افق کے اس پار

507

’’فارعہ کن سوچوں میں گم ہو؟‘‘ شہزینہ نے اپنی دوست سے پوچھا۔
’’سوچ رہی ہوں کتنی خوب صورت وادی ہے ہماری… ہم کتنے مزے میں ہیں، مگر اُفق کے اُس پار ہمارے بہن بھائی کتنے لاچار ہیں۔‘‘ فارعہ نے اداسی سے کہا۔ وہ جب بھی مقبوضہ کشمیر کی بات کرتی اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگتے۔

فارعہ اور شہزینہ یونیورسٹی فیلو تھیں۔ ان کا سبجیکٹ بھی ایک تھا۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی دونوں بچپن کی پکی سہیلیاں بھی تھیں اور خالہ زاد بھی۔ اور تو اور دونوں کی تاریخ پیدائش بھی ایک تھی، دونوں 5 فروری کو پیدا ہوئیں۔

قائداعظم یونیورسٹی کی بس آزاد کشمیر کی حسین وادی میں خراماں خراماں رواں دواں تھی۔ شہزینہ نے ایک نظر اپنی پیاری دوست کی طرف دیکھا اور آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کی۔

’’تمھارا دل نہیں چاہتا کہ جلد ہم ایک ہوجائیں، وادی کا وہ حصہ کتنا بے چین ہے کہ جلد اِس حصے سے آملے اور اس کا نامکمل وجود مکمل ہوجائے۔ ‘‘ فارعہ جیسے خواب میں بول رہی تھی۔
’’نہیں…‘‘ شہزینہ نے نخوت سے جواب دیا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ فارعہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔

’’مطلب یہ کہ مجھے پاکستان سے بہت پیار ہے لیکن کشمیر ایک آزاد ریاست ہوگی۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔ باقی سارا سفر فارعہ اور شہزینہ نے خاموشی سے طے کیا۔
اگلے دن بھی فارعہ نے شہزینہ سے کوئی بات نہ کی، مگر شہزینہ اس کے بغیر نہ رہ سکتی تھی، سو منانے کے لیے منتیں ترلے کرنے لگی۔

’’دیکھو شہزی تم میری دوست ہی نہیں بہن بھی ہو، اگر تمہاری سوچ اور فکر غلط سمت جائے تو مجھے فکرمند ہونا ہی چاہیے۔‘‘ فارعہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن یہ صرف میری نہیں کشمیری مسلمانوں کی بھی سوچ ہے، آج ہم پاکستان کا حال دیکھ تو رہے ہیں، کیا صحیح ہے یہاں… ہر طرف کرپشن، چور بازاری۔‘‘ شہزینہ نے دلائل دینے چاہے۔

’’نہیں شہزی تم تصویر کا ایک رُخ دیکھ رہی ہو، ہم پاکستان کے ساتھ جڑ کر کتنے امن میں ہیں۔ سرحد پار کی طرح نہیں کہ بھارتی درندے جب دل چاہتا ہے کسی بھی گھر کا دروازہ ٹھوکر سے کھولتے ہیں اور وہاں موجود بہن، بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چلتے بنتے ہیں۔ کوئی جوان، کوئی بوڑھا، حتیٰ کہ کوئی بچہ تک ان کے عتاب سے محفوظ نہیں۔

ہم روز میلوں دور یونیورسٹی جاتے ہیں، بس ہمیں حفاظت سے گھر پہنچاتی ہے۔ ہم سے یہاں کے لوگ دل و جان سے محبت کرتے ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جو ہر سال کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن مناتا ہے اور اقوام متحدہ میں قراردادیں پیش کی جاتی ہیں۔ رہی یہ بات کہ پاکستان میں بھی حالات اچھے نہیں، تو دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں سو فیصد سب درست ہے؟ یہاں کم ازکم ہم آزادی سے نماز پڑھتے ہیں، بقرعید پہ قربانی کرتے ہیں۔کیا تم نے دیکھا نہیں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟‘‘ فارعہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

’’مگر ہم بھارت کے ساتھ تھوڑی ملیں گے، ہم تو اپنی ریاست بنائیں گے۔‘‘
شہزینہ کی آواز میں کمزوری دکھائی دی تو فارعہ نے مزید لب کشائی کی:
’’رہنے دو ریاست، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کہو تو بہتر ہوگا۔ اتنا چھوٹا سا خطہ، جو ہر وقت بھارت کے زیرعتاب رہے گا… ابھی تو پاکستان ہمارے ساتھ ہے، ہمارے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے، پھر ہم کہاں جائیں گے؟ بھارت کے خلاف کس سے مدد طلب کریں گے؟ بولو، جواب ہے میری بات کا تمہارے پاس؟‘‘ فارعہ نے اسے گھیرا۔
’’ہماری بقا اور سلامتی اسی میں ہے کہ ہم وفا نبھائیں، اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی محبت اور خلوص کی قدر کریں، کیوں کہ جڑ کر رہنے میں ہی عافیت ہے۔ آج اگر کوئی کشمیری الگ ہونے کی سوچ رکھتا ہے تو اس پر افسوس ہے، کیوں کہ اللہ ہماری نیت دیکھتا ہے۔ آزادی کا یہ سفر طویل سے طویل ہوتا جائے گا، اور کوئی سرا ہاتھ نہ آئے گا۔ کیوں کہ فتح تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کو اجتماعیت پسند ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ مومن ایک جتھے کی صورت رہتا ہے۔‘‘
فارعہ نے امید افزا نگاہوں سے شہزین کو دیکھا جس کی آنکھیں اس حقیقت کو جان کر مسکرا رہی تھیں۔ اُس نے فارعہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر نعرۂ تکبیر لگایا اور اس کے بعد جو نعرہ اُس کی زبان پہ تھا، وہ تھا ’’پاکستان زندہ باد… کشمیر بنے گا پاکستان…‘‘

حصہ