قیصروکسریٰ قسط(93)

286

کسی نے سوال کیا۔ ’’تم اس وقت کہاں سے آئے ہو؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’سپہ سالار کو معلوم ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ مجھے ان کے سوا کسی اور سے بات کرنے کی اجازت نہیں‘‘۔
وہ کچھ دیر آپس میں سرگوشیاں کرتے رہے پھر کسی نے سوال کیا۔
’’تم اکیلے ہو‘‘؟
’’ہاں‘‘
’’تمہیں معلوم ہے کہ ہم رومی جاسوسوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟‘‘
’’رومی جاسوس رات کے وقت یہاں پہنچ کر ایرانی پہریداروں کو مدد کے لیے بلاتے۔ تم میں سے کسی نے عاصم کا نام سنا ہے؟‘‘
ایک طرف سے آواز آئی۔ ’’میں ایک عاصم کو جانتا ہوں۔ وہ شام اور مصر کی جنگوں میں ہمارے ساتھ تھا۔ وہ حبشہ کے راستے میں زخمی ہونے کے بعد فوج سے بچھڑ گیا تھا۔ اور سپہ سالار نے اس کا پتا لگانے والوں کے لیے انعام مقرر کیا تھا۔ لیکن ہمیں یقین ہے وہ مرچکا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’وہ زندہ ہے اور تم مجھے سپہ سالار کے پاس پہنچا کر انعام حاصل کرسکتے ہو۔ میں عاصم ہوں‘‘۔
سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’اگر آپ عاصم ہیں تو ہم آپ کو اتنی دیر بارش میں روکنے کے لیے معافی چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت آپ کو سپہ سالار کے پاس لے جانا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ وہ ان دنوں قلعے میں آرام فرما رہے ہیں۔ ہم علی الصباح انہیں اطلاع بھیج دیں گے اور پھر اگر ان کا حکم آیا تو آپ کو ان کے پاس پہنچادیاجائے گا۔ سردست ہم آپ کو مستقر میں لے جائیں گے۔ اور وہاں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی‘‘۔
عاصم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ’’نہیں میں سیدھا ان کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ اگر وہ آرام کررہے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ مجھے وہاں پہنچتے ہی ان کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔ لیکن یہ اشد ضروری ہے کہ جب تک میں ان کے سامنے پیش نہیں ہوتا تمہارے ان ساتھیوں کے علاوہ دوسرے لوگ میری آمد سے بے خبر رہیں۔ اگر تم سپہ سالار کا عتاب مول لینا چاہتے ہو تو مجھے جہاں چاہو لے جائو۔ میں تمہارے ساتھ بحث کرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ لیکن تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم مستقر میں میری آمد کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے مجھے کسی تاخیر کے بغیر ان کے پاس پہنچادو‘‘۔
پہریداروں کے افسر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اگر یہ عاصم ہیں تو ہم ان کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اور اگر یہ کوئی اور ہیں تو بھی سپہ سالار ان کے متعلق بہتر فیصلہ کرسکیں گے‘‘۔
فسطینہ گہری نیند سو رہی تھی۔ اس کا بوڑھا غلام فیروز آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اور اُسے بازو سے پکڑ کر جگانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ ’’فسطینہ! فسطینہ!! اُٹھو بیٹی۔ اب صبح ہورہی ہے‘‘۔
فسطینہ نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور برہم ہو کر کہا۔ ’’چچا فیروز! تمہیں معلوم ہے کہ رات ابا جان کی طبیعت خراب تھی اور میں بہت دیر سے سوئی تھی‘‘۔
فیروز نے اپنے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے بیٹی۔ لیکن آج تمہیں دیر سے نہیں اُٹھنا چاہیے‘‘۔
’’کیوں، آج کیا بات ہے؟ اس نے تلخ ہو کر سوال کیا‘‘؟
’’آج ایک خاص بات ہے بیٹی۔ تم ذرا باہر نکل کر تو دیکھو‘‘۔
’’کیوں باہر برف گر رہی ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹی اب تو آسمان صاف ہورہا ہے اور سورج نکلنے والا ہے‘‘۔
فسطینہ نے اپنا چہرہ لحاف کے اندر چھپاتے ہوئے کروٹ بدلی اور کہا۔ ’’اچھا میں ابھی اُٹھتی ہوں‘‘۔
’’فیروز نے کہا۔ ’’فسطینہ آج میں تمہیں ایک عجیب خواب سنانے آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ رات کے وقت چند سپاہی عاصم کو پکڑکر اس قلعے میں لاتے ہیں۔ میں اسے مشعل کی روشنی میں دیکھ کر پہچان لیتا ہوں اور اسے سپاہیوں سے چھڑا کر مہمان خانے میں لے آتا ہوں۔ وہ مجھے بتاتا ہے کہ میں زندہ ہوں اور ایک خاص وجہ سے کہیں روپوش ہوگیا تھا۔ پھر وہ تمہارے متعلق کئی سوال کرتا ہے اور میں اسے بتاتا ہوں کہ فسطینہ کو تمہارے زندہ ہونے کا یقین تھا۔ اور تمہارے متعلق اس کے خواب درست ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے تمہیں اطلاع دینے کے لیے روکنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا۔ ’’نہیں اس وقت فسطینہ کو بے آرام کرنا مناسب نہیں۔ پھر وہ میرے ساتھ باتیں کرتے کرتے اچانک سو گیا۔ تو میں دبے پائوں کمرے سے نکل کر یہاں پہنچا۔ لیکن تم گہری نیند سورہی تھیں اور میں تمہیں جگانے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس کے بعد میں نے اپنے کمرے میں جا کر سونے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے نیند نہ آئی‘‘۔
فسطینہ نے اچانک اپنے چہرے سے لحاف اُلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’پھر کیا ہوا چچا فیروز؟‘‘ اس نے ملتجی ہو کر پوچھا۔
’’بیٹی جب صبح ہونے لگی تو میں اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد دوبارہ ڈرتے ڈرتے تمہارے کمرے میں داخل ہوا۔
فسطینہ کچھ دیر پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر اچانک وہ التجائیں اور فریادیں جنہیں وہ زبان پر نہیں لاسکتی تھی تو اس کی آنکھوں میں آنسو بن کر چھلکنے لگیں۔
فیروز نے کہا۔ ’’بیٹی میں یہ پوچھنے آیا تھا کہ آج تم نے عاصم کے متعلق کوئی سپنا نہیں دیکھا؟‘‘
اس نے گھٹی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’تمہیں میرے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ہی آنسوئوں کے موتی اس کی خوبصورت آنکھوں سے ٹپک پڑے۔
فیروز نے کہا۔ ’’میں مذاق نہیں کرتا بیٹی۔ میرے ساتھ آئو‘‘۔
فسطینہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر اچانک پھولوں کی ’’مسکراہٹیں اور ستاروں کی ساری تابانیاں اس کے چہرے پر بکھر گئیں۔
بوڑھے غلام نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
”دیکھنے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ فیروز مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد فسطینہ کمرے سے نمودار ہوئی تو جذبات کی شدت سے اس کا سارا وجود لرز رہا تھا۔ وہ صحن میں فیروز کے قریب رُکی اور اس نے کچھ کہے بغیر ہاتھ اُٹھا کر ایک طرف اشارہ کردیا۔ وہ لڑکھڑائی ہوئی دروازے کے قریب پہنچی، رُکی اور پھر جھجکتی ہوئی اندر چلی گئی۔
عاصم سورہا تھا، اور اس کے چہرے پر ماضی کے آلام و مصائب کی وہ داستانیں نقش تھیں جنہیں صرف ایک عورت کی آنکھ دیکھ سکتی تھی۔ کنپٹیوں کے قریب اس کے چند بال سفید ہوچکے تھے۔
فسطینہ نے آگے بڑھ کر اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ایک طرف گرا ہوا لحاف اُٹھایا اور اس کے سینے پر ڈال دیا۔ وہ مسکرا رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ وہ دیر تک بے حس و حرکت کھڑی رہی، بالآخر عاصم نے آنکھیں کھولیں اور اچانک اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی نگاہوں کے سامنے وہ نوخیز لڑکی نہ تھی جسے اس نے پہلی بار یروشلم کے قریب ایک سرائے میں دیکھا تھا۔ اور آخری بار دمشق میں الوداع کہا تھا، بلکہ ایک عورت تھی جس نے زندگی کی تمام رعنائیوں کو اپنے وجود میں سمیٹ لیا تھا۔ عاصم کا دل دھڑک رہا تھا اور اس کی نگاہیں جھکی جارہی تھیں۔ اور حسین الفاظ کے وہ خزانے جو اس نے جدائی کے صبر آزما ایام میں جمع کیے تھے، لٹ چکے تھے۔
اس نے بڑی مشکل سے کہا۔ ’’فسطینہ میں آگیا ہوں۔ میں بہت دور چلا گیا تھا۔ لیکن مجھے اپنے راستے کے ہر ویرانے میں تمہاری آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ فسطینہ میری طرف اس طرح نہ دیکھو۔ مجھے اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا احساس تم سے دور لے گیا تھا اور اب میں پہلے سے کہیں زیادہ تہی دست اور بے بس ہوں‘‘۔
فسطینہ اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے بولی۔ ’’میں صرف یہ سننا چاہتی ہوں کہ یہ ایک خواب نہیں ہے۔ جب تم یہاں نہیں تھے تو میں ساری رات آنکھوں میں کاٹا کرتی تھی اور آج تم یہاں تھے تو میں سورہی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آئو گے لیکن تم کہاں تھے۔ میں تصور میں تم سے ہزار مرتبہ روٹھ چکی ہوں۔ لاکھوں گلے کرچکی ہوں لیکن اب یہ گلے دور ہوچکے تھے‘‘۔
فیروزنے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ ’’بیٹی اب تم اپنے ابا جان کو اطلاع دو‘‘۔
’’میں جاتی ہوں چچا، لیکن تم وعدہ کرو کہ انہیں بھاگنے نہیں دو گے‘‘۔
فیروز مسکرایا۔ ’’ابھی ان کے بھاگ جانے کا کوئی اندیشہ نہیں بیٹی، وہ سپاہی جو انہیں رات کے وقت یہاں لائے تھے۔ تمہارے ابا جان سے انعام حاصل کرنے کے لیے قلعے کے دروازے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ انہیں فرار ہونے کا موقع نہیں دیں گے‘‘۔
فسطینہ کمرے سے نکل کر بھاگی تو اسے اس بات کا احساس نہ تھا کہ صحن میں سپاہی اسے دیکھ رہے ہیں۔
سین ابھی تک اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور یوسیبیا اس کے قریب بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ابا جان! امی جان!‘‘ فسطینہ نے ہانپتے ہوئے کمرے میں داخل ہو کر کہا۔ ’’وہ آگیا ہے؟‘‘
سین نے پوچھا۔ ’’کون آگیا ہے؟ تم اس قدر بدحواس کیوں ہو؟‘‘
’’ابا جان عاصم آگیا ہے‘‘۔
’’عاصم‘‘! کہاں ہے وہ؟‘‘
’’ابا جان وہ مہمان خانے میں ہے‘‘۔
’’تم نے اُسے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں ابا جان‘‘
’’لیکن وہ میرے پاس کیوں نہیں آیا؟‘‘ سین نے جلدی سے اُٹھ کر اپنا جوتا پہنتے ہوئے کہا۔
’’ابا جان آپ سو رہے تھے‘‘۔
یوسیبیا نے پوچھا۔ ’’سچ کہو بیٹی تم نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا؟‘‘
(جاری ہے)

حصہ