بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کے زیر اہتمام قومی زیتون میلہ

678

قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے کئی پھلوں کے نام لیے ہیں۔اِن میں انار ، انگور، کھجور، کا ذکر ایسا ہے جو چار مرتبہ زیتون کے ساتھ آیا ہے۔ایک جگہ تو اللہ نے انجیر اور زیتون کی قسم ہی اٹھا ئی،پھر سورۃ نور میں الگ سے زیتون کو مبارک درخت پکارا ۔مسلمان قرآن مجید کو اپنے خالق و مالک کی جانب سے تمام بنی نوع انسان کے لیے کامل ہدایت و رہنمائی مانتے ہیں ۔ اِس نسبت سے کلام الٰہی کا ہر ہر لفظ عام الفاظ نہیں لیے جاتے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی درخت کا ذکر ’بابرکت ‘فرما دیا ہے،یااس کی قسم کھائی ہو تو بات بالکل عام نہیں رہتی۔

زیتون کے بارے میں ہم جب دیکھتے ہیں تو اس کی تاریخ و کچھ افادیت ایسی ہی نظر آتی ہے۔ایسا درخت جس کی عمر پانچ ہزار سال تک ہے،جس کی لکڑی،جس کے پتے،چھال،جس کا پھل سب کے سب بے پناہ افادیت سے بھرے ہیں ۔اس وقت دنیا بھر میں پھیلاہوا ماحولیاتی بحران جو شدت اختیار کر چکا ہے اور کوئی اس پر قابو پانے کی ھکمت عملی نہیں بنا پا رہا۔ایسی صورتحال میں یونیورسٹی آف فلورنس کی تازہ تحقیق نے بتایا کہ زیتون کا درخت ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا نے میں سب سے بہترین ہے، اسموگ یعنی دھند کے خلاف بھی اس درخت کی موجودگی دھند کے اَثرات کو انتہائی کم کرنے میں بھرپور معاونت کرتی ہے۔آپ جانتے ہوںگے کہ اس وقت پاکستان میں’دھند‘ کا مسئلہ کتنا شدید ہو چکا ہے،تو ایسے میں یہ ہمیشہ سرسبز رہنے والا درخت ،جسے پانی بھی کم چاہیے اُس کی اہمیت کتنی ہو جاتی ہے،یہ اندازہ ہر باشعورشخص کر سکتا ہے۔یہ درخت زیتون کی پیداوار لینے کے لیے بھی اور جنگل بنانے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے،یاد رہے کہ سرسبز جنگلات خود ماحولیات کے تحفظ کے لیے اہم ترین عنصر ہیں۔

بارانی چکوال کے زیر اہتمام 18-19مارچ کو قومی ’’زیتون میلہ‘‘ منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے زیتون پر کام کرنے والے لوگ مدعو کیے گئے تھے ۔ان میں کاشت کار، تحقیقی ادارے، پیداواری ادارے بھی شامل تھے۔ جنوبی وزیرستان، خیبر پختونخوا، بلوچستان سے لے کر پنجاب سے لوگ شریک تھے ۔ سب ہی بڑے منفرد جذبہ سے جڑے لوگ تھے۔ بارانی کی جانب سے کراچی سے ڈاکٹر فیاض عالم کو بطور بے لوث خدمات کی پذیرائی کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

میزبان ادارے کے مطابق زیتون کی کاشت کو زیتون کےحوالے سے آگہی کو بڑھانے میں سب سے نمایاں کردار سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فیاض کی وڈیوز اور پوسٹوں کا رہا، انہیں دیگر مہمانوں کے ساتھ سیکرٹری زراعت کے ہاتھوں سند بھی پیش کی گئی۔ ہمارے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے محکمہ فوڈ سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید بھی تھے جنہوں نے زیتون کے تیل کو پکانے کے لیے استعمال پر پائے جانے والے اشکالات کو دور کیا اور بتایاکہ زیتون کا تیل پینے، لگانے کے علاوہ کھانا پکانے کے لیے بھی بالکل بہترین ہے۔ اصل میں ضرورت تو اس بات کی ہی ہے کہ اگر زیتون کی مقامی کاشت کو اس حد تک بڑھا لیا جائے کہ اس سے حاصل شدہ تیل یا تو ایکسپورٹ ہو یا پھر مقامی طور پر لوگ پکانے میں استعمال کریں ہو تو دونوں ہی صورت میں پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس وقت کوئی 4 ارب ڈالر مالیت کاپکانے کا( پام ) تیل امپورٹ کیا جاتا ہے جوکہ انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہے اور ملکی معیشت کے لیے بھی شدید نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ کچھ بلوچستان سےٗلورالائی ڈویژن سے حبیب اللہ کاکڑ( ایگری کلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں زیتون پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر )بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے اضلاع لورالائی ، ژوب، ہرنائی ،کوہلو، بارکھان ، رکھنی، کنگری، موسیٰ خیل کے علاقے جنگلی زیتون سے بھرے پڑے ہیں۔ایک سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر نے سوا لاکھ کے قریب بارکھان میں جنگلی زیتون کے پودوں میں گرافٹنگ کی جو آج خوب پھل دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ان ڈویژن کو زیتون کا گھر کہا جاتا ہے۔

جنگلی اور زیتون میں بنیادی فرق صرف پھل کے سائز کا ہوتا ہے جس سے تیل کی مقدار میں فرق آتا ہے۔ اِس کو گرافٹنگ یعنی قلم کاری اور اِس کو پیوندی زیتون بھی کہتے ہیں، کیوں کہ اس کے بعد یہی درخت دیسی زیتون کی پیداوار دیتے ہیں۔ اٹلی، شام، ایران، اسپین سے کئی زیتون کی اَقسام کی قلمیں لائی گئیں اور ان کو جنگلی زیتون کے ساتھ قلم (جوڑ) دیا گیا۔ زیتون کو پھل دینے کے لیے سرد موسم کا وقت درکار ہوتا ہے، بلوچستان میں سرد موسم خاصا وقت رہتا ہے جس کی وجہ سے یہاں پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔

بلوچستان میں 1990 کے بعد سے اس جانب توجہ دی گئی اور قلم کاری پرتجربات ہوئے جس کے اچھے نتائج سامنے آئے تو باقاعدہ فارمنگ کی گئی۔ زیتون کا قہوہ تو عرصے سے استعمال ہو رہا تھا البتہ پھل کو تیل کے لیے بھی اور دیگر پروڈکٹس میں استعمال کیا جانے لگا۔ اب حال یہ ہے کہ زیتون کے تیل کی اتنی ڈیمانڈ آنے لگی ہے کہ ہم پورا نہیں کر پاتے ۔لورالائی میں کوئی 65000 لیٹر تیل کی پیداوار شروع ہو چکی ہے۔10 کلو جنگلی زیتون سے ایک کلو تیل نکالاجاتا ہے۔یہ تیل باقاعدہ اٹلی سے درآمد شدہ مشین سے نکالا جاتا ہے ۔زیتون میلہ کی تاریخ:ڈاکٹر محمد رمضان انصر ، ویسے تو میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں، ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے گریجویٹ ہیں ،1998 میں ایوب ایگریکلچر انسٹیٹیوٹ میں بطور ریسرچ افسر تعینات ہوکر اس شعبہ میں داخل ہوئے۔اس وقت سینٹر آف ایکسیلینس فار اولیو ریسرچ اینڈ ٹریننگ CEFORT، بارانی چکوال میں سینئر سائنٹفک افسر ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ ، ’1991 میں چکوال میں زیتون پر کام شروع ہو چکا تھا مگر 2008 سے اس میں جو تیزی آئی اس میں ڈاکٹر عابد نے بطور ڈائریکٹر بارانی قومی خدمت کے جذبے کے ساتھ پورے ملک سے زیتون کی قلمیں جمع کیں اور پروجیکٹ منظور کرایا ۔ان کاوشوں کی بدولت CEFORTکے نام سے الگ ادارہ صرف زیتون پر کام کے لیے بنایا گیا ہے جہاں تیل نکالنے کی ایک بڑی کمرشل مشین بھی منگوائی گئی ہے ، جبکہ زیتون کی کاشت ، اقسام اور اس کی مختلف پروڈکٹس پر بھی کام مستقل جاری رہتا ہے۔قلم سے پودابنانا دو سال کا عرصہ لیتا ہے ، پھر پودا پھل دینے تک مزید چار سال لیتا ہے ۔ آج ان سارےصبرا ٓزما سخت تجربات کے بعد 86 اقسام کے زیتون چکوال میں موجود ہیں۔اس کے بعد زمیندار کو اس پر آمادہ کرنے کا مشن تھا کہ وہ اس پھل کو کاشت کرے تاکہ بات صرف تجربہ وتحقیق تک ہی نہ رہ جائے ۔یوں سائنسدانوں نے خود حکومت سے درخواست کی کہ وہ خود اپنی تجربہ گاہیں چھوڑ کر کسانوں کو سمجھانے، مطمئن کرنے جا نا چاہتے ہیں۔پھر یہ سخت کام 2010 سے 2018 تک انجام دیا گیا اور اللہ نے کام میں برکت دی۔دوسری جانب وفاقی حکومت کی وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈریسرچ کے تحت زیتون پروگرام بھی شروع ہوا ، مگر 2018 تک مختلف انتظامی ایشوز کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا ،ڈاکٹر طارق نے ذمہ داری سنبھالتے ہی ، اِس کو پاکستان بھر میں فروغ دیا۔ پاک اولیو کے نام سے ایک برانڈ متعارف کرائی اور زیتون کی کاشت ہی نہیں اس کی پروڈکٹس پر کام شروع کیا۔ایسے میں یو ایس ایڈ کی جانب سے بھی اِس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر ہوئی اور بارانی چکوال میںزیتون کی آگہی بڑھانے کے لیے پہلا زیتون میلہ بہت بڑے پیمانے پر منعقد ہوا ۔انہوں نے زیتون کا تیل نکالنے کے لیے موبائل مشین کا یونٹ بھی دیا۔اس کے بعد یہ سلسلہ چلتے چلتے 2023 میں چوتھے میلے تک پہنچ گیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے سال ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر11ٹن زیتون ایکسپورٹ کیا گیا۔انٹرنیشنل اولیو کونسل کی جانب سے بھی پذیرائی ملی اور پاکستان کواب دنیا کے 44 ممالک میں شامل ہونے کا اعزازملا جہاں زیتون پیدا ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ ایکڑ زمین ایسی موجود ہے جس پر زیتون لگ سکتا ہے ۔ کھاد ،پانی، پروننگ سمیت کچھ مراحل ایسے ہیںجن کا جاننا ہر کاشت کار یا زمین دار کے لیے بے حد ضروری ہے۔ 15 کلو زیتون کا پھل فی درخت ایک اوسط وزن ہے جو حاصل ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ہم مستقل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اولیو ویلی پاکستان کے نام سے فیس بک پر ایک آگہی گروپ بھی چلایا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ اولیو کلچر پروگرام ، کے تحت اٹلی سے ڈاکٹر مارکو مارکیٹی اس وقت پاکستان میں ماہرین کو بلا کر تربیتی پروگرامات کرا رہے ہیں، پورے پنجاب میں اس وقت تیزی سے یہ آگہی اور تربیت کا معاملہ آگے بڑھ رہا ہے۔آج قومی زیتون میلے میں کئی کاشت کار زمین دار موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ خود اپنی زمین پر زیتون کاشت کر رہے ہیں بلکہ اس کی پیداوار یعنی پھل سے مصنوعات بھی تیار کر رہےہیں۔ آج یہ تمام لوگ اپنے ہی برانڈ بنا کر صرف زیتون کا تیل ہی نہیں بلکہ زیتون کا سرکہ، زیتون کا اچار، چائے، زیتون کا کیک، گڑ، صابن، کریم، جام، مربہ، نمکین زیتون ،برفی، بسکٹ، سمیت کئی اشیا تیار کرکے فروخت کر رہے ہیں۔2015میں حکومت پنجاب نے ایک لاکھ ایکڑ پر زمینداروں کو زیتون کے پود ے لگوانے کی رغبت کے لیے 43 ارب روپے مختص کیے ۔اس کے پہلے فیز میں 2700 ملین روپے کا پروجیکٹ منظور کیا جس میں 15100 ایکڑ پر زیتون کی کاشت کو پلان کیا گیا۔اب نتیجہ یہ ہے کہ پودوں کی امپورٹ مکمل ختم ہو چکی ہے۔

پنجاب حکومت کے پاس اب ایسی 14 رجسٹرڈ نرسری موجود ہیں جو سالانہ 30لاکھ پودے تک فراہم کر سکتی ہے۔کچھ جنوبی وزیرستان سے۔میلہ میں جنوبی وزیرستان سے شریک ، جنگلی زیتون کے تیل کے تاجرعمر مختار نے بتایا کہ 2018-19 میں مراکش سے زیتون کی واقفیت لے کر پاکستان آئے۔ اُنہوں نے بتایا کہ سروے رپورٹ کے مطابق اُن کے علاقے میں ہی کوئی ڈیڑھ لاکھ درخت لگے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کوئی ڈیڑھ سال کا عرصہ لگایا کہ اس کے پھل سے تیل کیسے نکالا جائے، کس مشین سے، کون سے طریقے سے نکالا جائے۔ اس کی پوری تربیت انہوں نے اپنے مراکش کے دوست سے بھی لی اور خود بھی کئی تجربات سے گزرے۔ پھر اَب وہ اس قابل ہوئے ہیں کہ تین سال سے اس کی کامیاب فروخت اس طرح جاری رکھی ہوئی ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر آپ کو اس تیل سے فائدہ نہ ہو تو کوئی قیمت نہیں لیں گے۔

عمر مختار بتاتے ہیں کہ حکومت کی تو اس جانب توجہ نہیں ہو سکی مگر دعا فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر فیاض عالم نے مجھے کراچی سے بیٹھ کر مکمل سپورٹ کی، ہمت دلائی اور یہاں تک پہنچایا۔

حصہ