شاہ رخ کے دادا

319

کل تراویح پڑھ کر آتے ہوئے مجھے عجیب منظر دیکھنے کو ملا میرا مطلب ہے کہ میں شاہ رخ کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر پریشان ہو گیا اس وقت محلے کے کئی نوجوانوں نے اس کے دادا کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا دور سے یہ منظر دیکھ کر مجھے لگا کہ دادا نکل لیے یعنی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید شاہ رخ کے دادا اگلے جہاں کوچ کر گیے ہیں میں تیزی سے قدم بڑھتا ہوا اس جم غفیر کے پاس جا پہنچا قریب پہنچ کر میرے سارے خدشات غلط ثابت ہوئے میں جو کچھ سوچ رہا تھا یہاں ایسا کچھ نہ تھا بلکہ شاہ رخ کے دادا تو پہلے کے مقابلے میں خاصے ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے ان کی آواز بھی خاصی توانا تھی وہ محلے کے نوجوانوں کو واعظ دیتے ہوئے فرما رہے تھے۔

’’آج مہنگائی اور روشنی کی رفتار میں کوئی فرق نہیں رہا وہ تمام اصول اور کلیے جو مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوا کرتے تھے فیل ہو چکے ہیں سستی اشیاء کا حصول اب خواب بن کر رہ گیا ہے ہمارے بچپن میں چند روپوں کے عوض بوری بھر چیزیں آجایا کرتی تھیں اب تو بوری بھر روپوں سے بھی چند چیزیں خریدنا ممکن نہیں کیا زمانہ تھا جب آٹا ایک روپے کا پانچ کلو ملتا تھا آج ایک سو بیس کا ایک کلو ملتا ہے وہ بھی ملاوٹ شدہ،غضب خدا کا آلو جن کی کوئی حیثیت نہیں تھی پچاس روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہو رہے ہیں میں ابھی چھوٹا ہی تھا کہ ایک جگہ ملازمت کرنے لگا صبح کام پر جاتے ہوئے خالہ خیرن سے دو پیسوں کے پراٹھے لے لیا کرتا اور بہترین ناشتہ کرتا تھا اس زمانے میں ایک سکے میں بھی بہت کچھ مل جاتا تھا گھی وہ بھی اصلی ایک کلو وہ بھی روپے سے کم میں ملتا تھا کام کے دوران بھوک لگتی تو دو پیسوں میں کچالو بنوا لیا کرتے ایک پیسے کے امرود، انار سیر بھر ملا کرتے تھے شام کو گھر واپسی پر ایک پیسے کی ریوڑیاں تو کبھی گنڈیریاں لے لیتے اور تو اور ڈھیڑ آنے گز کپڑا ملتا تھا اب تو تین سو روپے گز بھی نہ ملے ہم نے سستا اور اصلی مال کھایا ہوا ہے تبھی تو چل رہے آج کے بچوں کی طرح تھوڑی کہ ذرا سی دیر پیدل چلیں تو موت آتی ہے پڑوس میں جانے کے لیے بھی موٹر سائیکل چاہیے۔

ابھی شارہ رخ کے دادا کی باتیں چل ہی رہی تھیں کہ عارف سے نہ رہا گیا کہنے لگا۔

’’چھوڑو دادا رہنے دو تمہاری عمر کے سارے لوگ اسی طرح گپے ہانکتے ہیں سستا اور اصلی مال کھایا ہے ارے ہم نے تو سنا ہے پہلے ایک وقت کے کھانے کے بعد شام کی فکر ہوتی تھی سارا دن مشقت کرنے کے بعد بھی اتنے پیسے نہ ملتے کہ آدھا پاؤ گوشت ہی پکا لیں ایک ایک سوٹ کئی سال تک پہنا جاتا تھا جب جیب میں کچھ نہ ہو تو بازار میں فروخت ہونے والی چیزوں کی قیمت کون جانتا ہے ہم نے تو سنا اور دیکھا ہے کہ عوام ہر دور میں مہنگائی مہنگائی کی گردان کرتے رہتے ہیں تم کون سے زمانے کی بات کر رہے ہو یہاں بیٹھ کر باتیں بھگارنے سے تو اچھا ہے گھر جا کے اللّٰہ اللّٰہ کرو،،۔

عارف کی باتیں شاہ رخ کے دادا پر تو جیسے بجلی بن کر گری ہوں انتہائی غصے میں بولے

’’دفع ہو یہاں سے کس کا لونڈا ہے کہاں سے آیا تو جاتا ہے کہ اٹھاؤں لاٹھی،،
اس سے پہلے کہ بات مزید آگے بڑھتی میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا

عارف تمہیں بڑوں سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے جہاں تک شاہ رخ کے دادا کی باتوں کا تعلق ہے تو انہیں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متعلق جو کچھ بھی کہا وہ اپنی درست ہے میرے نزدیک انہوں نے جو بھی کہا ان مقصد صرف اور صرف بڑھتی ہوئی مہنگائی پر بات کرنا تھا لہزا تم بدتمیزی مت کرو اور گھر جاؤ یوں میں نے عارف کو اس کے گھر کی جانب روانہ کر دیا عارف کی بدتمیزی اور بدزبانی اپنی جگہ غلط اقدام ہے لیکن یہ سچ ہے کہ خریدار ہمیشہ مہنگائی کا ہی رونا روتے نظر آتے ہیں شاید ہر دور میں ہی اشیاء ضروریہ غریب عوام کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں شاہ رخ کے دادا نے جس زمانے کی بات کی اگر اس وقت واقعی اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کم تھیں تو بالکل ہوں گی لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایسا تھا تو اس زمانے کی آج کے دور سے کیا نسبت کیونکہ آج تو عجیب طرح کی بے حسی اور لا تعلقی پورے معاشرے میں چھائی ہوئی ہے آج حال یہ ہے کہ لوگوں میں سسکیاں بھرے تک کی سکت باقی نہیں رہی ایسے میں عوام طوائف الملوکی جیسے جن کے خلاف آواز اٹھانے کی طاقت کہاں سے لائیں یہاں تو حالت یہ ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور چوہے گندم کھا رہے ہیں جبکہ چمن اور دوسرے سرحدی علاقوں سے گندم،آٹا اور دیگر اناج پڑوسی ملک اسمگل ہو رہا ہے بارڈر پر تین تین چار چار کلو میٹر تک ٹرکوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں یہ سب اسی بے حسی اور لاتعلقی کے آئینہ دار ہیں جو حکومتی سطح پر عوام کے ساتھ رواں رکھی جارہی ہے شاہ رخ کے دادا کے زمانے کی بات چھوڑیئے ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو انگریزوں کی حکومت کو یاد کیا کرتے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس وقت قانون کے یکساں نفاذ اور عمل درآمد پر زور دیا جاتا تھا قانون شکنی کا کوئی تصور نہ تھا جبکہ آج کسی بھی بازار میں جا کر دیکھیے ایک ہی چیز ہر دکاندار مختلف قیمت پر فروخت کرتا دکھائی دے گا روز مرہ استعمال کی کوئی بھی چیز دیکھ لیں یا کھانے پینے کی وہ اشیاء مثلاً گوشت،دودھ،اور سبزیاں جن کی قیمتیں سرکار مقرر کرتی ہے وہ بھی مقررہ قیمت پر دستیاب نہیں ہوتیں ہر کوئی من مانی قیمتیں وصول کرنے میں لگا ہوا ہے اور حکومت چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہے ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ مہنگائی طلب زیادہ اور رسد کم ہونے کے باعث بڑھتی ہے لیکن یہاں معاملہ طلب اور رسد کا نہیں بلکہ مسئلہ بدانتظامی اور لاقانونیت کا ہے اس کے علاؤہ مہنگائی کی ایک وجہ ذخیرہ اندوزی بھی ہے جسے روکنے کے لیے موثر قوانین موجود نہیں اگر کچھ ہے بھی تو اس پر عمل کروانے والے حکمران نہیں جن کی چشم پوشی کے باعث نہ صرف عوام کی بلکہ ملک کی اقتصادی حالت روز بہ روز ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے جبکہ حکومت کے دعوے کے مطابق ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں یہ جھوٹ اور فراڈ نہیں تو اور کیا ہے اگر ایسا ہے یعنی ملکی اقتصادی حالت بہتر ہو رہی ہے تو اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے مہنگائی آسمان تک کیوں پہنچ چکی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور ہو بھی کیسے جب ہر کوئی مال کماؤ اور مال بناؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہو تو جواب نہیں ملا کرتا میرا یقین ہے کہ آج اگر حکومتی سطح پر مہنگائی کی روک تھام کا فیصلہ کر لیا جائے تو چند روز میں مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ ملک میں توانائی کا بحران،امن وامان کی خراب صورتحال، روپے کی قدر میں کمی،بھتہ خوری،بدعنوانی،حکومتی اخراجات میں اضافہ،ٹیکسوں کی وصولی یابی میں ناکامی،قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں کی شرائط، گیس، بجلی اور پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ،بے روزگاری،تعلیم کا فقدان،زرعی پیداوار میں کمی،آبی وسائل کی قلّت مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دلدل سے عوام کو نکلے گا کون؟ کیا وہ حکمران جو خود صنعت کار ہوں یا وہ حاکم جو تاجروں کی منشاء کے مطابق بجٹ بناتے ہوں یا پھر اقتدار میں بیٹھے وہ لوگ جو آٹے دال کا بھاؤ تک نہ جانتے ہوں جن کے محلوں میں ملازمین کی ایک فوج ظفر موج ہو یا وہ حکمران جن کے گھر اناج کے بڑے بڑے گودام ہوں۔

بات سیدھی سی ہے کہ عوام کو ریلیف دینا ان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ان کے نذدیک تو وہ ملک کے کے وہ پالیساں بہتر ہیں جو ان کی ذات کے لیے فائدے مند ہوں انہیں عوام کی مشکلات سے کیا۔

یہ بھی سچ ہے کہ ایک طرف اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیچھے حکمرانوں کی ناقض پالیسیوں کا عمل دخل ہے تو دوسری جانب تھوڑا سا قصور ہمارا بھی ہے یعنی ہمارے سماجی رویے بھی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں،آپ اپنے اطراف نظر دوڑا کر دیکھ لیں جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے،لوگوں میں بھی خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے،فضول خرچی بڑھی حد تک قومی مزاج بنتی جارہی ہے،خاص طور پر خوراک ضائع کرنے کے معاملے میں شاید ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں، تقریبات میں جتنا کھایا نہیں جاتا اس سے کہیں زیادہ بے دردی سے برباد کردیا جاتا ہے،وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں کی ایک تہائی آبادی خط غربت کے نیچے کی زندگی بسر کر رہی ہے،جہاں ایک طرف کھانا کھانے والوں سے ریسٹورینٹ بھرے پڑے ہیں تو دوسری جانب تھر کے معصوم بچے بھوک و افلاس کی منہ بولتی تصویر ہیں،ایک جانب رشوت،لوٹ مار اور بد عنوانی سے کمائے گیا مال اپنے جلوے دکھا رہا ہے تو دوسری طرف مزدور اور تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے،جائز و ناجائز طریقے سے مال کمانے والا طبقہ ایک ایسا حصار ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے اپنے تئیں ہاتھ میں چھری لیے قسائی بنتا جارہا ہے اور مظلوم کٹتا ہی جا رہا ہے،ایسے حالات میں مظلوم صرف وہ ہے جو اپنی تنخواہ میں گزارا کرتا ہے کیونکہ رشوت لینے والا رشوت کے ریٹ بڑھا دیتا ہے،دودھ والا چارہ مہنگا ہونے کا بہنا بنا کر دودھ مہنگا کر دیتا ہے،قسائی منڈی تیز بتا کر گوشت کے نرخ بڑھا دیتا ہے جبکہ سبزی والا اپنے طریقے سے حساب برابر کر دیتا یے،یوں ناجائز منافع خوری کے اس تبادلے کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اس کی زد میں صرف اور صرف مزدور اور تنخواہ دار طبقہ ہی آتا ہے وہ اپنے اوپر پڑنے والے اس بوجھ کو کسی دوسرے پر منتقل کرنے کی کسی قسم کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا اگر ان حالات کا جائزہ تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص دراصل اپنے آپ کو ہی لوٹ رہا ہے اور غریب لوٹ کا مال بنا ہوا ہے،لگتا ہے مہنگائی کا یہ دائرہ جسے معاشرے کے مختلف طبقات نے خود پیدا کیا ہے اسی طرح پھلتا پھولتا رہے گا اور نہ گائی اسی طرح ایک طبقے سے دوسرے کو منتقل ہوتی رہے گی چہ جائیکہ ایسا طبقہ پیدا ہو جو ایسے افعال کے خلاف ہو ایسا معاشرہ جو اس اسے ناپسند سمجھتا ہو تبھی ہمیں مہنگائی بے روزگاری اور طواف الملوکیت عذاب سے نجات مل سکتی ہے۔

حصہ