ننھے جاسوس۔ ادھوری ڈکیتی

185

انکل کیا آپ اسے ہمیں دکھا سکتے ہیں۔ حیدر علی نے کہا ایسا ممکن ہے لیکن تم دونوں اگر رات کے وقت میں میرے گھر آ جاؤ تو میں تمہیں دکھا سکتا ہوں۔
رات کی وجہ سے جمال اور کمال اپنے والد کو بھی اپنے ہمراہ لیتے آئے۔ انسپکٹر حیدر علی نے وہ جوڑا ان کے حوالے کیا اور خود جمال اور کمال کے ساتھ گپ شپ میں مشغول ہو گئے۔ جمال اور کمال نے ایک اور ایسے شاپر کا مطالبہ کیا جس میں وہ جوڑا پیک کیا جا سکے۔ شاپر فراہم کر دیا گیا۔ جمال اور کمال نے پہلے شاپر کو نہایت احتیاط کے ساتھ اتارا۔ حیدر علی اس احتیاط کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ ابھی وہ کچھ بولتے کہ جمال اور کمال نے ان کو مخاطب کرکے کہا کہ انکل اس پر انگلیوں کے نشانات اگر محفوظ رہ گئے ہوں تو ضرور حاصل کیجے گا۔ پھر پورے جوڑے کو کھولا اور حیدر علی سے کہنے لگے کہ کیا پوری بستی میں ایسی گھیر والی شلوار اور ڈھیلی ڈھالی قمیض کوئی پہنتا ہے؟، یہاں کا ایسا کلچر تو نہیں۔ یہ سن کر اور دیکھ کر حیدر علی جیسے چونک سے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جمال اور کمال نے حیدر علی کو قریب بلا کر کہا کہ جوڑے کی پہچان کےلیے ڈرائی کلین والے نے جو ایک کپڑے کی اسٹرپ اس کے ساتھ نتھی کی ہے، ہمیں اس پر لکھے نمبروں سے ایسا احساس ہو رہا ہے جیسے یہ کپڑوں کی رسید کے نمبر ہوں۔ یہ جان کر تو حیدر علی جیسے پاگل ہی ہو گئے۔ واہ واہ، ان سب باتوں کی جانب میرا دھیان کیوں نہ گیا۔ اس قسم کا لباس، شاپر پر انگلیوں کے نشانات کے امکانات اور ڈرائی کلین کی رسید کا نمبر وغیرہ۔ واقعی کسی کو بھی عمر میں چھوٹا جان کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عقل میں بھی چھوٹا ہی ہوگا۔ تم درست کہتے ہو، یہ دھلا ہوا جوڑا لازماً قانون کو مجرموں تک ضرور لے جائے گا۔ پک اپ تو چوری کی ثابت ہوئی تھی لیکن مخصوص قسم کا شلوار قمیص جس بستی کی جانب اشارہ کر رہا ہے وہاں قبائلی علاقوں سے آنے والے لوگ زیادہ تر عارضی طور پر رہائش پذیر ہوتے ہیں، اب رہی ڈرائی کلین کی رسید کا نمبر تو وہ بھی آس پاس کی ساری اچھی ڈرائی کلینوں کی بکوں کو تلاش کرکے نمبر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو پھر مجرم تک رسائی بہت دشوار طلب کام نہیں ہوگا۔ اس کے بعد انسپکٹر نے دونوں بچوں جمال اور کمال کو اپنے سینے سے لگا کر خوب بھینچا اور پیار سے دونوں کے سر پر دیر تک ہاتھ پھیرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ ان سے وعدہ کیا کہ وہ ہر کیس میں ان سے مشاورت ضرور کیا کریں گے۔ حیدر علی نے جمال اور کمال کے والد کو بھی خوب خوب گلے لگایا اور دعا دی کہ اللہ انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھے اور سلامت رکھے۔
جمال اور کمال نے کہا کہ انکل ہمارا شروع سے ہی یہ خیال تھا کہ پک اپ میں پایا جانے والا تازہ تازہ دھلا جوڑا مجرموں تک پہنچے میں بہت اہم ذریعہ ثابت ہوگا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جس قسم کا یہ شلوار سوٹ ہے اس نے بہت ساری الجھنوں سے بچا لیا۔ اگر یہ ایک عام سا سوٹ ہوتا تو پھر بات کچھ اور طول پکڑ سکتی تھی۔ جس طرح آپ نے خود اظہار خیال کیا کہ اس قسم کا لباس زیب تن کرنے والے فلاں بستی میں عارضی طور پر قیام کرنے آتے ہیں تو پھر اس بات پر دھیان بھی ضرور رکھنا ہوگا کہ کہیں آنے والا یا والے اپنے اپنے علاقوں کی جانب لوٹ تو نہیں جائیں گے۔ اس سلسلے میں آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کو اور کیا کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ رہی یہ بات کہ یہ ڈرائی کلین کہاں ہوگی، اس میں بھی ہماری رائے یہی ہے کہ وہ ممکن ہے اسی علاقے کے آس پاس ہی کی ہوگی اور ہوگی بھی ایک عام سی ڈرائی کلین کیونکہ جس انداز میں لباس کو پیک کیا گیا ہے یہ کسی خاص اور اعلیٰ ڈرائی کلین کی پیکنگ نہیں ہو سکتی۔ الجھن کی اگر بات ہے تو فقط اتنی سی کہ واردات کے ارادے سے آنے والوں نے اس سوٹ کو آخر اپنے ساتھ کیوں رکھا یعنی اپنے ٹھکانے پر کیوں چھوڑ کر نہیں آئے۔
انسپکٹر حیدر علی ان کی باتیں بہت غور سے سن رہے تھے۔ جو جو باتیں وہ کر رہے تھے، حیدر علی ان سب پر ٹھیک اسی انداز میں سوچ رہے تھے۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سوچ وہ خود رہے ہوں اور جمال اور کمال اپنی زبان سے ان کی سوچ کو الفاظ میں ڈھال رہے ہوں۔ بات ختم ہونے پر انھوں نے جمال اور کمال کو اور بھی دعائیں دیں اور وعدہ کیا کہ وہ انھیں ہر لحاظ سے اپ ڈیٹ رکھیں گے۔
ٹھیک اگلے دن پورا کھیل اپنے انجام تک پہنچ چکا تھا۔ اسٹوری تو اگلے دن کے اخبار میں آنا تھی لیکن انسپکٹر حیدر علی سرِ شام ہی عام لباس میں جمال اور کمال کے گھر موجود تھے۔ کہنے لگے کہ تمہارا اندازہ درست تھا کہ مجرموں کو جوں ہی شک ہوگا کہ پولیس ان تک پہنچنے کے قریب ہے وہ اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ جائیں گے۔ ہوا یوں کہ جب آس پاس کی ڈرائی کلینوں کی چھان بین کی گئی اور ان کی رسید بکوں میں جوڑے پر لگی اسٹرپ پر لکھے رسید نمبر کی تلاش جاری تھی تو کسی نے مجرموں کو خبر کردی کہ پولیس ان تک پہنچنے ہی والی ہے۔ اس خطرے کے پیشِ بندی کے طور پر میں نے تمام لاری اڈوں پر پہرے بٹھا دیئے تھے اور خاص طور سے ایسی بسوں یا لاریوں پر نظر رکھنے کے احکامات جاری کئے تھے جو قبائلی علاقوں کی جانب جاتی ہوں۔ اسی تلاش میں ہمیں ایک لانڈری کی رسید بک میں اسی نمبر کی ڈپلیکیٹ رسید مل گئی جو جوڑے کے ساتھ نتھی اسٹرپ پر درج تھا۔ اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ جس شخص نے انھیں یہ جوڑا دھلنے دیا تھا وہ کسی قبائلی علاقے کا شخص ہی لگتا تھا۔ لانڈری والا بہت گھبرایا ہوا تھا اور بتا رہا تھا کہ کل ہی کوئی شخص اس کے پاس آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ ممکن ہے تمہارے پاس پولیس آئے۔ اگر تم نے انھیں کچھ بتانے کی کوشش کی تو وہ تمہاری پوری شاپ کو آگ لگا دیں گے۔ وہ لوگ دھلے ہوئے کپڑے لینے بہت رات گئے آئے تھے۔ وہ شاپ بند کرکے جانے ہی والا تھا کہ ایک پک اپ پر سوار جدید اسلحے سے لیس کچھ لوگ آئے۔ بہت جلدی میں لگتے تھے۔ کپڑے لے کر وہ فوراً ہی یہاں سے روانہ ہو گئے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اگر وہ اسے دیکھے گا تو پہچان لے گا کیونکہ اس کی شکل اور حلیہ یہاں کے لوگوں کا سا نہیں تھا۔ پولیس کی تحقیق جاری تھی کہ ہمیں اطلاع ملی کہ کچھ بس اٹاپوں پر عجیب عجیب حلیے کے افراد کو بسوں میں سوار ہونے سے قبل ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جب لانڈری مین کو بلا کر تصدیق کرائی گئی تو اس نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ کپڑے اسی نے لانڈری مین سے لئے تھے۔ پکڑے جانے والے فرد نے تصدیق کی کہ پولیس نے جن لوگوں کو پکڑا ہے ان میں سے دو اسی کے ساتھی ہیں۔ باقیوں کو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ تین اور افراد جو واردات میں شریک تھے، مقامی ہی تھے۔ وہ سب کے سب کافی دنوں سے مختلف وارداتوں میں شریک تھے۔ اس طرح ایک ڈرائی کلین سے دھلے ہوئے جوڑے نے پورے گروہ کی نشاندہی کر کے آس پاس کی تمام بستیوں کو چھوٹی بڑی وارداتوں سے بچا لیا۔
انسپکٹر حیدر علی بچوں کو تفصیل بتاتے جا رہے تھے لیکن وہ بچوں کو اس طرح دیکھتے جا رہے تھے جیسے یہ ساری تفصیل بچے بتا رہے ہوں اور وہ اسے انہماک سے سن رہے ہوں۔ اِدھر ان کی بات ختم ہوئی اُدھر بچوں کے والد صاحب ایک بڑی ساری ٹرے میں چائے اور گھر کی تیار کردہ کچھ مزے مزے کی چٹپٹی چیزوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں حاضر ہوئے اور یوں ایک بڑی کارروائی اپنے اختتام تک پہنچی۔

حصہ