مارچ میں مارچ کا چرچا

301

پاکستان کے سوشل میڈیا پر ہر بار کی طرح اِس ہفتے بھی بالعموم سیاسی موضوعات ہی چھائے رہے۔ اس دوران شبِ مغفرت، شب ِبرات یعنی 15 شعبان کی رات کو بھی یاد رکھا گیا، ٹوئٹر اور انسٹا گرام ٹرینڈ میں پاکستان سے لے کر بھارت و بنگلہ دیش تک لوگوں کی شرکت تھی، اور سب پوسٹوں میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی ترغیب دلائی جاتی رہی، جس نے اس ہیش ٹیگ کو ٹاپ پر لاکھڑا کیا۔ فیس بک پر البتہ مستقل اس رات کی کوئی اہمیت نہ ہونے کے دلائل کاپی پیسٹ کیے جاتے رہے، مگر مجھے یہ بات اچھی لگی کہ کسی نے بحث مباحثہ نہیں کیا۔ بات اگر مغفرت کی ہے اور یہ ایمان ہے کہ اللہ پاک ہر وقت سمیع و علیم ہے تو مغفرت مانگنے کے لیے کوئی بہانہ مل جائے، جس کے پیچھے اکابرینِ امت کی اتنی بڑی تعداد اور تواتر امت موجود ہو تو مغفرت نہ مانگنا بہرحال موقع چھوڑنے کے مصداق ضرور ہوگا۔ یہی نہیں، کراچی میں کم از کم میں نے یہ بات صاف نوٹ کی کہ اس رات پٹاخوں یا آتش بازی کا سلسلہ الحمدللہ ختم ہونے جیسا تھا، وگرنہ اس رات کے انکار کے دلائل سرکاری سرپرستی میں ہونے والی بھرپور آتش بازی کی وجہ سے بہت مضبوط ہوجاتے تھے۔ جہاں لوگ سوشل میڈیا پر مغفرت کی پوسٹیں ڈالتے نظر آئے، وہیں دوسری جانب قبرستانوں میں اپنے مرحومین کی دعائے مغفرت کے لیے لوگوں کا بھی تانتا بندھا رہا۔

باقی امور سے عمران خان توجہ ہٹنے ہی نہیں دیتے، کسی اور جانب جانے ہی نہیں دیتے، ایسا کنٹرول رکھا ہوا ہے کہ ٹرینڈ لسٹ سیاسی موضوعات سے بھری رہتی ہے۔ مریم کی واپسی کے بعد تو اور پریشر بڑھ گیا ہے۔ ”زمان پارک پہنچو“ کا ہیش ٹیگ تو مستقل لسٹ میں منڈلاتا رہا، کسی نے پوچھا کہ بھائی اپنے لیڈر کو چھوڑ کر واپس جاتے ہی کیوں ہو جو ہر دوسرے دن بلانا پڑے؟ اپنی گرفتاری کے خوف سے خود عمران خان کی حرکات ہوں یا حکومتی بوکھلاہٹ، عدلیہ کے نرم رویّے ہوں یا اس میں تڑکا لگانے کے لیے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا انٹرویو میں بیان… سب نے سیاسی ماحول کو ہی گرم رکھا۔ لیکیجز کے ضمن میں سب سے شرمناک لیک دستاویز عمران خان کے وکیل کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویز تھی، جس میں عدالت سے حاضری کی رخصت کے لیے جو وجہ لکھی تھی اس کا اردو زبان میں مطلب ’بواسیر‘ ہے یعنی آنتوں کی ایسی بیماری جس سے فضلے کے ساتھ خون بھی خارج ہو۔ یہ ایک قابلِ علاج بیماری ہے جو پاکستان میں عام ہے، مگر اس کو جن طبی اصطلاحات کے ساتھ عدالت میں جمع کرایا گیا، نون لیگی ماہرین نے دستاویز لیک کرکے جو ڈبہ بجایا، وہ تفریح طبع کے لیے کافی تھا۔ ایسا ہی کچھ ”جیل بھرو تحریک“ میں شاہ محمود قریشی کے بیانات سے بھی ہوا تھا جب اُن کو بہانے سے جیل لے گئے تھے۔ اس کے بعد لاہور میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک کارکن علی بلال کی موت سے ڈرامے میں مزید شدت آگئی، کیونکہ ”خون“ ہر سیاسی تحریک کے لیے ایندھن کا باعث بنتا ہے، چاہے عمران خان کی ٹانگ سے بہے یا علی بلال کا ہو۔ سوشل میڈیا پر علی بلال کی وڈیوز وائرل کر کرکے حکومتِ وقت کے خلاف تنقید جاری رہی۔ مریم نواز کے خلاف کئی ٹرینڈ دو تین تین دن تک کھینچے گئے۔

ویسے اس میں سب سے اہم نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لبرل ازم کے غلبے نے سیاست کے چار ستونوں میں سے ایک کو تو بالکل ہی ختم کردیا ہے۔ جدید سیاست کے چار ستون یا چار ہی طریقے ہوتے ہیں: نظریاتی انقلابی سیاست (مطلب مکمل تبدیلی کی خاطر)، وسائل کی تقسیم کی سیاست (دستیاب قومی وسائل کی تقسیم کی خاطر)، پہچان کی سیاست (اپنے طبقے، گروہ، نسل، قوم کی پہچان کی خاطر)، نمائندگی کی سیاست (اپنے طبقے، گروہ، نسل، قوم کو کسی فورم میں نمائندگی دلانے کی خاطر)۔ اب ثاقب نثار کے صاف بیان کے بعد جہاں اُن کے باقی فیصلوں پر سوال اٹھا، وہاں آسیہ ملعونہ کی فوری رہائی کیس کا عقدہ بھی حل ہوگیا، مگر ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ کسی دینی جماعت کی جانب سے یہ نوٹس ہی نہیں لیا گیا، مزید ستم یہ ہوا کہ فیض حمید کا ایسا حیرت انگیز دفاع سامنے آگیا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس کی کسی بات کا رد نہیں کیا بلکہ یہ کہہ دیا کہ سارے فیصلے آرمی چیف کے ہوتے ہیں۔ ابھی عدلیہ پر واضح جواب نہیں آیا مگر یہ بات کافی ہے سمجھانے کو۔ دوسری جانب جنرل باجوہ کے بعد جنرل عاصم کے خلاف بھی شدید مہم جاری ہے۔

اب چلتے ہیں اپنے دوسرے موضوع کی طرف، جو 7 مارچ سے ٹرینڈ لسٹ پر سوار ہوا، پھر 10 مارچ تک لسٹ میں بہانے بہانے سے شامل رہا۔ جی، یہ بات ہو رہی ہے ”عورت مارچ“ کی۔ یقین مانیں یہ اتنی قلیل تعداد میں ہیں کہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کو ڈسکس کیا جائے اور کسی قسم کی اہمیت دی جائے، مگر کیا کریں جیسا میں نے اوپر بتایا کہ سیاست کا یہ ایک طریقہ ہے پالیٹکس آف ریکگنیشن یعنی پہچان کی سیاست۔ تو جب ”عورت مارچ“ اپنی پہچان کرانے کے لیے میدان میں اُترا تو حیرت انگیز طور پر اس کی مدد کرنے کے لیے ’وہ‘ جماعتیں بھی جن کی اپنی پہچان پہلے سے بہت واضح تھی، میدان میں آگئیں، اس طرح ازخود اس چھوٹے سے ٹولے کو اتنی پہچان مل گئی کہ پیچھے موجود قوتوں کو سامنے آنا ہی نہیں پڑا۔ لبرل ازم کو جو لوگ ہینڈل کرنا جانتے ہیں، اس کی تاریخ جانتے ہیں، یہ صرف ان کو ہی معلوم ہے کہ لبرل ازم کو صرف ’وائیلنس‘ سے ہی قابو لایا جاتا ہے۔ عورت مارچ کے خلاف کئی سال سے جو کچھ ہورہا تھا، وہ یہی تھا جو لبرل ازم کو مطلوب تھا۔ وہ عالمی دن منانا چاہتے تھے، اس دن ایک دو ہی ریلیاں ہوتی تھیں جو اُن کے ایجنٹ کرتے۔ عورت مارچ ہوا تو سب کو یہ دن یاد آگیا اور اب عالمی دن والے یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ ہمارا تیار کردہ دن اب سب منا رہے ہیں، وہ بھی جو ہمارے حامی ہیں اور وہ بھی جو ہمارے سخت نظریاتی مخالف ہیں، بلکہ وہ تو اور زیادہ اچھے انداز سے مناتے ہیں، اب ہر جگہ وومن ایمپاورمنٹ کی بات ہونے لگی ہے، عورتوں کے حقوق کی بات ہونے لگی ہے، عورتوں کے تحفظ کی بات، عورتوں کی تنخواہوں کی بات، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ تو ظاہر ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ کس کا ایجنڈا فروغ پارہا ہے۔ بہرحال سوشل میڈیا پر معاملہ یوں گرم ہوا کہ کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد اور لاہور میں عورت مارچ کو روکنے کے لیے عدالت و انتظامیہ سے کچھ لوگوں نے رجوع کیا۔ کراچی میں تو عورت مارچ کو فریئر ہال میں 8مارچ کو اجازت نہیں مل سکی تو انہوں نے شریک ہونے والی مزدور خواتین کی نوکری یعنی دیہاڑی ضائع ہونے کا نقصان بتاتے ہوئے اس کو چھٹی کے دن یعنی اتوار کو کرنے کا بھونڈا اعلان کردیا، جبکہ دیگر شہروں میں 8 مارچ ہی رکھا۔ سوال یہ بنتا تھا کہ کیا باقی شہروں میں فارغ خواتین آئیں گی؟ مگر لوگ حقیقت جانتے تھے، اس لیے سوال نہیں کیا۔ میرے پاس واٹس ایپ پر کراچی والے مارچ کو روکنے کے لیے عدالت و انتظامیہ کو جمع کرائی گئی درخواست کی کاپی 3مارچ کو پہنچی۔ ایک خاتون نے ذاتی حیثیت میں 12 مارچ کو عورت مارچ شہر میں نہ ہونے کی اپیل کی تھی، یہ استدعا ’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘ کے ضمن میں کی گئی تھی جو عدالت میں پچھلے سال سے زیر التوا تھا، کیونکہ ’عورت مارچ‘ میں یہ لوگ نمایاں شرکت کرتے ہیں جبکہ یہ عورت نہیں ہوتے۔ کیس کی سنوائی کا نتیجہ کیا رہا یہ آج شام تک معلوم ہوگا، تادم تحریر یہ ضرور ہوا کہ ان کو فریئر ہال میں اجازت نہیں ملی، اس کی جگہ نیشنل میوزیم سے متصل ’برنس گارڈن‘ میں انہوں نے یہ اناؤنس کردیا ہے۔ اسلام آباد میں پولیس کے ساتھ معاملہ گرم ہوگیا جس کی تفصیل جان بوجھ کر چھپائی گئی اور 3 پولیس اہلکاروں کی معطلی سے یہی ظاہر کرایا گیا کہ پولیس والوں کی غلطی تھی، یعنی یہاں بھی مرد ظالم، عورت مظلوم بنی۔ جبکہ سوشل میڈیا کی فوٹیجز صاف بتاتی رہیں کہ اسلام آباد عورت مارچ کے شرکا کس عزم کے ساتھ تھے اور کیا حرکتیں کرتے رہے۔

7مارچ سے ٹوئٹر پر امسال کا نعرہ Embrace Equity کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ابھرا۔ یہ کیا ہے جس کو گلے لگانے یا اپنانے کی بات ہورہی ہے، اس کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں، بلکہ لکھتے ہیں کہ ”ایک صنفی مساوی دنیا کا تصور کریں۔ تعصب، دقیانوسی تصورات اور امتیاز سے پاک دنیا۔ ایک ایسی دنیا جو متنوع، مساوی اور جامع ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں فرق کی قدر کی جاتی ہے اور جشن منایا جاتا ہے“۔ فیمنسٹ ایجنڈا کہنے کو تو سرمایہ دارانہ نظام پر بھی سخت تنقید کرتا ہے۔

لبرل ازم کا سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ اس کے نعرے یا دعوے کبھی واقعاتی حقیقت نہیں بن سکے۔ یہ مستقل ایک کے بعد دوسرے لبادے پہن کر اپنے تضادات کو چھپاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مواد ثبوت ہے کہ فیمنسٹ تحریک، کس طرح ٹرانس جینڈر میں داخل ہوگئی، پھر وہاں سے کیسے ایل جی بی ٹی کیو کو رستہ مل گیا یہ کوئی نہیں بتائے گا۔ معاملہ یہیں نہیں رکا… سوشل میڈیا پر میں دیکھ رہا ہوں کہ مغربی مفکرین نے جنس اور صنف کو الگ کرکے پہلے بظاہر جو ایک لکیر کھینچی، جنس نے اُس سے الگ ہوکر مزید کئی اقسام پیدا کرلیں۔ اب مرد، عورت یا ٹرانس جینڈر سے آگے نکل کر انسان کی حیوانی و مشینی تعبیر تک بات جا پہنچی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ انسان کو جب ایک ’مادی وجود‘ مان لیا جائے تو پھر اس کو مادے کے طور پر ڈیل کیا جائے گا۔ یہاں سے رستہ کھلے گا کہ اور مادے کیا ہیں؟ ان میں حیوان بھی ایک مادی وجود ہے، مشین بھی ایک مادی وجود ہے، پودے بھی ہیں، تو کیوں نا سب میں موافقت ڈھونڈی جائے؟پھر انسان اور حیوان کے ڈی این اے کا موازنہ ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی جینیاتی معلومات کا 60 فیصد سے زیادہ عام طور پر پودوں اور جانوروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ محققین نے 2005ء میں چمپ جینوم کو ڈھونڈ کر بتایا کہ انسان کا تقریباً 99 فیصد ڈی این اے چمپینزی جیسا ہے، جس سے وہ ہمارے قریبی رشتے دار بن جاتے ہیں۔ یہاں سے انسان کے حیوانی وجود کی تعبیر کے جواز کھڑے ہوگئے اور بات جنسی تفریق سے کہیں آگے نکل گئی۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا عالمی سطح کا مفکر فرانس میں ڈیلیوز کے نام سے سامنے آیا۔ اس نے انسان کی حیوانی تعبیر کو اتنا علمی مواد دیا کہ مغرب میں اُس طوفان کو دیکھ کر مجھے یہاں بھی سب بہتا نظر آرہا ہے۔ حیرت کا اظہار نہ کریں، میں اپنے درمیان اس کی جھلک دکھاؤں؟ کیا آپ نے کبھی یہ سادہ سے جملے سنے ہیں ’’ہر انسان کے اندر بھی ایک جانور ہوتا ہے‘‘، ’’انسان ایک معاشی یا سماجی حیوان ہے‘‘،’’انسان بھی ایک حیوانی وجود ہے‘‘، ’’انسان ایک مشین کی مانند ہے‘‘۔ اب یہ تمام جملے غیر شعوری طور پر حیوانی و مشینی منہج کی طرف دھکیل رہے ہیں کبھی سوچا آپ نے؟ یہی نہیں فلموں، ڈراموں میں مستقل سمجھایا جاتا ہے کہ ایک ناگ یا ناگن ہے جو انسان بن جاتا/ جاتی ہے، انسان بھی بھیڑیے کے کاٹنے سے ویسا بھیڑیا بن جاتا ہے WOLF سیریز۔ Manimal نامی سیریز 80 کی دہائی میں پی ٹی وی پر نشر کی گئی، جس میں انسان ہر قسم کا جانور بن جاتا اور پولیس کی مدد کرتا۔ اسی عشرے میں یعنی 80کی دہائی میں Automan سیریز بھی پی ٹی وی پر نشر ہوئی تھی جس میں انسان مشین بن جاتا۔ دونوں سیریز میں ایک پہلو نمایاں تھا کہ جانور بن کر بھی اور مشین بن کر بھی وہ انسانوں سے زیادہ اچھے کام کرسکتے ہیں جو انسان نہیں کرسکتے۔ پھر میڈیا کے ذریعے سپر ہیروز کی ایک بہار سی لاد دی گئی۔ کیٹ وومن، بیٹ مین، اسپائیڈرمین، آئرن مین، ٹرانسفارمر۔ اور مستقل اضافہ جاری ہے۔ ان سب کے پیچھے غور سے دیکھیں کہ یہ کیٹ، بیٹ، مکڑی، ٹرانسفارمر یعنی مشین بن جانے کا تصور اذہان میں ڈال کر کس چیز کو نارملائز کیا جارہا ہے؟ کارٹون کے ذریعے جس طرح ہم جنس پرستی سکھائی جارہی ہے اس پر کئی بار لکھ چکا ہوں۔ یہ سب تخیلات نہیں ہیں، ان سب کے پیچھے پورے نظریات ہیں، کتابوں کے ڈھیر ہیں، فلسفی بیٹھے ہیں شیطان کی سرپرستی میں۔

اب ذرا انکروچمنٹ کی نوعیت نوٹ کریں، اس سے قبل تو جتنے کردار تھے سب مغربی، غیرمسلم پس منظر کے تھے۔ 2022ء میں ہالی ووڈ نے ’مس مارول‘ کا اگلا ڈرامہ پاکستانی اداکاروں ہی نہیں مسلم کرداروں کو لے کر بنا لیا۔ مسلمان لڑکی دکھائی ہے جو جادوئی کڑے کی طاقت سے ایک غیر معمولی طاقت والا (مرغی نما) پرندہ بن جاتی ہے۔ اب اندازہ کرلیں کہ جب مسلمانوں کے تصورات میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو اس کو کیوں لاکر ٹھونسا گیا؟ کیا صرف تفریح کی خاطر؟

ضرورت ہے کہ مسلمان عقائد کے معاملے میں مضبوطی پیدا کریں، کیونکہ مغربی دنیا اپنے مذہبی عقائد کو رد کرکے ہی اس ڈگر پر چلی ہے۔ مسلمان کے پاس ’الحق‘ ہے جس کی بنیاد ’وحی‘ ہے، جبکہ وحی سے ہٹ کر پیدا شدہ ہر فلسفہ باطل پر کھڑا ہے، اور باطل سے اجتناب کا حکم ہے، باطل کو مٹانے کا، رد کرنے کا حکم ہے، متبادل ڈھونڈنے کا نہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟ ایسا کرنے سے یہ ہوگا کہ اگر انسان حیوانی یا مشینی تعبیر میں ڈیفائن ہوگا تب ہی تو محرمات کا تصور ختم ہوگا، جنسی لذت کے حصول کی آزادی کا رستہ یہیں سے تو کھلے گا۔ یہی تو شیطان کا ایک کام ہے۔ ”جو شخص شیطان کے پیچھے چلے تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کی تلقین کرے گا“۔(النور)

حصہ