شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو
(دسویں قسط)
سوال: بودلیئر کے ذکر نے میرے سوالوں کا رخ ایک بار پھر محمد حسن عسکری کے فکری میلانات کی طرف پھیردیا۔ یہ بات تو درست ہے کہ آخری زمانے میں ان کے افکار کا مرکز مغرب سے ہٹ کر مشرق میں آگیا تھا، لیکن’’جدیدیت، یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ جیسی کتاب انہوں نے کیوں لکھی؟ یہ تو ایک طرح سے وہ اپنے ہی اوپر فرد جرم عائد کر رہے تھے۔
دوسری بات یہ کہ جن لوگوں نے صرف اس کتاب کا نام سنا ہے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ عسکری صاحب نے اردو میں جدیدیت کے خلاف لکھا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ ان کی یہ کتاب ان کے اسلامی افکار، یا انتہا پسندانہ مشرقیت کا اظہار کرتی ہے۔ مگر اس کے نام میں انہوں نے ’’جدیدیت‘‘ کا لفظ کیوں ڈال دیا؟
شمس الرحمٰن فاروقی: ’’جدیدیت‘‘ کی اصطلاح عسکری صاحب پہلے بھی استعمال کرچکے ہیں، میر والے مضمون میں۔ اور وہاں بھی ان کا مطلب اس اصطلاح سے وہ نہیں تھا جس طرح سے عام طور پر ہم لوگ آج مراد لیتے ہیں۔ یعنی ہماری اصطلاح میں جدیدیت وہ ادبی رجحان ہے جو اردو ادب میں 1960کے آس پاس نمایاں ہوا۔ جدیدیت ہندوپاک میں بہت مقبول رہی اور اب بھی زندہ اور فعال ہے۔ یہ وہ رجحان، یا وہ طرز فکر، یا تحریک ہے، آپ جو بھی کہہ لیجیے، جس نے ادب کی ادبی حیثیت، اور فن کار کی فنی اور ذہنی آزادی کو قائم کرنے میں بہت سعی کی، اور اس مہم میں بالآخر کامیابی حاصل کی۔ جدیدیت نہ ہوتی تو وہ لوگ بھی نہ ہوتے جو آج جدیدیت کو برابھلا کہنا اپنا مذہبی یا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
محمد حسن عسکری جس چیز کو ’’جدیدیت‘‘ کہتے ہیں، وہ اردو ادب کی جدیدیت پسندی نہیں ہے۔ اسے ہم مغربی Enlightenment کا ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کا ترجمہ ’’روشن فکری‘‘ فارسی میں ہے اور اب اردو میں بھی یہی رائج ہے۔ جب عسکری کا پہلا مضمون چھپا، جس میں انہوں نے یہ اصطلاح استعمال کی ہے، یعنی میر والے مضمون میں، تو اس وقت ’’روشن فکری‘‘ اصطلاح اردو میں تھی نہیں۔ اور عسکری صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اٹھارویں صدی میں جو فکر نمودار ہوتی ہے یورپ میں، وہ پرانی فکر سے اور عیسائیت سے بھی خود کو الگ کرتی ہے، غالباً یہ خیال کیا کہ اس کو جدیدیت کیوں نہ کہہ دیا جائے؟ ورنہ اس معنی میں ’’جدیدیت‘‘ کی اصطلاح نہ یورپ میں استعمال ہوئی نہ اردو میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے۔
اچھا اب سوال یہ ہے کہ عسکری صاحب کیوں خفا ہیں اس شے سے جسے وہ جدیدیت کہتے ہیں اور ہم آپ روشن فکری کہتے ہیں؟ اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ ہر اس فکر سے ناخوش ہیں اور نامطمئن ہیں جس کی بنیاد یونانی فکر پر ہے۔ اور جیسا کہ انہوں نے لکھا بھی ہے غالباً مولانا محمود الحسن دیوبندی کے حوالے سے، کہ یونانی فلسفیوں سے بڑھ کر کوئی احمق طبقہ پیدا نہیں ہوا۔ اسی کتاب میں کہیں لکھا ہے انہوں نے۔ ظاہر ہے سب اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن وجود کے اور روح کے مراتب اور مادے کے جو حدود ہیں ان کے بارے میں جو نظریات افلاطون اور ارسطو نے پیش کیے ہیں وہ عسکری صاحب کو قبول نہیں تھے، یا نارسا معلوم ہوتے تھے۔ اس کے برخلاف وہ اسلامی مفکروں، اور خاص کر ان مفکروں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں ہم آپ نوافلاطونی کہتے ہیں اور جنہوں نے روح اور مادے کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا ہے۔
عسکری صاحب نے یونان کے ان مفکروں کو تقریباً چھوڑدیا ہے جو افلاطون سے پہلے کے ہیں۔ اور ایک آدھ جو افلاطون کے بعد کے ہیں جیسے فلاطینوس (Plotinus) جو کہ نوافلاطونیت کا بانی کہا جاتاہے، اس کے یہاں روحانی فضا بہت ملتی ہے۔ اس کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ افلاطون کے پہلے کے لوگ دو طرح کے تھے۔ ایک تو وہ تھے جو نہ تو مادہ پرست تھے اور نہ روحانیت پرست، بلکہ وہ صرف عقل کی، مشاہدے کی بات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو چیز عقل اور مشاہدے سے ثابت نہیں ہوسکتی، اس کے وجود کے بارے میں ہماری رائے ہوسکتی ہے، ہمارا علم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ مشہور جملہ ہے ہراقلیطوس (Heraclitus) کا، کہ سوائے ایٹم کے اور خلا کے کچھ بھی نہیں۔ (Nothing exists but atoms and space.) اور کسی چیز کے بارے میں ہم کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہے کہ نہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی باتیں تھیں۔ تو عسکری صاحب نے ان کو چھوڑ دیا ہے، گورجیاس (Gorgias) جیسے عقلیت پرستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے صرف افلاطونی اور ارسطوئی فکر پر اپنا زور صرف کیا ہے، اور خاص کر ان لوگوں کے علم الوجود، مابعد الطبیعیات اور علم العلم کو۔
روشن فکری نے ارسطوئی اور افلاطونی فکر کی بہت سی چیزوں کو مسترد تو کیا مگر Enlightenment عسکری صاحب کو اس لیے قبول نہیں ہوا کہ خدا کو بھی Enlightenment نے مسترد کردیا۔ اور اگر خدا کو معرض بحث میں لایا بھی گیا تو اس طرح کہ کائنات ایک ایسی شے ہے جس کے اسباب و عمل کا ہم جائزہ لے سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی چیز کیوں پیدا ہوئی، کیسے بنی، کیسے مرتقی ہوئی؟ ان سوالوں پر غور کیا جاسکتاہے۔ مگر روشن فکری نے یہ بھی کہا کہ ان جائزوں کے لیے کسی مافوق الفطری یا کسی روحانی قوت کے وجود کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم عقل کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہی Enlightenment نے کہ ہم ہر اس چیز کو لاسکتے ہیں معرض شک میں جس کے بارے میں ہمیں عقل سے شہادت نہ مل سکے۔ یا جسے ہم عقل کی بنیاد پر سمجھ نہ سکیں۔ چنانچہ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ سب سے پہلے انجیل کی کتابوں کے بارے میں سوالات اٹھے۔ انجیل میں بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ، یا اللہ تعالیٰ کی آنکھ، تو اس سے کیا مراد ہے؟ قرآن میں بھی اس طرح ذکر آتا ہے۔ تو اس سے کیا مراد ہے؟ اسلامی مفسروں نے تو یہ کہا کہ معنی تو معلوم ہیں، لیکن کیفیت نہیں معلوم ہے۔ لیکن مغربی روشن فکری اس پر مطمئن نہیں تھی۔ وہ لوگ پوچھتے تھے کہ کیا مطلب ہے اس بات کا، کیفیت کیا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ کی صفت بصارت ہے تو کیا اس کی آنکھیں بھی ہیں؟ اگر نہیں تو کتب مقدسہ میں کیوں ذکر ہے؟ انجیل میں تو ایسا ہی لکھا گیا ہے۔ تو انجیل میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو سائنس، یا مشاہدے، یا فکر کی روشنی میں غلط معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو کس طرح صحیح ماناجائے، یا ان کی کیا تعبیر کی جائے کہ انجیل کو بھی صدمہ نہ ہو، اورحقیقت بھی مجروح نہ ہو؟
پرانے مفسرین انجیل نے کشف کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ کائنات کی عمر چار ہزار آٹھ سو بہتر برس ہے۔ (ہمارے یہاں بھی بعض صوفیا نے کشف کی بناپر زمین کی عمر چھ ہزار برس متعین کی ہے۔ اگر ’’زمین‘‘ سے مراد انسانی تہذیب لی جائے تو یہ مدت کم و بیش درست لگتی ہے۔) اس کے مقابلے میں سائنس نے کہا کہ کائنات تو دور رہی، صرف زمین کی عمر کئی کروڑ برس ہے۔ اس طرح عقل کے دباؤ سے مجبور ہوکر انسانی زندگی کا محور عقیدے اور کشف اور روحانیت سے ہٹ کر عقلیت کی طرف منتقل ہوگیا۔ قبول سے زیادہ انکار پر قائم ہوا، اور کشف سے زیادہ استدلال پر قائم ہوا۔ لہٰذا عسکری صاحب کو یہ بہت باتیں ناگوار لگیں، بلکہ غلط معلوم ہوئیں۔
ایک بات اور بھی ہے۔ اور یہ ایسی بات ہے جس کی بناپر مغرب کے مفکروں کا بھی روشن فکری پر مکمل اعتبار نہ رہا۔ اور وہ بات یہ ہے کہ روشن فکری نے غرور سے کام لیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ہم کائنات کے اسرار کو حل کرسکتے ہیں۔ اس نے سمجھا کہ کائنات تو ایک مشین کی طرح سے ہے اور آہستہ آہستہ ہم اس مشین کے پرزے الگ الگ کرکے د یکھ لیں گے کہ اس کی سائنس کیا ہے، یہ کن اصولوں پر بنی ہے، اور اس کی ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہوا۔ کائنات کے اسرار جتنے کھلتے ہیں اتنی ہی زیادہ پیچیدہ وہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابھی کچھ دن ہوئے میں نے طبیعیات کے نوبل انعام یافتہ مشہور سائنسداں اسٹیون وائنبرگ (Steven Weinberg) کا بیان پڑھا کہ کائنات جتنی ہی زیادہ تفہیم پذیر ہوتی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ وہ بے مقصود و مقصد بھی معلوم ہوتی ہے،
The more the universe seems comprehensible, the more it seems pointless.
ذرا دیکھیے، کل تک تو روشن خیالی کہہ رہی تھی کہ یہ کائنات ایسی ہے کہ اس کے وجوہ تخلیق، اور اس کا طریق نظم، دونوں کے وجوہ اور اسرار کو کھولنے کی قدرت سائنس کو حاصل ہے۔ اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں تخلیق کائنات کی کوئی وجہ ہی نہیں سمجھ میں آرہی ہے۔
کچھ دن ہوئے میں نے 28مارچ2002 کے نیویارک ریویو آف بکس The New York Review of Books میں اس صدی کے بہت بڑے ماہر طبیعیات اور سائنسی مفکر فری مین ڈاسن (Freeman Dysen) کا بیان پڑھا کہ ایک لاشخصی کائنات میں انسان جیسے ذی شعور وجودوں کی موجودگی، زیست اور زبان کے اسرار، خیر و شر کا وجود، اور لزوم و احتمال کے معاملات، یہ فلکیات (Astronomy) اور طبیعیات کے اسرار سے بھی زیادہ بڑے اسرار ہیں۔ اور ان سوالوں کے آگے اور بھی سوال ہیں، ایسے جنہیں ہم پوچھ بھی نہیں سکتے۔ کائنات کے بارے میں یہ سوال وہ ہوں گے جنہیں مستقبل کے ذہن اور وجود اٹھاسکیں گے، ایسے وجود جن کے تصورات اور احساسات ہماری دسترس سے اتنے ہی دور ہوں گے جتنے کہ ہمارے تصورات و احساسات کسی کینچوئے کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو کائنات کیسی نظر آئے گی، اس کے بارے میں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے،
The mysteries of life and language, good and evil, chance and necessity, and of our own existence as conscious beings in an impersonal cosmos are even greater than the mysteries of physics and astronomy… Beyond these questions are others that we cannot even ask, questions about the universe as it may be perceived in the future by minds whose thoughts and feelings are as inaccessible to us as our thoughts and feelings are to earthworms.
روشن خیالی نے سرمایہ پرستی، قوم پرستی اور وطن پرستی کو فروغ دیا۔ ان چیزوں کی برائیاں آج ہم پر ظاہر ہیں۔ آئیسایا برلن (Isaiah Berlin) نے اپنے ایک مضمون میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے خیالات نے دنیا کو نقصان عظیم پہنچایا۔ اس کی فہرست میں کئی Enlightenment والوں کے نام ہیں۔ پھر ظاہر ہے کہ عسکری صاحب کو روشن فکری ایک گہری گمراہی کے سوا اور کیا معلوم ہوتی؟
آخری بات یہ کہ روشن فکری نے مادے کو کسی طرح نہ کسی طور پر فوقیت دی، روح سے انکار کیا۔ یا اگر انکار نہیں کیا تو یہ کہا کہ یہ ہمارے مطلب کی چیز نہیں ہے۔ اور جب روح سے انکار کیا، یا اعتراض کیا، تو جو بھی روحانی تعلقات انسان اور کائنات، یا کائنات کے بنانے والے کے درمیان قائم ہوسکتے ہیں، ان سے بھی انکار کردیا گیا۔ عسکری صاحب کا بار بار کہنا تھا کہ انسانی روح کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہونا چاہیے، اللہ جو کہ خالق کائنات ہے، اصل الاصول ہے، اول الاولین ہے، ہمارا مبدی اور معاد ہے۔ اور یہ تعلق استوار ہوسکتا ہے صرف عقیدہ اور روایت کی بنیاد پر، عقل کی بنیاد پرنہیں۔ (جاری ہے)