بازار سے آتے ہو ئے اسما نے جا بجا زمین کھدی ہوئی دیکھی، ایک بورڈ بھی لگا ہوا تھا جسے وہ نہ پڑھ سکی، کیوں کہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ گھر آکر سب سے پہلے بابا سے پو چھا ’’بابا! یہ گھر سے کچھ فاصلے پر کیا بن رہا ہے؟‘‘
بابا نے بتا یا ’’اسکو ل بن رہا ہے‘‘…’’نیا اسکول بن رہا ہے!‘‘ تعجب سے اسما نے دہرایا اور خوشی سے اپنی سہیلی رضیہ کو بتانے چلی گئی کہ ہمارے قصبے میں اسکول بن رہا ہے۔
ساری سہیلیاں اسما کے گھر جمع ہوتیں، جہاں وہ مختلف کھیل کھیلتیں، باتیں کرتیں۔ اسما کے اخلاق کے باعث سب اس کی بات مانتے۔ سہیلیاں ایک زبان ہوکر بولیں ’’اگر اسما اسکول میں داخلہ لے گی تو ہم سب بھی اسکول جائیں گے۔‘‘
جتنی تیزی سے اسکول مکمل ہوا تھا ایسا لگتا تھا جیسے اسکول بنانے والوں کو بھی اتنی ہی جلدی ہے جتنی ان لڑکیوں کو تھی۔
اسکول مکمل ہوا، ٹیچر آئیں، سب سے پہلے اسما اپنی سہیلیوں کے ساتھ داخلہ لینے پہنچ گئی۔ سب لڑکیاں بہت خوش تھیں، سب کو داخلہ مل گیا تھا۔ اسما دل لگا کر محنت سے پڑھتی، اساتذہ کا احترام کرتی، ان کی ہر بات مانتی اور دوسروں سے منواتی، مجال ہے کوئی ایک لڑکی بھی چھٹی کرتی ہو۔ ہر نصابی اور غیر نصابی سر گرمیوں میں اسما سب سے آگے آگے ہوتی ۔ وہ پورے گاؤں کی آنکھ کا تارا تھی۔ سارے گاؤں کی امید اور خوابوں کی تعبیر تھی۔
اسما کی ذہانت، فرمانبرداری، اخلاق وکردار کی وجہ سے اساتذہ بھی اسے پسند کرتے۔ اس میں نہ جانے کیا بات تھی، آواز میں جادو تھا یا الفاظ میں تاثیر کہ سب اس کی بات مان لیتے۔ داخلے کے لیے کہا تو پورے قصبے سے بچے اسکول آنے لگے۔ اسما قصبے میں اسکول کی اور اسکول میں قصبے کے لوگوں کی سفیر تھی۔
اچانک 8 مارچ کا دن آگیا، ہر سال آتا ہے لیکن اِس سال اسما اور اس کی سہیلیوں کو متاثر کر گیا۔
اسما کے بابا ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے۔ اس پر عورت مارچ کی جھلکیاں دکھائی جارہی تھیں۔ اسما کے بابا نے کہا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تو بھائی نے اپنا موبائل فون بابا کو دکھایا ’’بابا! یہ دیکھیں تفصیل آپ کو یہاں ملے گی۔‘‘ سوشل میڈیا پر وڈیوز بھری پڑی تھیں۔ عجیب عجیب نعرے جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’میں جس طرح بیٹھوں‘‘، اور نہ جانے کیا کیا۔
پھر ان نعروں پر اصرار کے یہ صحیح ہیں… ہمیں آزادی چاہیے، برابری چاہیے،حق چاہیے۔
بابا کو یاد آیا جب اُن کے ابا جی فوت ہوگئے تھے تو بہن بھی اپنا حق لینے آئی تھی۔ ابا نے زمین اور جائداد میں جو حصہ بنتا تھا، دے دیا تھا۔ اب یہ حیرت تھی کہ بیٹھنے کے لیے اجازت لینے کے لیے ڈھول تاشے کے ساتھ سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت ہے! یہ ساری تو اعلیٰ تعلیم یافتہ، مال دار خواتین ہیں، انھیں تو ہزارہا طریقے آتے ہوں گے اپنا حق مانگنے کے۔
ابا، اماں اور بھائی کی تکون سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔ اسما تین چار چکر لگا چکی تھی، اس کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے، کانوں میں خطرے کا الارم بج رہا تھا، اضطراب سے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے۔ وہ مجسم کان بن گئی تھی مگر کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ نشریاتی رابطے میں خرابی تھی، صرف تصویر آرہی تھی۔ یہ مثلث جب بیٹھتی تو کوئی بڑا فیصلہ کرکے اٹھتی۔
’’یا اللہ خیر…‘‘ اسما کے دل سے دعا نکلی۔ اسما کا رواں رواں اس نشست کا نتیجہ جاننے کے لیے بے تاب تھا۔
بم پھٹا،آتش فشاں ابلا یا کیا ہوا اسما سمجھ ہی نہ سکی، اس لاوے نے اسما کی خواہشات کو جلا کر خاکستر کردیا تھا، اسما پر اس کے ابا نے پابندی لگا دی تھی کہ اسکول نہیں جائے گی۔ لڑکیاں پڑھ لکھ کر سڑکوں پر اس طرح ان ہی عورتوں کی طرح موجود ہوں گی، کیا فائدہ ایسی تعلیم کا! کوئی ضرورت نہیں پڑھنے کی۔
اسما کا رو رو کے برا حال تھا، آنکھیں سوج گئیں اور اس نے بھوک ہڑتال کردی تھی۔ اسما کے ساتھ ساتھ وہ لڑکیاں بھی گھر بیٹھ گئیں جو اس کے ساتھ اسکول گئی تھیں۔ اسکول کے منتظم اعلیٰ کا فون آیا، استانی شمسہ اسما کے گھر آئیں اماں سے بات کرنے کہ بچیوں کو اسکول بھیج دیں، بچیوں کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے۔
مگر گھر والے نہیں مانے۔
رمضان شروع ہوئے تو اسما نے روزے رکھے، عبادات پر توجہ دی، ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا کرتی کہ اسے پڑھنے کی اجازت مل جائے۔ آخری عشرے میں اعتکاف میں بھی بیٹھی۔ اس کی آخری امید صرف اس رب کی ذات تھی جو ستّر مائوں سے بڑھ کر چاہتا ہے، کہ اس در سے خالی کوئی نہیں جاتا۔
رمضان میں جو باجی درس دینے آرہی تھیں، انہوں نے امی کو سمجھایا کہ ضروری نہیں اگر ایک غلطی کررہا ہو تو سب ویسے ہی کریں۔ تعلیم، تربیت اور شعور انسان کو نکھارتے ہیں۔ میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں، کیا آپ نے ایسی کوئی برائی مجھ میں دیکھی؟ آپ کو میرے کردار میں کوئی جھول نظر آتا ہے؟ اکیلی میں ہی نہیں، بہت سی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین باکردار، بااخلاق، باشعور اور سلجھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اماں نے یہ ساری باتیں بابا جان کو بتائیں اور بھائی کو بھی۔ آہستہ آہستہ رویوں سے برف پگھلی، خیالات سے جمی گرد ہٹی اور چاند نکلنے کے بعد چاند رات کو اسما کو دوبارہ اسکول جا نے کی اجازت مل گئی۔ اسما خوشی سے نہال ہوگئی۔ اس کی اصل عید تو یہی عید تھی، اس کی زندگی کی سب سے بہترین عید، اس کے گھر والوں کی طرف سے دی گئی قیمتی عیدی۔