اصل خوشی

236

’’اریبہ اگلے ہفتے سے رمضان شروع ہونے والا ہے، تم نے تیاری کرلی؟‘‘ فزکس کی بورنگ کلاس سے باہر نکلتے ہوئے صبا نے اریبہ سے پوچھا۔

’’چند دن میں ہمارے ٹیسٹ ختم ہوجائیں گے، پھر گھر کی صفائی اور پردوں کی دھلائی کا پلان ہے۔‘‘ اریبہ نے بتایا۔

’’ارے بے وقوف! میں صفائی کا نہیںُ کپڑوں کا پوچھ رہی ہوں، بھئی میں نے تو امی سے کہہ دیا چار سوٹ رمضان کے چاروں جمعوں کے لیے اور تین جوڑے عید کے تینوں دن کے لیے چاہئیں۔ امی اگلے ہفتے مجھے شاپنگ کے لیے لے کر جائیں گی۔‘‘ صبا نے خوشی سے بتایا۔

اریبہ سوچ میں پڑ گئی۔ اتنے میں صبا کی وین آگئی اور وہ خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوگئی۔ اریبہ اور صبا کالج میں فرسٹ ائر کی طالبات اور اچھی سہیلیاں تھیں۔

اریبہ نے گھر آکر دسترخوان پر امی سے پوچھا ’’امی ہم رمضان اور عید کی شاپنگ کے لیے کب بازار جائیں گے؟‘‘

’’بیٹا! اس جمعرات کو محلے میں بچت بازار لگے گا… ہم دونوں جاکر دو، دو جوڑے لے لیں گے، ایک جمعۃ الوداع کو پہن لیں گے اور دوسرا عید کے دن۔‘‘ امی نے کہا۔

’’بس دو جوڑے…؟ میری سہیلی تو سات جوڑے بنا رہی ہے۔‘‘ اریبہ نے غصے سے کہا۔

’’پچھلے سال کے بھی کئی سوٹ ہیں… اتنے زیادہ کپڑے بنانے کی کیا ضرورت ہے!‘‘ امی نے سمجھایا۔

’’بس آپ تو ہر وقت ہمارے لیے کنجوسی کرتی رہتی ہیں… کوئی اور مانگنے آئے گا تو فوراً پیسے نکال کر دے دیں گی۔‘‘ اریبہ منہ بسورتی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

نفیسہ بیگم متوسط طبقے کی سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کا جنرل اسٹور تھا۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ نفیسہ بیگم کچھ سال پہلے تو ہر ماہ اپنا اور بچوں کا ایک ایک سوٹ ضرور بناتی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ان کے اندر اتنا شعور پیدا ہوگیا تھا کہ شاپنگ صرف ضرورتاً ہی کرنی چاہیے، ہر وقت کپڑے، درزی، بازار، جیولری… یہ سب وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ اب انہوں نے بہت سی فضولیات کو ترک کردیا تھا اور سادگی اختیار کرلی تھی جسے بچے ’’کنجوسی‘‘ کہتے تھے۔

شام کو اریبہ اور وہ چائے پی رہی تھیں تو نفیسہ بیگم نے کہا ’’کل تمھارے کالج کی چھٹی ہے، میرے ساتھ صغراں کے گھر چلنا… اُس کے گھر میں درس ہے بیٹی کی شادی اور رمضان کے سلسلے میں… شریک بھی ہوجائیں گے اور تحفہ بھی دے دیں گے۔‘‘

دوسرے دن نفیسہ بیگم نے بیٹے سے رکشہ منگوایا۔ اریبہ کے ابو سے منگوایا ہوا پلاسٹک کا ڈنر سیٹ، پنکھا اور راشن کا سامان رکھوا کر اریبہ کے ساتھ روانہ ہوگئیں۔

’’میرے جوڑے بناتے ہوئے تو دل چھوٹا ہو رہا تھا اور غیروں کے لیے اتنا خرچا کردیا۔‘‘ اریبہ بڑبڑائی۔

صغراں کا ایک کمرے اور صحن پر مشتمل گھر تھا جس میں ٹین کی چادریں پڑی ہوئی تھیں اس وجہ سے خاصی گرمی تھی… صحن میں چٹائی بچھی ہوئی تھی جس پر محلے کی پندرہ بیس خواتین بیٹھی انہماک سے درس سن رہی تھیں۔ مدرّسہ رمضان المبارک کی تیاری، سادگی اور قناعت کے حوالے سے بہت اچھی باتیں بتا رہی تھیں۔ درس ختم ہوا تو شربت سے سب کی تواضع کی گئی۔ نماز عصر ادا کرکے صغراں نے صندوق کا ڈھکن کھول کر خوشی خوشی بیٹی کے جہیز کا سامان نفیسہ بیگم کو دکھایا۔ سات معمولی ریشمی جوڑے ، چادرکے تین سیٹ اور اسٹیل کے چند برتن۔ اریبہ نے آج تک جتنی شادیوں میں شرکت کی تھی ان میں ڈھیروں جہیز دیکھا تھا۔ نفیسہ بیگم کی لائی ہوئی چیزیں صغراں اور اس کی بیٹی کو بہت پسند آئیں۔ صغراں بار بار شکریہ ادا کررہی تھی۔
’’باجی بڑی مشکل سے کچھ پیسے جوڑ کر یہ سامان بنایا ہے۔ مسہری اور الماری میرے بھائی مل کر دیں گے، بارات کے پچاس افراد کا کھانا میرے دیور پکوائیں گے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے بیٹی عزت سے اپنے گھر کی ہوجائے گی۔‘‘ صغراں نے آنکھوں کے گوشے صاف کرتے ہوئے کہا۔
نفیسہ بیگم نے صغراں کی بیٹی کو ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے واپسی کی اجازت مانگی۔
صغراں کا بچہ لپک کے رکشہ لے آیا۔ واپسی میں اریبہ سوچ رہی تھی کہ ہم لوگ تو رمضان کو سحری اور افطاری کے ڈھیروں لوازمات بنانے اور درجنوں نئے کپڑے سلوانے میں ضائع کردیتے ہیں، درحقیقت رمضان تو ہمدردی، غم گساری اور ایثار کا مہینہ ہے۔ عبادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مہینہ ہے… اپنی خواہشات کو محدود کرکے کسی غریب کی مدد کرنے سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ ڈھیروں ڈھیر خریداری کرکے بھی حاصل نہیں ہوتی۔
گھر پہنچتے ہی اریبہ امی کے گلے لگ گئی ’’امی! آپ بہت اچھی ہیں… سوری میں نے آپ سے بدتمیزی کی، آئندہ ایسا نہیں کروں گی، اور ہاں صغراں آنٹی کی بیٹی کو میں اپنی طرف سے پرس تحفے میں دوں گی۔‘‘
نفیسہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اریبہ کو گلے لگا لیا۔

حصہ