آئینہ

397

دنیا کی چکا چوند میں گر مجھے کچھ بھایا تو اس نامور مردانہ برانڈ کا کھڑکھڑاتا کرتا شلوار، جو میں زمزمہ کے ایک بنگلے سے دو تلوار جاتے ہوئے راستے میں دیکھا کرتا تھا۔ بڑے بڑے شیشوں کے پیچھے ڈمیوں پر چڑھے وہ کلف لگے کاٹن کے سوٹ آئے دن بدلتے رہتے تھے اور ہر نیا چڑھنے والا لباس پہلے سے زیادہ میری آرزو بنتا جاتا تھا۔

یہ آرزو پچھلے چھ سال سے میرے دل میں پل رہی تھی، مگر نہ جانے کیوں ناصرہ نہیں چاہتی تھی کہ میری یہ آرزو پوری ہو۔ حالانکہ اب تو ہم غربت کے اس دور سے بھی گزر آئے تھے جس میں آرزوئیں صرف اور صرف حسرت بنی رہتی ہیں۔ اب تو میں چند ہزار کا ایک کھڑکھڑاتا ہوا کرتا شلوار خرید کر پہن سکتا تھا۔ میرے بیٹے پہنتے تھے، ناصرہ انہیں دیکھ دیکھ کر واری صدقے جاتی تھی، پر جب کبھی میں کہہ دیتا کہ میرے لیے بھی ایسا کاٹن کا سوٹ بنا دو تو وہ ہنس کر کہتی’’ آئے ہائے! تم سے کہاں پہنا جائے گا یہ اکڑا ہوا کرتا۔‘‘

میں بس حیرت سے اس کا منہ دیکھتا رہ جاتا۔ وہ میرے کپڑے خود سیا کرتی تھی، نہ جانے یہ اُس کی محبت تھی یا بچت! میں نے کبھی اس سے پوچھا نہیں، پر دل کہتا تھا دوسری بات زیادہ درست ہے۔ یاد نہیں پڑتا تھا کہ کبھی اماں نے بھی مجھے کلف لگا کرتا پہنایا ہو، لیکن اماں سے مجھے گلہ نہیں تھا۔ اماں نے مجھے ایسے گھر میں جنم دیا تھا جہاں کمانے والا ایک اور کھانے والے دس تھے۔ ابا کی وہ واحد کمائی صرف ضروریاتِ زندگی پر خرچ ہوتی تھی۔ جلد ہی وہ بھی کم پڑنے لگی تو مجھے بارہ سال کی عمر میں استاد اکمل کے اڈوں پر بٹھا دیا گیا۔ ان اڈوں پر سلمہ ستارہ، کورہ، دبکہ، موتی اور طرح طرح کے نگینے میرے دوست بن گئے اور میں بہت کم وقت میں زردوزی کا ماہر کاری گر بن گیا۔ میری کمائی سے گھر کے حالات بھی کچھ سنبھل گئے، مگر میری کمائی کے ساتھ ساتھ میری زندگی کے معاملات بھی اماں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں ہی رکھے۔ میرا کھانا پینا، پہننا اوڑھنا وہی کرتی رہیں۔ دن رات کی محنت نے کبھی مجھے سر اٹھا کر دنیا دیکھنے کا موقع ہی نہ دیا۔ سچ کہوں تو میں ایک سادہ منش انسان تھا، دنیا کے جھمیلوں سے زیادہ اڈوں پر بیٹھنا مجھے اچھا لگتا تھا۔

شادی کے بعد اماں نے میری کمائی اور معاملاتِ زندگی ناصرہ کے حوالے کردیے۔ مجھے اس بات کا کبھی ملال نہیں ہوا۔ میں تو ناصرہ کو پا لینے پر ہی حیران تھا۔ ناصرہ دسویں پاس تھی، رنگ روپ میں بھی اچھی تھی، سب سے بڑھ کر گھرداری میں طاق اور سلیقہ شعار تھی، ہر معاملے میں مجھ سے بہتر ہونے کے باوجود میرے ساتھ وفادار تھی، اسی لیے میں زندگی بھر اس کے آگے کبھی سر نہیں اٹھا سکا۔ غربت کے دنوں میں جوڑ توڑ اور چھوٹی چھوٹی بچت کرکے گھر چلاتی رہی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی سلائی تھی۔

اکمل استاد کے گزر جانے کے بعد میں نے اپنا اڈہ ڈال لیا، مگر ایک اڈے کی کمائی میں اوپر تلے کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گزارا کیسے ہوتا! تب ناصرہ نے سلائی مشین سنبھال لی۔ وہ محلے والوں کے ہی نہیں مجھ سمیت پورے گھر کے کپڑے خود سیتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں صفائی بہت تھی، کسی کو پتا نہ چلتا کہ کپڑا درزی نے سیا ہے یا ناصرہ نے۔ مگر میرے دل کو تو پتا تھا۔

جب میرے دونوں بیٹے کچھ بڑے ہوئے تو میں نے بیٹھک میں ان کے لیے بھی اڈے ڈال دیے اور اپنا ہنر اُن میں منتقل کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ خوش حالی آنے لگی، حالات بدلنے لگے۔ لیکن میری زندگی کے معاملات ناصرہ کے کنٹرول میں ہی رہے، وہ میرے کپڑے خود ہی سیتی رہی۔ نہ جانے کیوں وہ چاہتی تھی کہ میں اس کی پسند کا منظر ہی بنا رہوں۔ شاید یہ اس کی مجھ سے شدید محبت تھی یا بچت کا انداز۔

چھ سال قبل ایک مشہور ڈیزائنر میڈم نے میرا اچھا کام دیکھ کر مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔ میں نے اڈے بیٹوں کے حوالے کیے اور خود زمزمہ کے ایک بنگلے میں ڈیزائنر میڈم کے ساتھ کام کرنے لگا۔ غریبوں کے محلے سے نکل کر پوش علاقے میں کام کرنے سے زندگی میں بہت کچھ بدل گیا۔ پرانا مکان نیا ہوگیا، بچوں کے رشتے اچھے گھروں میں ہونے لگے۔ بڑے لوگوں کی تعیشات سے بھری زندگی دیکھ کر بھی میرے اندر کا سادہ منش انسان سادہ ہی رہا، لیکن نہ جانے کیسے اس مشہور برانڈ کے کلف زدہ سوٹ میرے دل کو بھاگئے تھے، میں ہر روز آتے جاتے شیشوں کے پار سجے نئے نئے انداز سے سلے خوب صورت رنگوں والے لباس دیکھا کرتا تھا۔ ناصرہ کی جوڑ توڑ اب بچوں کی شادیوں کے لیے تھی۔ مجھے اس پر اعتراض بھی نہ تھا، بس میری ایک آرزو پوری ہونے دیتی، مگر میں جب اسے کہتا کہ مجھے ایک کاٹن کا کرتا شلوار اس برانڈ کا لینا ہے تو خوب ہنستے ہوئے کہتی’’چھوڑو بھی، یہ برانڈ والے تو نرا چونا لگاتے ہیں لوگوں کو۔ دیکھنا اس عید پر میں تمھارے لیے سب سے اچھا واشنگ ویئر کا سوٹ بناؤں گی۔‘‘ پپو کی شادی بھی عید کے دن ہی طے تھی۔

میرے طبقے کے لاکھوں لوگوں کی طرح وہ بھی واش اینڈ ویئر کو ’’واشنگ ویئر‘‘ ہی بولتی تھی۔ پھر وہی ہوا، عید کا دن قریب آیا تو وہ میرے لیے بسکٹی رنگ کا نرم و ملائم سوٹ لے آئی، لیکن میرے دل میں تو برانڈڈ کلف لگا کرتا بس گیا تھا۔ عید پر ڈیزائنر میڈم نے بونس دیا تو میں نے وہ پیسے ناصرہ کو نہیں دیے۔ عید سے کچھ دن پہلے میں نے ناپ دے کر برانڈ سے پستئی رنگ کا کھڑکھڑاتا کرتا شلوار سلوا لیا۔ مصروفیت میں ناصرہ کو پتا نہیں چلا ورنہ تو خوب ہنگامہ کرتی۔ عید کا دن، پھر بیٹے کی شادی… میری خوشی دہری نہیں تہری تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ کر خوش تھا کہ آج لگوں گا نا میں بیٹے کا باپ جب کاٹن کے کلف لگے سوٹ میں سیکڑوں لوگ مجھے مبارک باد دیں گے۔ شام گہری ہوئی تو میں نے چپکے سے اپنا سوٹ نکالا اور کمرہ بند کرکے تیار ہونے لگا۔ ایک عجیب سی سرخوشی میرے وجود پر طاری تھی، احساسِ تفاخر میں مجھے کچھ بھی عجیب نہیں لگ رہا تھا۔ بس سوچ سوچ کر مسکراتا رہا کہ آج دولہا کا باپ سب سے الگ ہی نظر آئے گا۔

یہی سوچتا ہوا میں کمرے سے باہر نکلا تو سامنے سے آتی دو عورتیں مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں اور منہ نیچے کرکے ہنستی ہوئی چلی گئیں۔ ان کی ہنسی پر میں کھٹکا، اس کے بعد وہاں سے گزرنے والی ہر آنکھ مجھے خود پر ہنستی محسوس ہوئی۔ میں جلدی سے پپو کے کمرے میں چلا گیا، وہاں جہیز کا سامان سج چکا تھا، میں بڑے سے سنگھار میز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ آئینے میں جو تھا کیا وہ میں ہی تھا؟ ہاں، شاید ساڑھے چار فٹ قد والا وہ شخص میں ہی تھا۔ پچکے گال، پتلا دبلا منحنی سا وجود اکڑے ہوئے کرتا شلوار میں کسی اور ہی سیارے کی مخلوق دکھائی دے رہا تھا۔ یکدم میرا دل تاسف سے بھر گیا، ہزاروں روپے خرچ کرکے دیرینہ آرزو پوری ہوئی بھی تو میری اپنی ہی نگاہ کھا گئی۔
سب کی نظروں سے بچتا ہوا میں اپنے کمرے میں آگیا اور ناصرہ کا سیا ہوا بسکٹی رنگ کا سوٹ پہن لیا، جس کی بٹن پٹی اور جیب پر اس نے گولڈن کڑھائی کروائی تھی۔ آج مجھے یقین ہوگیا تھا کہ وہ واقعی مجھ سے محبت کرتی تھی۔
nn

حصہ