کفالت یتامیٰ ، سنت رسول بھی اور جنت کا حصول بھی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں والد سے محروم بچوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیس سے زائد مرتبہ یتیموں کا ذکر کیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ اچھا برتاؤ، ان کی کفالت اور ان کے اموال کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اور جان لو کہ جو کچھ تمہں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہے اور رشتے داروں اور یتمیوں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘

دین اسلام میں نہ صرف یتیموں کے حقوق ادا کرنے کو لازمی قرار دیا گیا بلکہ یتیموں کی حق تلفی کو بھی سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ الدھر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔‘‘

اسلام سے قبل عربوں کے درمیان معمولی معمولی بات پر کشت و خون ریزی جاری رہتی تھی، چھوٹے چھوٹے اختلافی مسائل کی بنا پر جنگیں رونما ہو جاتیں جو کہ برسوں جاری رہتی تھیں جس کے نتیجے میں آئے روز درجنوں بچے یتیم ہوجاتے اور اس کے بعد ان پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا۔ اکثر و بیشتر خاندان یتیم بچوں کے مال و اسباب پر قابض ہو جاتے، ان کی جائدادیں ہڑپ کر جاتے، انہیں تعلیم و تربیت سے عاری رکھتے اور ان کا کسی مناسب جگہ رشتہ تک نہ ہونے دیتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ یتیم بچے جب اپنے سن شعورکو پہنچتے اورعاقل و بالغ ہو جاتے تو ان کے ہاتھ سوائے غلامی و اسیری، افلاس و تنگ دستی کے کچھ بھی نہ آتا۔ لیکن جب اسلام نے اپنی کرنیں بکھیریں اور پورے عرب کو اسلام کے رہنما اصولوں سے روشناس کرنا شروع کیا تو نبی اکرمؐ نے اپنی مبارک تعلیمات کے ذریعے یتیم بچوں کو ان کے حقوق دلوائے، ان کی حفاظ و نگہداشت کی اور ان کے حقیقی مقام و مرتبے سے تمام مسلمانوں کو روشناس کرایا تب کہیں جا کر یتیموں پر سے ظلم وستم کا دور ختم ہوا اور انہیں اسلام کے دامن میں سکون کا سانس ملا۔
یتیموں کی کفالت کے حوالے سے رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والاجنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اسی طرح بے شمار مواقع پر اللہ کے نبیؐ نے یتیموں کی پرورش کو بہترین عمل قراردیتے ہوئے جنت میں جانے کا ذریعہ بتایا ہے۔ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمے داری لی، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘(جامع ترمذی)
پاکستان سمیت مسلم دنیا میں ہر سال 15رمضان المبارک کو ’’یوم یتامی‘‘ٰ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں 46 لاکھ سے زائد بچے باپ کے سائے سے محروم ہیں۔ جب کوئی بچہ کسی حادثے یا وجوہات کی بنا پر اپنے والد یا ماں باپ یا دونوں کو کھو دیتا ہے تو اُس کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہے۔ یہ اس قدر بڑا صدمہ ہوتا ہے کہ اس کا اثر بچے کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ جب گھر کا واحد کفیل اچانک کسی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ جائے تو اس کا خاندان بکھرکر رہ جاتا ہے۔ والد سے محروم بچے اسکول جانے کی عمر میں دو وقت کی روٹی کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں اور اپنی ننھی ننھی معصوم خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ باپ کے سائے سے محروم بچوں کو معاشرے میں کمزورسمجھتے ہوئے ان کا حق ماراجاتا ہے، اُنہیں وہ عزت اور مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ ایسے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ اوراس کے رسولؐ نے یتیموں کی اہمیت کو اجاگر کر کے حکم دیا ہے کہ یتیموں کی ہر ممکن مددکریں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو۔ اور بدترین گھروہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) ایک موقع پر نبی اکرم ؐ نے فرمایا ’’قسم اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،اللہ تعالیٰ روز قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس سے نرمی سے گفتگو کی اور معاشرے کے محتاجوں وکمزوروں پر رحم کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی عطا کی وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم کیا۔‘‘ پھر فرمایا ’’اے امت محمد! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اس کے اپنے رشتے دار اس صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘(طبرانی)
یوں تو ملک بھر میں مختلف فلاحی ادارے یتیم بچوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود کا کام کر رہے ہیں مگر الخدمت فاؤنڈیشن واحد ادارہ ہے جس نے بے سہارا یتیم بچوں کے لیے ملک بھر میں ’’آغوش ہومز‘‘ کے نام سے20 سے زائد ایسے اقامتی ادارے قائم کیے ہیں جہاں والدین سے محروم بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما، اعلیٰ معیار کی غذا، صحت مند ماحول اور بہترین تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
آغوش ہومز میں بچوں کو مکمل رہائش، کوچنگ کلاسز، مسجد، لائبریری، کمپیوٹر لیب، پارک اورپلے گراؤنڈکے ساتھ معیاری علاج بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس وقت سندھ کے ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالہ میں جب کہ ٹنڈوالہیار کے علاقے راشد آباد میں آغوش ہومز قائم ہیں جہاں 400 بچوں کی رہائش کا انتظام موجود ہے۔
یتیم بچوں کی کفالت کے سلسلے میں الخدمت فاؤنڈیشن نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ ’’فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت ملک بھر کے 20 ہزار سے زائد جب کہ سندھ ریجن میں 2 ہزار بچوں کی کفالت کی جا رہی ہے۔
الخدمت سندھ ریجن کے تحت حیدرآباد، سکھر، خیرپور، نواب شاہ اور ٹنڈو محمد خان سمیت دیگر اضلاع میں 25 سے زائد اسٹیڈی سینٹرز بھی قائم ہیں جہاں ان یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اساتذہ موجود ہیں۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کرواتے ہیں۔ بچوں کی وقتاً فوقتاً ہیلتھ اسکریننگ کی جاتی ہے اور علاج معالجے میں بھرپور مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ رمضان المبارک میں بچوں کو عید گفٹس دیے جاتے ہیں اور بچوں کو ان کی پسند کے مطابق شاپنگ بھی کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان باہمت بچوں کی ماؤں کو مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اور چھوٹے کاروبار کے لیے بلاسود قرض بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک جامع پروگرام ہے جس میں الخدمت فاؤنڈیشن ملک بھر سے مخیر حضرات کو یتیم بچوں کی کفالت کی ترغیب دیتی ہے، ہر سال ڈونرزکانفرنس منعقد کرکے یتیم بچوں کے لیے اسپانسر تلاش کیے جاتے ہیں۔ یتیم بچوں کو مکمل چھان بین کے بعد منتخب کیاجاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے 33 لاکھ سے زائد بچے اس وقت چائلڈ لیبرکا شکار ہیں۔ ان بچوں کے ناگفتہ بہ حالات انہیں نہ صرف صحت کے مسائل سے دوچار کر رہے ہیں بلکہ تعلیم سے محرومی کے باعث وہ معاشرے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کرنے سے بھی محروم ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے سندھ میں ’’چائلڈپروٹیکشن سینٹر‘‘ کے نام سے مختلف جگہوں پر ایسے ادارے قائم کیے ہیں جہاں والدین سے محروم بچوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ ان کے حقوق کے لیے جہدوجہد بھی کی جاتی ہے۔
باہمت بچوں کو معاشرے کا قابل اور خودکفیل شہری بنانے کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔

حصہ