رمضان مرحبا

228

زندگی ایک بار پھر ملتی ہے،رمضان کا تحفہ پھر سے موسم بہار بن کر آیا ہے،نیکیوں کے سمندر میں پھر غوطہ لگانا ہے، آئیں رمضان کا استقبال کریں، ماضی کی گرد جھاڑ کر رینیو کریں،حال کی پیمائش کریں کہ وہ بھی کتنا ہے کب تک ہے۔
وہی ساعت جو پہلے گزری اور ہر سال گزری، پچھلے رمضان میں کتنی نیکیاں کمائ تھیں کتنی ضائع کردی ہیں اب تک، عمر رواں دواں ہے،کاش یہ جان سکیں کہ زندگی کی شاہراہ پر کونسے رستے دھڑکن رک جائے، کاش پہچان سکیں کہ زندگی کی ابدی حقیقت۔
اس انمول تحفے کی معراج رمضان کی مبارک گھڑی آرہی ہے اس ابرِ رحمت میں بھیگ بھیگ جائیں، اس کے ہر قطرے سے سیراب ہوجائیں، اس کا ہر پل ہر لمحہ خود میں سیراب کردیں۔
ماضی کے سمندر میں ہر آنے والا لمحہ دن بدن تحلیل ہورہا ہے،برف کو پگھلادینے والا سورج روز بہت کچھ پگھلاکر اپنا کام سر انجام دے رہا ہے رک سکا ہے نہ رکے گا وقت کے اپنے پاس کوئ مہلت نہیں ہے، اسے تھامنے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے اگر تو آنے والی نئ سیل ہے لوٹ کر اپنا سرمایہ بڑھانا ہے منافع حاصل کرنا ہے،اپنا اسٹیٹس بدل لیں،کم وقت میں زیادہ منافع چاہیے تو قناعت پسند بن جائیں۔
دل کو ہر بغض و عداوت سے پاک کرلیں اور اس کے ساتھ بہترین تیاری اپنے گھروں کو پاک صاف کرلیں۔
ہر رات نئے دن کے بعد سیاہی لپیٹ لیتی ہے اور دن رات کے پردے سے نکل آتا ہے اور ہم سے التجا کرتا ہے:”چلو کہ میرے ہر لمحے کو نیکیوں میں غرق کردو، خدا کی محبت میں ہر پل کو غنیمت سمجھ کر گزارو، اس گھڑی کا سفر قرآن سے جڑنے پر معمور کرلو، میں دن ہوں پھر پلٹ کر نہ آؤںگا اگلے دن بھی نیا ہوگا اور رات بھی نئ ہوگی”۔
کتنی بے رخی ہے کہ ہمیں دنیا کی مادی چیزوں کی فکر لاحق ہوتی ہے مگر ہماری نگاہ میں گزرنے والے اوقات سستے ہوتے ہیں جبکہ سب سے قیمتی وقت ہے وہ جو اللہ نے آپ کی رحمت سے دے رکھا ہے، لمحے سیکنڈ میں منٹ میں گھنٹے اور پھر دن کے بعد مہینوں سالوں غرض صدیوں میں تحلیل ہوجاتے ہیں
ان سب میں محاسبہ کتنا ہوتا ہے کب کیا ہوا تھا نفس کس طرح کہاں پر چلا تھا کیا پایا تھا کیا کھویا تھا کیا کچھ پچھتاوے بھی ہیں؟؟؟
کچھ اصلاح کے مرحلے بھی ہیں یا وہی روش جس کے عوض ہمیں خسارے ہی حاصل ہوئے؟
ہمارے اخلاق میں کیا تبدیلی رونما ہوئ؟
ہم اس رمضان کا استقبال کیسے کریں گے؟ کیوں کریں گے؟
اس پہلو سے کئ باتیں ہیں:
دل کو صاف کرکے۔۔۔ کیونکہ گرد آلوددل کے ساتھ ہماری عبادت رب العزت پسند نہ کرے گا۔
اپنے آپ کو سنوار کر۔۔۔ عاجزی، اعلی ظرفی، محبت، یگانگت، چشم پوشی، قناعت، تقوی،صلہ رحمی، فیاضی، قربانی، صبر و استقامت جیسے ہیرے موتی سے اپنے سفر کا لبادہ سجالینا۔
کیونکہ ان نگینوں کے بنا روکھی پھیکی عبادت اس کھانے کی طرح ہوگی جیسے کوئ ذائقہ نہ ہو۔
عبادت میں خشوع و خضوع پیدا کرنا تاکہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم جس کی عبادت کررہے ہیں اسکا تعلق ہماری روحانی عمارت سے ہے ایک تربیت ہونا کہ آئندہ پورے سال ہم ایسی ہی عبادت کے متمنی ہونگے۔
ایسے تلاوت کرنا اور روانی رکھنا کہ دل میں اترتی ہر آیت اس کا مفہوم ہمیں اپنی گرفت میں لے لے اس سحر میں ہمارے دل اتنے نرم ہوجائیں کہ اقامت دین کی روح اپنے رستے کشید کرنے لگے، جہاد کے جذبے جنم لیتے رہیں۔
یتیم مسکین اور اپنے سے نیچے انسانیت کے درد کا مسیحا بن جانے والی عبادت ہمیں راہ خدا کے لیے خرچ کرنے والا بنادے۔
زندگی کی آغوش میں موت کی یاد ہمارے آخرت کی فکر سے وابستہ رکھے۔
ان گنت ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب رمضان میں ہماری کیفیت عام دنوں سے ہٹ کر ہوتی ہے اسے رمضان کے بعد بھی محسوس کرنا کہ یہ تربیتی ورک شاپ ہمیں فیض پہنچاتی رہے۔
ذرا سوچئے!
اس مناجات کے مہینے کی برکت کا بھی کیا کہنا جب شیطان بھی بند کردیئے جاتے ہیں، خلوت کے شب و روز میں قرب الہی پانا کتنا آسان ہوجاتا ہے، اپنی ہی لگاتی صدا کی باز گشت سے مستفید ہونا، دستک دے کر اس کی خوشنودی حاصل کرنا جو ہر طرف سے اپنے در وا کیے بیٹھا ہمیں تاک رہا ہے۔
ذرا سوچئے!
محبت کی کتنی بڑی ڈیل ہے نا۔۔۔۔۔
اپنی امانت،عہد وفا کی ذمہ داری محسوس کرنے کا نادر موقع ہے، جس تشخص کو ہم نے اپنی قوم میں کھودیا اسلام سے بیگانہ کردیا اسے اس کی جگہ پہچانے کا قیمتی موقع ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ ہی اچھی لگتی ہے۔
وہ خودی جو ہم سارا سال اپنے آپ میں نہ ڈھونڈ سکے اس خودی کو اعتماد کو بحال کرنے کا بہترین موقع ہے۔
انفرادی و اجتماعی فرائض سمجھنے کا نادر موقع ہاتھ نہ جانے دیں۔
اپنے دل کو یکسو کرکے اللہ رب العالمین کی وحدت اپنے نفس پر طاری کرکے تو دیکھیں ضرور پھر ہم رمضان کی روح اپنے دل میں جذب کرسکیں گے وگرنہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

حصہ