امی اس دفعہ ہم عید کیسے منائیں گے ؟ نہ ہم نانی اورماموں کے گھر جاسکتے ہیں پچھلے سال تو ہم نے ان کے ساتھ اسلام آباد میں عید منائی تھی اس بار اسلام آباد نہیں جارہے ۔۔فہد منہ بناتے ہوئے کہا ۔
’’بیٹا!آپ کو تو معلوم ہے حالات کی تنگی کی وجہ سے اس سال نہیں جاسکتے۔اور پھر تمھاری پھوپھو بھی تو عید کے دن آتی ہیں ۔‘‘
’’امی پھوپھو تو عید کے تیسرے دن آتی ہے ۔عید کے شروع کے دو دن کیا کروں گا ؟میرے دوست بھی اپنے رشتے داروں سے ملنےیا گھومنے جاتے ہیں۔ ‘‘
بیٹا !
’’اس دفعہ تم اپنے پرانے دوستوں سے ملنے جاؤ ۔گفٹس دو ۔پرانی یادیں تازہ کرو ۔دیکھنا تم بہت انجوائے کرو گے ۔‘‘امی کی تجویز فہد کو بہت پسند آئی۔
آخر کار عید کی خوشیوں بھرا دن بھی آپہنچا ۔فہد اپنے والد کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گیا ۔گھر واپسی میں اہل محلہ سے عید ملی ۔ابو سے عیدی لی ۔امی نے شیرخورمہ باٹنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔پھر اس کے بعد امی اتنے سارے گفٹس ہاتھ میں لیے ہوئے آئی “فہد یہ تمھارے دوستوں کےگفٹس ہیں ۔امی نے فہد کے ہاتھ گفٹس دیتے ہوئے کہا ۔
شکریہ امی ۔فہد نے سارا دن اپنےدوستوں میں گذارا۔
شام کو امی کو دوستوں سےملاقات کی روداد سناتے ہوئے اس کی چہرے کی خوشی سے امی اس کی خوشی کا اندازہ لگا رہی تھی ۔
’’امی آپ کو پتا ہے کہ ایک دوست جس سے ملاقات کیے ہوئے برس ہو گئے جب اس سے ملاقات کرنے گیا تو پتا چلا کہ اس کے والد کی جاب ختم ہو گئی اس نے عید کے کپڑے بھی نہیں بنوائے۔اور اس کے گھر تو شیر خورمہ بھی نہیں بنا۔ساتھ وہ اپنی شرمندگی چھپا رہا تھا لیکن میں نے اسے تسلی دی ۔اور اپنی عیدی بھی اس کو دے دی اور گفٹس لے کر تو وہ بہت خوش ہوا۔‘‘
’’امی اب میں سوچ رہا ہو کہ میں اپنا عید کا ایک سوٹ امجد کو دے دوں۔تاکہ وہ پہن سکے۔‘‘
فہد نے نرم لہجے میں کہا ۔
’’کیوں نہیں ۔یہ تو بہت اچھا آئڈیاہے۔‘‘
جب تک ہم کسی سے ملتے نہیں ہے تب تک ہمیں کسی کے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لیے میں آپ سے کہتی تھی کہ عید کا دن صرف سونے یا موبائل گیمز کھیلنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے ملنا بھی چاہیے ان سے ملکر جو خوشی محسوس ہوتی ہے وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔
’’جی امی ۔أج میں نے اصل عید کا مزا پالیا ۔خوشیاں باٹنے سے بڑھتی ہے فہد نے مسکراتے ہوئے کہا۔‘‘