رمضان المبارک کی باسعادت گھڑیاں اور ہمارا طرز عمل

358

آمد رمضان… یہ وہ ماہ مبارک ہے جسے اللہ کے مہمان ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ مہمان ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ کیا ہم نے اس اللہ کے مہمان کی خاطر داری کے لیے اہتمام کیا ہے؟ عام مہمان ہو یا خاص ، اس مہمان کی مہمان داری کے لیے خاص انتظامات کیے جاتے ہیں کہ مہمان ہمارے گھر سے خوش ہو کر جائے۔ اور یہ تو خاص اللہ کا مہمان ہے جو تحفوں کی بھرمار کے ساتھ ہمارے گھر آرہا ہے جی ہاں تحفے، برکات اور رحمتوں کے، پھر ایسے مہمان کو تو خصوصی طور پر خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اس کی مہمانی میں کوئی کثر نہیں چھوڑنی چاہیے اس کی خوشنودگی (رب کی) کے لیے رجب اور شعبان سے ہی کمر ’کس‘ لینی چاہیے۔ دنیاوی کام مثلاً رمضان کے لیے کھانے پینے (افطار وغیرہ) کے لیے انتظامات گھر کی صفائی ستھرائی اور پھر اپنی اور اپنے گھر والوں کے لیے عید کی تیاری پہلے سے کر لینی چاہیے یہ نہ ہو کہ رمضان کے قیمتی لمحے ہم بازاروں کے چکروں میں ضائع کر دیں۔ عموماً ہمیں رمضان المبارک میں دن ہو یا شام خواتین کے جھنڈ کے جھنڈ بازاروں میں نظر آتے ہیں۔ پھر کیا نمازیں کیا نوافل کیا قرآن کی تلاوت کو وقت دے پائیں گے۔ تھکے ہارے جسم ، الٹے سیدے چند سجدے کیا ان سجدوں سے اپنے رب کو راضی کر سکیں گے؟ کیا ہمارا یہ طرز عمل آئے ہوئے مہمان کی خاطر داری کے لیے مناسب ہو گا نہیں بالکل نہیں، اکثر ان دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے بندہ تراویح سے بھی محروم رہ جاتاہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ گھر پر کوئی مہمان آئے اور آپ سستی اور کاہلی کی وجہ سے باسی کھانا یا ٹھنڈی چائے اسےپیش کر دیں تو کیا وہ مہمان آپ سے خوش ہو پائے گا، ہر گز نہیں، پھر اللہ کے اس خاص مہمان کے لیے ہمارا یہ برتائو کیوں؟ احادیث اور ارشادات باری تعالیٰ سے ماہ رمضان کی فضیلت واضح ہے اس کا ہر لمحہ، اس میں کی گئی ہر عبادت اور نیکی کا اجرو ثواب بے انتہا ہے، جس سے اپنی ذات کو محروم رکھنا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ وہ ڈھال ہے جو بندے کو دوزخ کے عذاب سے بچا سکتی ہے۔ جیسا کہ میرے اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور مضبوط کلمہ ہے، دوزخ سے بچانے کے لیے یعنی ماہ رمضان کے روزے خلوص نیت کے ساتھ رکھنے والا اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچا سکتا ہے ۔ماہ رمضان اور اس کے روزوں کی فضیلت اور فرضیت کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘(سورۃ البقرہ: آیت 183)

سبحان اللہ ۔ اس آیت ربانی سے روزے کی فضیلت اور فرضیت واضح ہے۔ پرہیز گار متقی ہو جاتا ہے ، جب وہ اللہ کے حکم کے مطابق روزے رکھے۔ متقی و پرہیز گار بندہ اللہ کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے کتنا بڑا انعام و اکرام ہے اس ماہ رمضان اور ان روزوں کی…

مشکوٰۃ شریف کی اس حدیث سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہ ماہ مبارک اور اس کی ہر گھڑی کتنی معتبر اور افضل ہےآپؐ نے شعبان کے آخری دن خطبے میں فرمایا! تمہارے پاس ایک بڑا بابرکت مہینہ آپہنچا ۔ (یعنی رمضان شریف) اس میں ایک رات ہے (لیلۃ القدر) جو ہرار مہینوں سے بہتر ہے (یعنی اس رات میں عبادت کرنا ہزار ماہ عبادت کرنے سے ثواب میں بہتر ہے) اللہ رب العزت نے اس ماہ کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کا قیام (تراویح) نفل (سنت) فرمایا ہے جو کوئی اس ماہ میں کسی نیک کام سے (جو فرض نہ ہو) خدا کا قرب چاہے تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس کے سوا کسی دوسرے زمانے میں فرض ادا کرے (یعنی رمضان میں نافلہ عبادت کا ثواب فرضوں کے برابر ملتا ہے) اور جو کوئی اس میں فرض ادا کرے تو وہ ایسا ہو گا جیسے اس کے سوا کسی دوسرے زمانے میں ستر (70) فرض ادا کرے (یعنی فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ ملتا ہے)جو اس ماہ میں روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔ اوردوزخ سے نجات پائے گا اور اسے اس روز دار کے برابر ثواب ملے گا لیکن روزہ دار کا ثواب کم نہ ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! ہم میں ہر شخص کو اتنا تو میسر نہیں کہ روزہ دار کا روز کھلواسکے، فرمایا! اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے دیتا ہے جو کسی کا روزہ ایک چھوارے، پانی یا دودھ کی لسی پر کھلوا دے اور جو شخص پیٹ بھر کر روزہ دار کو کھلائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض (کوثر) سے پلائے گا کہ پیاسا نہ ہو گا یہاں تک کہ بہشت میں داخل ہو۔ اور یہ مہینہ (ایسا) ہے کہ پہلے (پہلے عشرے) اس کے رحمت ہے درمیان میں اس کے مغفرت ہے اور آخری عشرے میں آگ سے آزادی ہے۔ جس شخص نے ہلکا کیا بوجھ لونڈی غلام (نوکر، چاکر) سے ماہ رمضان میں اللہ اس کو بخشتا ہے اور آگ سے آزاد کرتا ہے ‘‘ (سبحان اللہ) یہ اس ماہ مبارک کو گزارنے کا لائحہ عمل پیش کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر بندہ پرہیز گار ہو کر اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر بندہ مومن چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے نیکیاں کمانے کے لیے اس کی حرس بڑھتی جاتی ہے کہ اگلا رمضان ملے نہ ملے اس رمضان میں نیکیوں کی سیل سے اپنا دامن بھر لے۔ الحمدللہ

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی امت کو کس طرح انعامات سے بار بار نوازا ہے مختصر یہ کہ پورا رمضان اطاعت اللہ اور اطاعت رسول کے مطابق گزاریں تو دنیاوی اور آخرت کی بھلائیوں سے ہمکنار ہو جائیں گے رب العزت ہمیں اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں رمضان کی گھڑیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

حصہ