رمضان المبارک اپنی برکات اور سعادتوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس ماہِ مبارک کی ابدی سعادتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں یہ ایک بڑی ہی برکت والی رات ہے جس کی فضیلت کی کوئی انتہا نہیں۔ لیلۃ القدر وہ مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ لہٰذا شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل اور ذکرِ الٰہی کرنا چاہیے۔ شب قدر کی عبادت 70 ہزار شب کی عبادت سے افضل ہے۔
قرآن مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے، اور انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خبر نہیں ہوسکتی، اس لیے فرمایا ’’وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا ہے، ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
قرآن پاک نصیحت بھی ہے شفا بھی، رہنمائی بھی ہے اور رحمت بھی۔گویا یہ مہینہ جشنِ قرآن اور خوشیاں منانے کا مہینہ ہے۔
روزہ اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں معافی مانگی جا رہی ہے، طویل قیام و سجود سے اپنے خالق و مالک کو راضی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا بھی جوش پر ہے، گناہ معاف کیے جا رہے ہیں اور درجات بلند ہورہے ہیں۔
رمضان المبارک کا آخری عشرہ، یہ عظیم رات گناہ گاروں کی مغفرت کی رات ہے، مجرموں کی جہنم کی آگ سے آزادی کی رات ہے۔ یہ عبادت، ریاض، تسبیح، تلاوت کی کثرت، نوافل، صدقات، خیرات، عجز و نیازمندی، مراقبہ و احتسابِ عمل کی رات ہے۔ شب قدر میں فرشتے اور روح (جبریل) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کے لیے اترتے ہیں اور ان کے اترنے سے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور انوار چھا جاتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے لیلۃ القدر کو زندہ کیا یعنی جس نے اس رات کی عبادت کی اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ بخش دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ زن ہوگا، یہ وہ معظم رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق جلوہ گر ہوتے ہیں اور دوسری طرف فرشتے روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں اور اللہ کی رحمت پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش طلب کرنے والا کہ اس کو بخش دوں، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کے گناہ معاف کردوں۔ یہ عمل طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ اس رات میں بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ خوب توبہ و استغفار کرے اور اپنی لغزشوں پر ندامت کا اظہار کرے۔ اس عظیم رات کی ہر گھڑی قبولیت سے مالامال ہوتی ہے۔ ہر لمحہ اللہ کریم کی رحمت کا دریا جوبن پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں پورے ذوق و شوق کے ساتھ دعا مانگنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ پھر یکم شوال کا چاند نظر آنے کے بعد جب عیدالفطر کا اعلان ہوتا ہے تو مسلمانوں کے چہروں پر خوشی چھا جاتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی بندگی پیش کرتے ہیں۔
مساجد میں عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی سب بڑے چھوٹے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھا کرتے تھے اور پھر سب کو عید کی مبارک دیا کرتے تھے۔ اب ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
رشتے داروں کو عید کارڈ بھیجنا، چھتوں پر چڑھ کر چاند دیکھنا، چاند رات پر عزیزوں کے گھر جاکر تحائف دینے کی روایات دم توڑ رہی ہیں۔ یہ رات ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کا تاثر رکھتی ہے جس میں دلی خوشی و مسرت اور دوستوں اور رشتے داروں میں دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔
شوال کا چاند نظر آتے ہی عید کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں، مٹھائی کی دکانوں پر لوگوں کا جم غفیر دکھائی دیتا ہے۔ چاند رات کو بازاروں میں خوب رونق ہوتی ہے۔ شب قدر جیسی عظیم راتیں اور چاند رات جیسی قیمتی رات کے اس وقت مزدور کو مزدوری دینے کا وقت ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کے دن اور رات کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے کہ ایک پوری زندگی دے کر بھی اس کا نعم البدل ملنا محال ہے۔ لڑکیاں گھروں میں ایک دوسرے کو مہندی لگاتی ہیں، چوڑیوں اور جوتوں کی خریداری آخری آئٹم ہوتا ہے۔ تقریباً ہر گھر میں بڑا ہی دل کش ماحول ہوتا ہے۔ عید کی جتنی بھی تیاریاں کرلی جائیں چاند رات کو کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
شبِ عید آج ہمارے گھر، گلیاں جو نقشہ پیش کرتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبۂ نفس کی اشد ضرورت ہے، اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے ضائع ہوجاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیںکہ شبِ عید شاپنگ، مہنگی چوڑیوں، کپڑے کی سلائی اور میچنگ کی فکر میںگزر جاتی ہے اور اکثر ہماری فجر کی نماز غفلت کی نذر ہوجاتی ہے، حالانکہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں، اور جس نے اپنے رب کی رضا کو پا لیا وہ اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے گا۔ وہ اس کے لیے عید کا دن ہے۔ بہترطریقہ تو یہ ہے کہ شکرانے کی رات میں بازاروں کا رُخ کرنے کے بجائے پہلے سے مہندی اور چوڑیوں کی خریداری کرلی جائے۔ مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ اپنے اور گھر والوں کے لیے دعائیں کریں، کیوں کہ اس رات دعائوں کی شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ یہ ہمارے محاسبے کی رات ہے، اس رات میں گھریلو کام کاج کے دوران غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس مہینے سے ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا اور کتنا نقصان پہنچا۔ اگر کوئی غلطیاں، کوتاہیاں ہوگئیں تو یہ معافی مانگنے کی رات ہے۔