باتوں سے خوشبو آئے

334

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حسن و جمال اور متناسب اعضا کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ ہر اعضا و جوارح اس ذات پاک کی صناعی بیان کرتی ہے۔ انسان کا ہر عضو انفرادی اور اجتماعی نظام کے تحت اپنی افادیت بھی رکھتا ہے۔ ان اعضا میں ایک ایسا بھی عضو ہے جسے قرآن مجید کے سورہ رحمن میں ’’علمہ البیان‘‘ (اسی نے اس کو بولنا سکھایا۔) کہہ کر اجاگر کیا ہے۔ ہمارا ذہن جو کچھ سوچتا ہے زبان ذریعے اس کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کو بیان کے لیے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ یعنی مقصد یہ ہے کہ زبان کا استعمال کرتے وقت احتیاط کا دامن تھام لیا جائے کیونکہ ہمارا ہر ہر لفظ ریکارڈ ہورہا ہے۔
آج کل کے دورِ حاضر میں ہماری نوجوان نسل کا یہ المیہ ہے کہ جو دل میں آئے بس وہ زبان سے کہہ ڈالو بغیر سوچے سمجھے ایسے ذومعنی جملے کہنا یا بات کرناکہ جس کا براہِ راست تعلق شرم و حیا سے ہے۔
مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے قرآن و سنت اور مشرقی روایات کو بالکل پس پشت ہی ڈال دیا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’اور لوگوں سے اچھی بات کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اچھی بات منہ سے نکالنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
نہ جانے یہ کیسا ٹرینڈ ہے کہ نوجوان ہو یا تعلیمی درس گاہوں میں حاصل کرنے والے سب اپنی مرضی سے اور بلا کسی جھجھک کے لفظوں کا استعمال بغیر سوچے سمجھے گرتے نظر آرہے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں زبان کا خوب صورتی اور شائستگی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم روز آخرت اپنے رب کی بارگاہ میں سرخ رو ہوں۔ اسی لیے تو نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اچھی بات کہو یا پھر خاموش رہو۔‘‘ یعنی بے ہودہ گوئی سے سکوت بہتر ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو چپ رہا وہ نجات پا گیا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
درست انداز اور اخلاق سے پُر گفتگو نہ صرف دنیاوی عزت و عظمت کا باعث ہے بلکہ آخرت کے لیے بھی مفید ترین ہے۔
تاریخ عالم بتاتی ہے کہ جب کسی بھی قوم میں بے حیائی و فحاشی پھیل جاتی ہے تو اسلامی تعلیمات و افکار مکی جڑیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے لوگ اپنی زبان کی وجہ سے جہنم میں اوندھے پڑے ہوںگے۔‘‘
ہمارے الفاظ ہمارا اثاثہ ہوتے ہیں‘ اپنی زبان کی حفاظت کے لیے ہمیں خود کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نام نہاد مغربی روشن خیالی کے جال سے نکلنا ممکن ہو جائے۔ بقول علامہ اقبالؒ:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیؐ

حصہ