(دوسرا اور آخری حصہ)
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں صحافت اپنی ذمہ داریاں پورے طور پر ادا کر رہی ہے؟
ضمیر نیازی: پورے طور پر نہیں۔ کچھ افراد یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں دیکھ لیں افراد ہی نے کام کیا ہے‘ اداروں نے کام نہیں کیا ہے۔ لوگ عبدالستار ایدھی اور اختر حمید خاں کے اداروں کو نہیں جانتے‘ انہیں جانتے ہیں۔ اسی طرح صحافت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو آج بھی سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ لکھ رہے ہیں۔
طاہر مسعود: ہم لوگ ایک کرپٹ معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سیاست دانوں‘ فوجی جرنیلوں اور سول بیورو کریسی نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایک کرپٹ معاشرے میں رپورٹروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ بدعنوان عناصر کو بے نقاب کریں۔ دوسری طرف تفتیشی رپورٹنگ بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتی ہے لیکن عملاً تفتیشی رپورٹنگ کا عنصر ہماری صحافت میں بے حد کم ہے اس کا سبب کیا ہے اور کیا اس کے بغیر اخبارات عصری ذمے داریوں کی تکمیل کرسکتے ہیں؟
ضمیر نیازی: اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ہاں تفتیشی رپورٹنگ کا صحیح معنوں میں جنم ہی نہیں ہوا ہے کیوں کہ 1963ء سے 1988ء تک ہماری صحافت کو صرف پریس نوٹ اور ہینڈ آئوٹ پر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ یہ نسل جو اس وقت عملی صحافت میں ہے وہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے زیر سایہ پل کر جوان ہوئی ہے۔ تفتیشی رپورٹنگ اس معاشرے میں ہوتے ہے جو معاشرہ کھلا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’ویب آف سنسر شپ‘‘ میں اس واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ کلیم عمر صاحب ایک دن دفتر پہنچے‘ وہاں میز پر ایک فائل رکھی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ دفتر کے افسر صاحب کلیم عمر کے عزیزوں میں سے تھے انہوں نے افسر سے پوچھا کہ اس فائل میں کیا ہے؟ اس پر افسر نے زور سے قہقہہ لگایا اور فائل آگے بڑھا دی۔ جب انہوں نے فائل کھول کر دیکھا تو اُس میں اس محکمے کے بارے میں اخباری مراسلات اور خبروں کے تراشے تھے جسے ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ جس ملک میں اخباری تراشوں کی فائل ٹاپ سیکرٹ ہو‘ اس ملک میں آپ تفتیشی رپورٹنگ کیا کریں گے۔ آج کل کہا جا رہا ہے کہ تفتیشی رپورٹنگ بہت ہو رہی ہے۔ میں آپ سے عرض کروں کہ ننانوے فیصد تفتیشی رپورٹنگ ایک انگریزی اخبار میں ہو رہی ہے اور ایک رپورٹر کامران خان کر رہے ہیں‘ جن کے بارے میں مرتضیٰ بھٹو مرڈر کیس میں بے نظیر بھٹو نے عدالت میں یہ کہا تھا کہ ہم نے ان کو استعمال کیا ہے۔ اس کیس میں جب بے نظیر بھٹو کے خلاف کامران خان کی رپورٹ پیش کی گئی تو بے نظیر نے کہا کہ ان کا کیا ہے‘ ان کو تو ہم نے بھی استعمال کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بے نظیر نے کامران خان کو کہاں استعمال کیا تھا؟ کچھ سال قبل شام کے دارالحکومت میں کامران خان نے مرتضیٰ بھٹو کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو بے نظیر بھٹو کے کہنے پر ہوا تھا تو تفتیشی رپورٹنگ کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ایجنسیاں جو خبریں اخبارات پلانٹ کرنا چاہتی ہیں‘ وہ خبریں تفتیشی رپورٹوں کی صورت میں شائع ہو جاتی ہیں یا پھر ہمارا منہ کالا کرنے یا کسی اور کا منہ کالا کرنے کے لیے ایسی رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کی تفتیشی رپورٹنگ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ چونکہ ان گنت خفیہ ایجنسیاں ہیں اور ان میں پیشہ ورانہ رقابت بھی پائی جاتی ہے‘ اس کا حل اس طرح نکلتا ہے کہ کسی دوسرے ادارے کو بدنام کرنے کے لیے کچھ آدھے سچ خاموشی سے پسندیدہ صحافیوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں نام تفتیشی رپورٹنگ کا ہوتا ہے اصل میں وہ مخالف اداروں اور افراد کو بدنام کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کی ایک گھنائونی مہم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
طاہر مسعود: کامران خان کو تفتیشی رپورٹنگ میں بڑا نام اور مقام حاصل رہا ہے‘ ان کی تفتیشی رپورٹنگ کے بارے میں آپ کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے؟
ضمیر نیازی: ملاحظہ کیجیے ان کی رپورٹوں کی تفصیلات اور اعداد و شمار نیز خفیہ دستاویزات جو وہ ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ خود بھی اپنے سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔
طاہر مسعود: ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہماری صحافت میں ایجنسیوں کا عمل دخل بڑھ گیا ہے بعض رپورٹر ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور ان کی فراہم کردہ اطلاعات و معلومات کی بنیاد پر خبریں تیار کرتے ہیں۔ یہ رجحان ہماری صحافت میں کن اسباب کی بنا پر در آیا اور اس کا سدباب کس طرح ممکن ہے؟
ضمیر نیازی: جہاں تک ایجنسیوں کا تعلق ہے جس وقت جنرل ضیا الحق کے انتقال کے بعد پہلے الیکشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ایک رپورٹ ٹائم میگزین میں چھپی۔ اس رپورٹ کی ساری تفصیل ہم نے اپنی دو کتابوں میں بیان کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک ہوٹل میں چند صحافیوں سے بے نظیر کی ملاقات ہوئی۔ ایک صحافی نے ان کو کچھ مشورے وغیرہ دیے۔ رات کو اس صحافی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ایک ایجنسی کے لوگ آئے اور انہوں نے صحافی سے کہاکہ آپ محترمہ کے مشیر بنے ہوئے ہیں‘ آپ ان سے ذرا دور رہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس محفل میں چار یا پانچ صحافی تھے‘ ان میں سے کسی نے تو جا کر ایجنسی کو واقعے کی اطلاع دی ہوگی۔ یہ رپورٹ ٹائم میگزین چھپی۔ میگزین نے لکھا کہ:
Ninety precent of the reporters are in the payroll of one agency or another.
ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ سے ایجنسیاں بہت ہیں۔ ایسے حالات میں تفتیشی رپورٹنگ کہاں سے ہوگی اور کیسے ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ ہر رپورٹ اور کم و بیش تمام دستاویزات خفیہ ہوا کرتی ہیں۔ عوامی مفاد میں بتائی نہیں جاسکتیں۔ تو دو چیزیں ہوئیں ایک تو یہ کہ ہمارے صحافی حضرات ایجنسیوں کے اشارے پر چلتے ہیں دوسرے یہ کہ باقی دس فیصد صحافی جو کام کرنا چاہتے ہیں وہ کام یوں نہیں کرسکتے کہ ہر چیز خفیہ ہے اور تو اور یہ بھی خفیہ ہے کہ اخبارات کی تعداد اشاعت کتنی ہے‘ وہ کیسے؟ راجا ظفر الحق سے جو وزیر اطلاعات تھے‘ جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ میں چند بڑے اخبارات کا نام لے کر پوچھا گیا کہ ان کی اشاعت کتنی ہے تو راجا صاحب کہنے لگے کہ یہ بتایا نہیں جاسکتا کیوں کہ اے پی این ایس اور وزارت ِ اطلاعات کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ اخبارات کی تعدادِ اشاعت کا انکشاف نہیں کیا جائے گا۔ گویا یہ بھی اسٹیٹ سیکرٹ ہے۔ جس ملک میں پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے یہ کہا جائے‘ اس ملک میں سرکاری فائلوں تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے۔ ایسے میں تفتیشی رپورٹنگ کیسے ہوگی؟
طاہر مسعود: میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ ایجنسیوں کا عمل دخل اخبارات میں کن حالات میں بڑھا‘ وجہ کیا ہوئی؟
ضمیر نیازی: اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوب خان ہی کے زمانے سے وزارتِ اطلاعات کی کرسی پر جو لوگ بیٹھے رہے مثلاً ایف آر خان جو بڑے انٹی لیکچوئل سمجھے جاتے تھے اور اخبارات پر نظر رکھتے تھے اور جی پی پی ایل کا ٹیک اوور ہوا تو جنرل سرفراز اس کے چیف مقرر ہوئے۔ ایوب خان کے زمانے سے زندگی کے ہر شعبے میں فوج کا عمل دخل شروع ہوا تو صحافت کے شعبے میں بھی شروع ہو گیا۔ ایک بات درمیان میں رہ گئی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک اخبار کو پانچ افراد پڑھتے ہیں‘ ہمارے ملک کی آبادی چودہ کروڑ ہے اس لحاظ سے ایک کروڑ افراد اخبار پڑھتے ہیں۔ یہ اعداد شمار درست نہیں ہیں اس لیے کہ ہم نے اپنے طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کا ایک سروے کیا اور اس سروے کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ہمارے گھر میں چھ بالغ افراد رہتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں سے تین مرد اور تین عورتیں ہیں‘ ہمارے ہاں دس اخبارات آتے ہیں۔ ہم سارے اخبارات پڑھتے ہیں۔ ایک بیٹا تین اخبار پڑھتا ہے‘ دوسرا بیٹا صرف سرخیاں دیکھتا ہے اور ہم سے پوچھتا ہے کہ کوئی اہم خبر آئی ہے۔ اگر کہا جائے تو وہ خبر پڑھ لیتا ہے۔ ہمارے گھر کی عورتیں اخبارات کے میگزین پڑھ لیتی ہیں‘ خبروںکا صفحہ نہیں پڑھتیں۔ اسی طرح ہم نے 55 گھرانوں کا سروے کیا‘ ان میں کسی گھر میں بھی پانچ افراد اخبار نہیں پڑھتے۔ ہم کہتے ہیں کہ اخبارات پر پابندی لگا کر حکومت اپنا بین الاقوامی امیج خراب کرتی ہے‘ اس سے ملک پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مولوی اے کے فضل الحق جو مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے‘ وہ بہت مزے کی بات کہا کرتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ آپ کے خلاف فلاں اخبار نے لکھا ہے تو وہ کہتے تھے کہ ہم کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ پوچھا جاتا تھا کیوں پروا نہیں؟ تو جواب دیتے تھے کہ ’’جو اخبار پڑھتا ہے وہ ووٹ ڈالنے نہیں جاتا اور جو اخبار نہیں پڑھتا وہ ووٹ ڈالنے جاتا ہے تو ہم کو کیا پریشانی ہے۔‘‘
طاہر مسعود: اخبارات کی اشاعت نہ بڑھنے کی وجہ خواندگی کے تناسب میں کمی ہے یا یہ وجہ ہے کہ اخبار ابھی تک پڑھے لکھے طبقے کی ضرورت نہیں بنا ہے؟
ضمیر نیازی: سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ اخبار ابھی ان کی ضرورت نہیں بنا ہے۔ ہم نے ناخواندگی کا ایک بہانہ بنا رکھا ہے جن لوگوں کی میزوں پر اخبار رکھا ہوتا ہے اگر صرف وہی اخبار پڑھنا شروع کردیں تو اس سے ملک کا نقشہ بدل جائے۔
طاہر مسعود: بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اخبار پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ معاملات ہمارے اختیار سے باہر ہیں‘ فیصلوں میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے‘ ہماری رائے کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے کہ اخبار پڑھ کر سوائے اس کے کہ ذہن کو پریشان کریں اس سے بہتر یہ ہے کہ بے خبری میں جو سکون ہے‘ اُس میں پناہ لیں۔
ضمیر نیازی: بے خبری میں تو سکون 1971ء میں بھی تھا جب 12 دسمبر کو جنرل نیازی کہہ رہے تھے کہ میرے سینے سے ٹینک گزرے گا لیکن 16 دسمبر کو انہوں نے اپنا پستول اور اپنی پیٹی ہندوستانی جرنیل کے حوالے کردیے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اخبارات میںچھوٹی موٹی خبریں چھیں تو لوگوں نے اس کا یقین نہیں کیا۔ ہم اپنا ایک ذاتی واقعہ سنائیں۔ دسمبر 1971ء کے پہلے ہفتے میں ہم ایک دوست کی دعوت میں شریک ہوئے۔ وہاں ایک صاحب نے پوچھا کہ مشرقی پاکستان کا کیا ہوگا؟ ہم نے جواب دیا کہ اب کے جنوری میں مشرقی پاکستان نہیں رہے گا۔ آپ یقین جانیے کہ وہاں پانچ آدمی ہم پر پل پڑے۔ اگر اہل خانہ نہ بچاتے تو وہ ہماری تکا بوٹی کر دیتے۔ ہم تو خوف زدہ ہوگئے۔ 18 دسمبر کو ان ہی دوست کا فون آیا کہ بھائی ضمیر یہ کیا ہوگیا؟ آپ نے تو جنوری کہا تھا‘ ابھی تو جنوری بھی نہیں آیا۔ ہم نے کہا آپ لوگ اندھے ہیں۔ آپ صحیح بات سننا نہیں چاہتے اور کوئی کہتا ہے تو آپ لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی باتیں سانحے سے تین سال پہلے ہو رہی تھیں لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ آج بھی ایسے مضامین چھپ رہے ہیں جس میں پاکستان کے آئندہ حالات کے بارے میں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ ابھی ایک امریکن رسالے اٹلانٹک ’’منتھلی‘‘ میں ایک مضمون ’’ دی لالیس فرنٹیئر‘‘ (The Lawless Frontier) کے عنوان سے چھپا ہے اور یہ مضمون لکھا ہے رابرٹ ڈی کپلان نے جو اٹلانٹک منتھلی کے سینئر ایڈیٹر فلو ہیں۔ انہوں نے اس خطے کا سفر کرکے ایک خوف ناک تجزیہ لکھا ہے اور بتایا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان بھی گوگوسلاویہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ 2010 سے 2015ء کے دوران اس خطے کے بٹوارے کے لیے بھارت اور ایران میں جنگ ہو۔ اس کا ترجمہ ایک اردو اخبار میں چھپ رہا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ امریکیوں کو اب ہماری ضرورت نہیں رہی کیوں کہ اب انہیں کمیونزم سے نہیں لڑنا۔ اب انہیں پیسا کمانا ہے اور یسا کمانے کے لیے انہیں منڈی چاہیے اور ہماری منڈی سکڑتی جا رہی ہے۔ ابھی کل ہی کے اخبار میں ایک مضمون چھپا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے ویزے کے لیے پچاس ہزار درخواستیں دی گئی ہیں۔ ہمارے محلے سے تین گھرانے پورے کے پورے امریکا منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ یہ صحت مند قوموں کی نشانی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: پریس کونسل کا قیام ایک عرصے سے متنازع معاملہ بنا ہوا ہے۔ آپ کی رائے میں پریس کونسل کا قیام کیوںضروری ہے اور اس کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں؟
ضمیر نیازی: پریس کونسل کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا مسئلہ کشمیر۔ پریس کے ضابطہ اخلاق کی بات 1948ء میں کی گئی۔ پی ایف یو جے نے پریس کا ایک ضابطہ اخلاق بنایا۔ پی ایف یو جے کا اس زمانے کا جو دستور تھا‘ اس میں یہ ضابطۂ اخلاق شامل تھا۔ اس ضابطۂ اخلاق میں تین چیزیں شامل تھیں صحافیوں کی تربیت‘ آزادی ٔ صحافت کے لیے جدوجہد اور صحافیوں کا اپنا ضابطۂ اخلاق جو نہایت جامع تھا کیوں کہ یہ انہوں نے برطانیہ اور مختلف ملکوں کے ضابطۂ ہائے اخلاق کو سامنے رکھ کر بنایا تھا لیکن کسی نے اس کو اہمیت نہیں دی۔ اس کے بعد ایوب خان کے زمانے میں ضابطۂ اخلاق آیا‘ اس پر دستخط ہو گئے‘ منظور ہو گیا‘ اس کے بہتر گھنٹے کے اندر ’’پاکستان آبزرور‘‘ کا پریس سر بہ مہر کر دیا گیا اور اس اخبار پر پابندی لگا دی گئی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی ضابطۂ اخلاق بن گیا‘ اس پر دستخط ہو گئے اور انہوں نے بھی اس کی خلاف ورزی کی۔ ضیا الحق کے زمانے میں بھی ضابطۂ اخلاق بن گیا اور دستخط ہو گئے۔ تین سال بعد راجا ظفر الحق نے فرمایا کہ یہ ضابطۂ اخلاق یک طرفہ ہے۔ اگر یہ یک طرفہ تھا تو آپ نے دستخط کیسے کیے تھے۔ پچھلے دس برس میں یہ ہوا ہے کہ جب حکومت چند اخبارات سے تنگ آجاتی ہے تو ضابطہ اخلاق کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم آپ سے عرض کریں کہ جہاں تک ضابطۂ اخلاق کا تعلق ہے تو ہمارے پاس امرو نہی کا ایک مکمل ضابطہ اخلاق موجود ہے جو پوری ندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ بتایئے اس کے کتنے حصے پر ہم عمل کرتے ہیں۔ اخلاقیات پر عمل قانون کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ ہوتا ہے کٹمنٹ‘ کنویکشن اور کانشنس سے۔ اگر یہ تینوں چیزیں نہ ہوں تو آپ لاکھ قانون بنا لیں کچھ نہیں ہوگا۔ نصف صدی سے ہمارے ہاں ضابطۂ اخلاق نہیں ہے تو کیا ہو گیا اور جو ضابطۂ اخلاق چودہ سو سال سے ہمارے ہاں موجود ہے اس کا ہم نے کیا حشر کیا۔ قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔
طاہر مسعود: آپ نے بہت پہلے صحافت کے پیشے سے وابستگی اختیار کی‘ آپ جب اپنے دور کی صحافت کا موازنہ آج کی صحافت سے کرتے ہیں تو اس میں آپ کو کوئی ارتقا نظر آتا ہے یا تنزل دکھائی دیت ہے؟
ضمیر نیازی: دو باتیں ہیں۔ مواد اور ہئیت۔ ہئیت کے اعتبار سے اخبارات بہت خوب صورت ہو گئے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یعنی 62 ء اور 63ء تک اخبار میں تصویریں چھپتی تھیں تو تصویر دیکھ کر گھِن آتی تھی۔ 1950ء میں دوسری نصف دہائی میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے ہدایت کی صفحہ اوّل پر تصویر چھاپنے سے گریز کرو کیوں کہ تصویر کی جگہ سیاہ دھبا چھپ جاتا ہے۔ اب اخبارات کا حجم بڑھ گیا‘ خوب صورت چھپائی ہو رہی ہے لیکن مواد اور زبان کے اعتبار سے دیکھیے جب ڈان میں انگریزی غلط چھپنے لگے اور اردو اخبارات جو ایک ظلم کر رہے ہیں وہ یہ کہ اردو میں انگریزی الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ روزنامہ جسارت میں ایک اشتہار چھپتا ہے ’’جسارت ایڈ سیل‘‘ اس کا نام جسارت امدادی مرکز نہیں ہے۔ یہ ایڈ سیل ہے۔ ایک اردو اخبار کا نام ڈیلی ایکسپریس ہے۔ اردو اخبارات کے میگزین کے نام انگریزی میں رکھے گئے ہیں۔ خبروں میں انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کی بھرمار ہے۔ لکھا جاتا ہے ون ٹو ون ٹاک ہوگئی۔ بھلا بتایئے یہ کون سی زبان ہے؟ ایک زمانہ یہ تھا کہ عثمانیہ یونیورسٹی میں جب بھی کوئی نیا لفظ آتا تھا وہ اس کا ترجمہ کر دیتی تھی۔ جو اصطلاحیں چل چکی تھیں ان کو اردو اخبارات نے ترک کردیا اور ان کی جگہ انگریزی اصطلاحات کو رائج کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں تو اردو اخبارات میں انگریزی سرخیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ آپ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ زبان غریب ہے‘ نہیں‘ یہ زبان غریب نہیں ہے آپ خود ذہنی طور پر مفلس ہیں۔ اس کو استعمال نہ کرسکنے والا ذہنی طور پر غریب ہے۔ اردو اخبارات میں درجنوں کالم لکھے جاتے ہیں لیکن ان میں چند ہی پڑھے جاتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟
ضمیر نیازی: بس کیا کہیں! وقتِ دعا ہے جیسی خوف ناک خبریںچھپ رہی ہیں ان کی بنا پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقتِ دعا ہے۔