سوشل میڈپا پر جگمگاتا انڈونیشیا اور جلتا فرانس

518

ایک ٹرینڈ پاکستان کی لسٹ میں انڈونیشیا کا اس ہفتے اُبھرا۔ جا کر تفصیل دیکھی تو یقین ہی نہیں آیاکہ ایسا ہوگیا۔ انڈونیشیا کو عالمی انڈر20 فٹ بال کپ کی میزبانی کرنی تھی جو کہ 24 مئی سے شروع ہونا تھا۔ انڈونیشیا نے اپنے ایمانی پس منظر و جذبے کے تحت اور ہونے والے عوامی مظاہروں کے پیش نظر ناپاک اسرائیل کی فٹ بال ٹیم کی میزبانی سے انکار کر دیا۔ اس جرمِ عظیم پر فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا نے انڈونیشیا سے انڈر20 ورلڈ کپ کی میزبانی بھی چھین لی اور امکان ہے کہ اس کی رکنیت ختم کر کے کوئی پابندی ٹائپ کی چیز بھی لگا دی جائے۔

24 ٹیموں کو انڈونیشیا کے 6 شہروں میں یہ ٹورنامنٹ کھیلنا تھا۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا۔ انڈونیشیا کے جزیرے بالی کے گورنر نے وفاقی وزارت کھیل کو خط لکھ کر منع کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی ٹیم کو یہاں آنے سے روکیں۔ جکارتہ سے لے کر بالی تک انڈونیشیا میں دو ماہ بعد اسرائیلی ٹیم کی آمد کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اب اسے ایمانی جذبہ کہیں‘ سیکیورٹی تھریٹ کہیں یا جو چاہے کہہ لیں، بہرحال انڈونیشیا نے قدم اٹھا لیا اور عالمی میڈیا کی توپوںکا رُخ اس کی جانب چلا گیا۔ یقین مانیں تا دم تحریر کسی مسلم ملک کی جانب سے انڈونیشیا کی حمایت مجھے نظر نہیں آئی۔ سیکیورٹی کے وزیر نے صاف بیان دیاکہ اسرائیل کے لیے دروازے بند ہیں جب تک کہ وہ فلسطین کو آزاد نہیں کرتا۔

دوسری جانب انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو نے بظاہر یقین دہانی کرائی کہ اسرائیلی ٹیم کے فٹ بال کھیلنے سے ہماری خارجہ پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، مگر یہ بات عوام نے رد کر دی۔ یو ں انڈونیشیا اپنے ایمانی پس منظر کے ساتھ جگمگاتا نظر آیا۔ ابھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایشو سوشل میڈیا پر اور جان پکڑ لے کیوں کہ جمعرات سے یہ لسٹ میں ابھرا ہے جب پابندی کا اعلان ہوا۔ ابھی ذرا مسلمانوں کو غیرت پکڑنے میں وقت لگے گا۔ قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ 2022 مقابلے میں شامل 32 ممالک میں اسرائیل کی ٹیم شامل نہیں ہو سکی تھی۔ 1977 سے جاری انڈر 20 کے مقابلوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ 24 ٹیموں میں اس نے اپنے آپ کو فیفا قواعد کے مطابق شامل کر ایا۔ پہلا ہی جھٹکا زور کا لگ گیا، فیفا نے بہرحال مقام بدلنے کا اعلان کر دیا ہے۔

51 اسلامی ممالک اس وقت تک تو منہ چھپائے پھر رہے ہیں جب کہ ایسی ہمت کرنے والے کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ ادارے فیفا کو منہ دینا‘ وہ بھی ایک کلمہ کے رشتے پر‘ایسا کہاں ہوتا ہے؟ مادّی دنیا ہے۔ حیات تنگ کی جا سکتی ہے، مگر ایمان کی طاقت ایسی ہی ہوتی ہے۔

دوسری جانب فرانس کی جلتی ہوئی دل چسپ صورت حال سوشل میڈیا پر پھیلی نظر آ ئی۔ دل چسپ اُن جمہوری دعووئوں کی روشنی میں جس کی بنیاد پر یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کھڑا ہے۔ اس کا اصل بانی تو فرانس ہی ہے، انقلابِ فرانس کے بعد سے مورخین یہی بتاتے ہیں کہ جمہوریت کا دور شروع ہوا۔ مطلب انسانوں کی خواہشات کے مطابق طرز حکومت کا۔ مگر اِس میں انسان کون ہے اور کون نہیں اِس کے تعین کا اختیار بھی درحقیقت سلب کرلیا گیا ہے۔ فرانس میں جاری مظاہروں میں شریک ایک آدمی نے صدر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ کیسے لوگوں کی خواہشات کے برعکس کوئی قدم اٹھا سکتا ہے، وہ کوئی بادشاہ نہیں ہے اس کو عوام کی سننی ہوگی۔ صدر نے بل پاس کرانے کا درست طریقہ بھی نہیں اپنایا، ہم احتجاج جاری رکھیںگے۔‘‘

فرانس کے صدر میکرون کی پنشن اصلاحات کے خلاف مظاہروں اور ہڑتالوں نے سارا نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ یہ احتجاج اب پورے فرانس میں پھیل چکا ہے‘ یہاںتک کہ یورپ بھر میں فرانس کے لیے سفری ہدایات جاری ہو گئی ہیں کہ لوگ احتیاط کریں کیوں کہ احتجاج کسی بھی وقت پُرتشدد ہو سکتا ہے۔ احتجاج میں مستقل شدت بڑھ رہی ہے، لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری بات سنائی دینے کے لیے شور کرنا ہوگا اور یہ شور خوب ساری توڑ پھوڑ سے ہوگا۔ بینک جلا ئے جا چکے، ریلوے ٹریک پر آگ لگائی گئی، عمارات کی توڑ پھوڑ تو عام ہے۔ پولیس نے گزشتہ پیر کو فرانس بھر میں پھیلے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کوئی 4 ہزار غیر مہلک دستی بم استعمال کیے۔ میڈیا پر نشر تعداد کے مطابق گزشتہ 10 دن سے کوئی ساڑھے سات لاکھ مظاہرین نکلے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی شہری، ملعون فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی پنشن اصلاحات پر اپنے خدشات و تحفظات کو اہمیت نہ دینے پر جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ میکرون کی جانب سے سرکاری ورکرز (محنت کش) کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سے بڑھا کر 64 سال کرنے کے اعلان کے بعد لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ہڑتال پر صرف صفائی کے ملازمین ہی نہیں بلکہ تمام ٹریڈ یونین سے منسلک محنت کش شامل ہیں۔ اِن کے ساتھ اِن کے گھر والے بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ میکرون کے پیش رو سابق صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ غصہ اور ناراضی اس سطح پر ہے جو میں نے شاذونادر ہی دیکھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس احتجاجی سلسلے کے دوران ہی برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کے سرکاری دورے کو بھی ملتوی کرنا پڑ گیا، جس سے مظاہروں کو ایک بار پھر تقویت ملی ہے۔ یہ دورہ پچھلے اتوار کو ہونا تھا لیکن جمعرات کے روز سے ہی پیرس اور دیگر شہروں میں 450 سے زائد مظاہرین گرفتار ہو چکے تھے، صورتحال خراب ہو چکی تھی اس لیے دورہ منسوخ کر دیا گیا تھا جب کہ فرانس بھر میں کوئی 300 کے قریب مظاہرے جاری تھے۔ ان سب کی وڈیوز سوشل میڈیا پر مستقل وائرل رہیں۔ دنیا تو اب ویسے بھی ’’گائوں‘‘ بن گئی ہے تو اب ظاہر ہے کہ چیزیں کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ پھر خبروں کی دوڑ الگ لگی ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وجہ تو ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانا ہے تواس میں شرکا کی بڑی تعداد تو 60 سال کے آس پاس والو ںکی ہونی تھی مگر ایسا نہیں ہے، اِس میں نوجوانوں کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے، اِن کی شمولیت خاص طور پر میکرون کے لیے‘ تشویش ناک یوں بھی ہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ صدر اور اُس کی پالیسی کے بارے میں عوام مایوسی اور نا پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میکرون نے یہ فیصلہ قانون سازاسمبلی سے بھی پاس نہیں کرایا کیوں کہ اُنہیں اِس کے لیے اکثریت حاصل کرنے کا یقین نہیں تھا۔ اِس کے بجائے اُنہوں نے وزیر اعظم الزبتھ بورن کو حکم دیا کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعے اس بل کو منظور کرانے کے لیے ایک خصوصی آئینی اختیار استعمال کریں۔ یہ 11 واں موقع تھا جب میکرون کو صرف 10 ماہ میں نام نہاد آرٹیکل 49.3 کی طاقت کا سہارا لینا پڑا کیوں کہ انہوں نے گزشتہ جون میں اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دی تھی۔ اَب صورت حال یہ ہے کہ حکومت مظاہرین کے ساتھ مستقل مذاکرات کرنا چاہ رہی ہے مگر مطالبہ نہیں مان رہی۔ یورپ کے مختلف ممالک میں محنت کشوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر60-65 کے درمیان ہے۔ ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ فلاحی ریاست کے تصور میں ایسی پینشن کی مراعات قومی خزانے سے دی جاتی ہیں اور یہ خزانہ زیادہ کمانے والے شہریوں سے ٹیکس کی صورت لیا جاتا ہے۔ اس وقت فرانس میں 17 ملین افراد کو پینشن دی جاتی ہے، وہ طبقات جن کے پاس دولت زیادہ ہے ان کو ٹیکس کی مد میں فائدہ پہنچانے کے لیے یہ کام کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ’ورک ‘ اتنی جبری چیز بن جاتا ہے کہ لوگ محض کام کے لیے 2 سال بڑھنے پر اتنا سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ مگر آپ یہاں پاکستان میں دیکھیں تو معاملہ بالکل الٹ نظر آئی گا، یہاں تو ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال بھی کر دی جائے تو لوگ خوشی سے کام کریں گے، مگر وہاں لوگوں کو اِس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ہماری زندگی کے 2 سال مزید ایک نوکری کے جبر میں گزریں گے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ جمہوریت بنیادی طور پر جدید ریاست کو چلانے کا ایک ٹول ہوتی ہے جو ریاست کی ضروریات کا جبر قائم کرتی ہے۔

1923 میں جمہوریہ کے قیام کے بعد سے ترکیہ کی انتخابی سیاست نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ صدر ترکیہ رجب طیب اردوان نے حالیہ شدید زلزلے کے باوجود اپنے قومی انتخابات کو آگے نہ بڑھانے کا پُرعزم فیصلہ کیا۔ جیسی بھی سیاست ہو، ہر مسلمان کے دل سے رجب طیب اردوان کے حق میں ہی دُعا نکلتی ہے، وہ بہرحال جمہوری سیاست کے منہج میں ایک مناسب شہرت کے حامل اسلامی رہنما جانے جاتے ہیں جو کسی طور اسلام دشمن جذبات نہیں رکھتے۔ ملک میں ایک بار پھر سیاسی جوش و خروش بڑھ رہا ہے کیوں کہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات 14 مئی کو ہونے والے ہیں۔ انتخابات سے پہلے کبھی اتنی بڑی جماعتیں اتحاد بنانے کے لیے متحد نہیں ہوئیں۔ یہی نہیں سوشل میڈیا پر ترکیہ کے انتخابات میں بھی ’’اسلامی ٹچ‘‘ کا بڑا زور محسوس ہو رہا ہے۔ صدر اردوان نے عمل اور نفاذ سے قطع نظر بہرحال کسی نہ کسی صورت عوام کو اسلام کے ساتھ وابستگی پر فخر کرنے کا شعور تو دیا ہے۔

ترکیہ انتخابات میں اپوزیشن لیڈر اور صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو بھی سوشل میڈیا مہم کے بڑے اعلان کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ افطار پارٹی کی تقریبات میں بھی شریک ہو رہے ہیں، جو کہ اُن کی شخصیت اور کردار سے مطابقت نہیںرکھتی۔ سوشل میڈیا پر جاری ایسی ایک تصویر میں میڈیا کے سامنے بڑے خشوع و خضوع سے دُعا کی اداکاری کرکے یہ باور کرا تے نظر آئے کہ وہ بھی مسلمان ہیں اور شاید روزے بھی رکھتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ شخص اسلام کا بدترین دشمن اور بنیادی طور پر ایک نصیری غیر مسلم ہے۔ ان کے عقائد میں روزے و دیگر ارکان اسلام شامل ہی نہیںہوتے، یہ تو قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ خود بھی کسی سے کم نہیں رہا۔ اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے اس شخص نے سازشی جال مضبوط کیا اور استنبول و انقرہ کی میئر شپ اردوان کی جماعت کو شکست دے کر حاصل کی۔ یہ خود عالمی سوشلسٹ انٹرنیشنل تنظیم کا رکن ہے ، جو اس کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے۔ اسی افطار پارٹی کی تصویر میں اس کے ساتھ میرال اکشنار بیٹھی نظر آئی جس نے اسلامی ٹچ دینے کی وجہ سے شاید زندگی میں پہلی بار اسکارف پہننے کی زحمت کی ہو کیوں کہ اردوان نے جو ترکیہ میں اسلامی حمیت کے رنگ بکھیرے ہیں ، اس کے لیے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ سب ضروری ہے۔ اندازہ کرلیں کہ ووٹ لینے کے لیے بے چارے سیاست دانوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کمال نے انتخابی مہم سوشل میڈیا پر بھاری اخراجات کے ساتھ شروع کر دی ہے، اس کو بھی یہی لگتا ہے کہ لوگوں پر ایسے ہی اثرات ڈالے جا سکتے ہیں۔کمال کے ٹوئیٹر اکائونٹ پر کوئی 96 لاکھ فالوورز ہیں۔ فیس بک پر 20 لاکھ فالوورز ہیں۔ خوب لائیو سیشن چلا رہا ہے اپنی سرگرمیوں کے، یہ بھی زلزلہ زدہ علاقوں میں جا کر اپنے لیے حمایت تلاش کر رہا ہے۔ اس کا نعرہ ہے کہ وہ ایک تازہ آغاز کرے گا، اس کا ہدفِ تنقید موجودہ حکومت کی نااہلی ہے، اس کے لیے وہ اردوان کی حکومت کو ’شیطانی حکومت‘ قرار دے رہا ہے، جب کہ اردوان اور اس کی ٹیم کا اب کوئی ربع صدی کا تجربہ تو ہو چکا ہے، اس میں سب سے اہم عوام کی جانب سے فوجی بغاوت کو کچلنے کا اقدام بھی شامل ہے۔

پاکستان میں بھی سیاسی منظر نامہ ایسا ہی رہا ، عمران خان کی مقبولیت کو مستقل بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے معاملات کو حل کریں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دے کر آگے بڑھا دینا، عوام کے لیے اپنی حمایت کم کرنے کے مترادف رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مستقل رد عمل جاری ہے۔ زمان پارک سے عمران خان کی گرفتاری کی کوشش ہو یا عدالتی کارروائی، عمران کے ساتھیوں کی گرفتاری ہو یا مینار پاکستان جلسہ۔ سب مستقل موضوع بنے رہے۔ حکومت نے جب عمران خان کی تقریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کی تو کس طرح اس کو پبلک کیا گیا وہ خود الگ موضوع بنا کر پیش کیا گیا۔ ڈرون شاٹس سے جلسہ کی حاضری ہو یا بلٹ پروف کنٹینر پر عوام کے تبصرے۔ عدلیہ کی جانب سے توشہ خانے کیس میں 29 اپریل تک کی طویل تاریخ ملنا ، جج سے بدتمیزی پر گرفتاری کے وارنٹ کا بار بار معطل ہونا ہو یا عدلیہ کی جانب سے مستقل ایسے رویے جو اُن کے اپنے اصول ’مساوات‘ کے منافی ہوں، خود موضوع بنتے چلے گئے۔ یہی نہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف کیس سننے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ جانا خود ایک الگ موضوع تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ عدالتی وآئینی معاملات عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں اس لیے اس پر پارٹی پالیسیاں ہی بڑھائی جاتی نظر آئیں۔ دوسری جانب مفت آٹے کی تقسیم پر ہونے والے بدترین واقعات، اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے کہ ریاست کا نظام عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر سکتا۔ ریاست اگر مفت آٹا بھی بانٹنا چاہے تو وہ بھی ناکافی یا بدنظمی کا شکار ہوجاتا ہے۔

حصہ