانب دار پریس ہوتا ہے تو آپ کو ایک غیر جانب دار اخبار کے بعد ایک جانب دار اخبار میں کام کرنے کا جو تجربہ ہوا‘ آپ ان دونوں تجربوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

محمود احمد مدنی: یہ بات آپ کی درست ہے کہ کسی بھی جماعت کا جو اخبار ہوتا ہے‘ وہ اس جماعت کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے خبریں چھاپتا ہے اور مضامین لکھتا ہے لیکن اگر جماعت کا اپنا کوئی اخلاقی معیار ہے تو پھر وہ اخبار اس اخلاقی معیار کا بھی پابند ہوتا ہے۔ میں نے جس جماعتی اخبار میں کام کیا ہے‘ اس میں اور بہت سی برائیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس میں صحافت کو اپنے مفادات کے لیے خاص طور پر دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان نہ تھا اور نہ ہے اور یہ جو آج کل کا معاشرہ ہے مفاد پرستی کا‘ اس میں یہ بات بڑی غنیمت ہے‘ ورنہ آج کل تو ہم یہ دیکھتے ہیںکہ بڑے سے بڑا اخبار نویس اور بڑے سے بڑا اخبار بھی کسی نہ کسی سطح پر جا کر سمجھوتا کرلیتا ہے اور اپنے اصولوں کے خلاف کوئی نہ کوئی کام کر بیٹھتا ہے۔ کم سے کم جماعتی اخبار کا جو تجربہ ہے وہ اس کے برعکس ہے یعنی بجائے فائدہ اٹھانے کے نقصان ہوا۔ جماعت کا جو اخبار ہے اسے پہلے ہی اشتہار کم ملتے ہیں۔ عام طور پر اس کی حکومت سے لڑائی رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ سودی کاروبار نہیں کرنا چاہیے لہٰذا اگر کوئی بینک کا اشتہار ملتاہے تو جماعت اشتہار نہیں لیتی۔ جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاپولیشن پلاننگ اسلام کے خلاف ہے تو حکومت کی طرف سے پاپولیشن پلاننگ کا اشتہار ملتا ہے اور وہ عام طور پر خوب ملتے ہیں تو وہ بھی قبول نہیں کرتی۔ جماعت کی وجہ سے اخبار کو فائدہ نہیں پہنچا۔ اخبار کو مختلف جہتوں سے نقصان پہنچا ہے۔ ابھی ریفرنڈم ہوا‘ جماعت ریفرنڈم کے خلاف تھی۔ ٹھیک ہے ہر جماعت کا مؤقف تھا‘ کچھ حامی تھے کچھ مخالف تھے اور حکومت نے خوب دل کھول کر صدر مشرف کے ریفرنڈم کے حق میں اشتہارات بانٹے اور چھاپے۔ سارے اخباروں نے وہ اشتہار حاصل کیے۔ جماعت اسلامی کے اخبار نے وہ اشتہار قبول نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیںکہ چونکہ ہم مخالف ہیں لہٰذا ہم اس کا اشتہار بھی نہیں لیں گے۔ تو ’’جسارت‘‘ کا جہاں تک تعلق ہے اس نے جماعت کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا‘ کوئی مفاد حاصل نہیں کیا بلکہ نقصان ہی ہوا صحافیوں کا۔

طاہر مسعود: آپ کوئی اور بات اگر کہنا چاہتے ہوں صحافت کے پیشے کے حوالے سے اپنی سرگزشت کے حوالے سے تو ارشاد فرمائیں؟

محمود احمد مدنی: چوبیس سال میں نے ’’جنگ‘‘ میں کام کیا۔ پندرہ سال ’’جسارت‘‘ میں کام کیا۔ پورے چالیس سال ہو گئے مجھے صحافت کے پیشے میں۔ چالیس سال کی یہ سرگزشت بڑی سبق آموز ہے۔ میںنے لوگوں کو اور معاملات کو بہت قریب سے دیکھا ہے خاص طور پر اقتدار میں تبدیلی کیسے آتی ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ آدمی مقتدر اعلیٰ کی حیثیت سے خود کو مستحکم کیسے سمجھتا ہے اور کیسے کیسے وہ ہتھکنڈے اور حربے استعمال کرتا ہے۔ پھر ایک دن اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں تھا‘ یہ سب کچھ تو ہوا میں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کو سمجھنے کے لیے اس پیشے سے زیادہ کوئی پیشہ اہم اور مناسب نہیں ہے۔ عام آدمیوں کو جو بات سمجھنے میں بڑا وقت لگتا ہے‘ ایک صحافی جس کی نگاہوں کے سامنے یہ تبدیلیاں آتی ہیں‘ وہ معاملات کو چند لمحوں میں سمجھ لیتا ہے یعنی یہ بات کہ کراچی میں جو حال ہی میں بم دھماکا ہوا اس میں فرانسیسی ماہرین مارے گئے‘ یہ کس نے کروایا؟ ممکن ہے ہمارے وزیر داخلہ‘ ہماری حکومت‘ ہمارے افسران بالا کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ میںسمجھتا ہوںکہ ایک تجربہ کار صحافی کو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی جس کو اس سے فائدہ پہنچا ہے اس نے یہ دھماکا کروایا ہے۔ پاکستان کے جو دشمن ہیں جو پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ خواہ ان کا کوئی نام ہو۔ ضروری نہیں کہ ان کا چہرہ آپ کے سامنے آئے‘ جن کو فائدہ پہنچا ہے‘ انہوں نے کیا ہے اور ہمیں ان ہی کے پیچھے لگنا چاہیے۔ زندگی کو سمجھنے اور زندگی کو گزارنے کا ایک بہت ہی اچھا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایک بھرپور صحافیانہ زندگی گزارے۔ پھر اس کے بعد معاملات میں کوئی پے چیدگی باقی نہیں رہتی۔

حصہ