جب کبھی کسی بازار سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو شاید ہی کوئی ایسی دکان ہوگی جس کا بورڈ قومی زبان یعنی اردو میں ہو ورنہ سب پر انگریزی کا بھوت سوار ہے سارے بورڈ انگریزی میں تحریر کیے جاتے ہیں۔
آہ ! بے چاروں کے اعصاب پہ ـ’’ــــــانگریزی‘‘ ہے سوارــ
زندگی کے سارے معاملات انگریزی زبان میں ہوتے ہیں جہاں مجبوری ہے وہاں تو مجبوری ہے مگر جہاں مجبوری نہیں ہے‘ جو چیز ہمارے اختیار میں ہے وہاں بھی ہم زبان ِغیر یعنی انگریزی ہی کو ترجیح دیتے ہیں مثلا ًاپنی دستخط، شادی کے دعوت نامے، دکانوں کے بورڈ، گھر کے باہر ناموں کی تختیاں وغیرہ جب ساری قوم ہی غلامانہ ذہنیت رکھتی ہو تو پھر کس سے شکایت کی جائے۔ اقبال کا ایک شعر یاد آ گیا:
جہاں میں بندہء حُر کے مشاہدات ہیں کیا
تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے
75سال ہو چکے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے مگر غلامی کا نشہ ابھی تک قائم و دائم ہے ماشاء اللہ کیا جوشِ جذبۂ غلامی ہے آقا چلا گیا مگر جو طوقِ غلامی گلے میں ڈال گیا ہے اُسے اتارنے کی ہمت آج تک نہ ہوسکی۔ غیرت مند قومیں اپنی زبان سے پیار کرتی ہیں‘ اسے سینے سے لگا کر رکھتی ہیں‘ زبان ِغیر کو ترجیح دے کر اپنی زبان کی تحقیر یا تذلیل نہیں کرتیں۔ اب اس کے بعد بھی اگر قوم یہ کہے کہ ہم آزاد ہیں تو یہ اس کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے ایک جلسے میں دوران ِتقریر ایک نوجوان (شیخ مجیب الرحمن) کا پاکستان کے قومی زبان کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی‘‘ آج بھی پاکستانی دستور میں قومی زبان اردو ہی لکھی ہوئی ہے اب یہ اردو کوئی پرندہ تو ہے نہیں جو اگر پرواز کر جائے تو اس کی جگہ صاحبِ اقتدار کوئی انگریزی پرندہ لا کر رکھ دیں اور کہیں کہ جب تک اپنا اندرونی پرندہ واپس نہیں آتا اسی بیرونی پرندے سے کام چلا لو۔
’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی‘‘ قائداعظم کا یہ خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ آج تک کسی بھی ایسے حکمران کا نزول نہیں ہوا جو اس خواب کو جذبۂ بیداری دیتا‘ قوم کے مادّۂ احساسِِ کمتری کو ختم کرکے قوم کو احساسِ برتری کے جذبے سے سرشار کرتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب جو شعر میں تحریر کرنے والا ہوں شاید میرے خیالات کی ترجمانی کر سکے۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خود جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہر محلّے‘ ہر گلی میں اسکول نظر آتے ہیں جن پر جلی حروف میں تحریر ہوتا ہے’’انگلش میڈیم اسکول‘‘ لوگوں نے اسے خوب کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو بچے وہاں سے پڑھ کر نکلتے ہیں نہ تو انہیں انگریزی ڈھنگ سے آتی ہے اور نہ اردو‘ بلکہ اردو کا تو بیڑہ ہی غرق ہو چکا ہوتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ان بچوں کے دلوں میں اپنی زبان کے لیے احساسِ کمتری کا مادّہ اس طرح پیدا ہو جاتا ہے کہ ساری زندگی اپنی زبان کو زبان ِغیر کے آگے حقیر ہی سمجھتے ہیں۔
کراچی میں شادی ہالوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ اتنی تیزی سے اضافہ تو پرچون کی دکانوں میں بھی نہیں ہوتا‘ مگر بھئی صدقے جاؤں شادی ہال کے مالکان پر کہ ہالوں کے نام ایسے عجیب و غریب رکھتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ لفظ انگریزی زبان کا ہے یا کسی اور زبان کا بہرحال کسی بھی زبان کا ہو اپنی زبان کا نہ تو لفظ ہوگا اور نہ ہی تحریر۔ جانے کیا بغض ہے انہیں اپنی زبان سے ۔یہی حال فلیٹوں کے ناموں کا بھی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی قوم نے ترقی کی ہے تو اپنی زبان کو اپنا کر۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ یہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جنھوں نے ساری دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے لیے افسوس‘ بلکہ شرم کا مقام ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سے لے کر آج تک ہم اُسی غلامانہ حصار میں محصور ہیں‘ نہ تو ہمیں اس حصار سے باہر نکلنے کی فکر ہے اور نہ ہی جستجو اور نتیجہ یہ کہ احساسِ کمتری ہمارا مقدّر بن کر رہ گیا ہے۔ میرا تعلق دوائیوں کے ایک کارخانے سے ہے‘ ہمارے یہاں ایک معمولی سا مزدور بھی تنخواہ لیتے وقت انگریزی میں دست خط کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے یہ احساس ِکمتری کا مادّہ صرف اس مزدور میں ہی نہیں بلکہ ساری قوم میں ہے۔
نسل ِنو اپنی قومی زبان سے آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی ہے اب ایک سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ ہمارا سارا دینی ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔ قرآن کی تفاسیر، احادیث، اسلامی تاریخ وغیرہ… جب نئی نسل اردو سے بے بہرہ ہو گی تو پھر یہ سارا دینی ذخائر بے کار ہوکر رہ جائے گا۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی طوفان ہے جو عن قریب آنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر اجمل سراج یاد آگئے:
کوئی طوفان آنے والا ہے
رُخ ہوا کا نظر نہیں آتا
کاش وطنِ عزیز کے دانشوران اور حکمران ہوا رُخ پہچان لیتے اور وہ غلطیاں جو ابتدا سے ہوتی چلی آرہی ہیں ان کے ازالہ کا کوئی معقول بندوبست کرتے‘ اپنی قومی زبان کو رائج کرنے کی سعی کرتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ ایک واقعہ یاد آگیا میںچین کے شہر شنگھائی میں مسلم کھانے کا ہوٹل تلاش کر رہا تھا۔ ایک ہوٹل نظر آیا جس کا بورڈ فارسی میں تحریر تھا (فارسی رسم الخط میں ہی اردو بھی لکھی جاتی ہے) اس بورڈ پر کسی جگہ بھی چینی زبان کا ایک لفظ بھی تحریر نہ تھا۔ ہوٹل میں داخل ہوا … پہلے جس شخص سے ملاقات ہوئی اس سے دریافت کیا کہ ’’باہر بورڈ فارسی میں تحریر ہے چہ معنی دارد‘‘ اس نے بتایا کہ ہمارے آباء و اَجداد بہت سال قبل قازکستان سے ہجرت کر کے چین آئے تھے ہماری پیدائش چین کی ہے۔ ہماری قومیت چینی ضرور ہے مگر ہماری زبان فارسی ہے ہم اپنی زبان سے پیار کرتے ہیں۔ یہ ہے زبان کی محبت اور یہ ہے زبان سے محبت۔ اہلِ وطن ذرا غور فرمائیں! میری گزارش ہے تمام اہلِ وطن سے اپنی دستخطیں، گھر کے باہر نام کی تختیاں، شادی کے دعوت نامے، دکانوں کے باہر کے بورڈ اور اپنے تمام کاروبارِ زندگی میں اپنی قومی زبان اردو استعمال کریں، زبان کا حق ادا کریں اور ایک غیرت مند قوم ہونے کا ثبوت دیں۔