ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
سلائی مشین کا پہیہ ٹھکا ٹھک گھوم رہا تھا… رات کا پچھلا پہر، ہر نفس خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جمیلہ پرانی سلائی مشین پر جھکی ہوئی تھی جس کی خوب صورتی اب برقرار نہ رہی تھی اور بے ڈھنگی آوازیں بھی نکالتی تھی۔ یہ مشین پرانی اور بوسیدہ ہونے کے باوجود اس کے ان برے دنوں کی ساتھی تھی۔
کل ملک صاحب کی بیگم کو کپڑے تیار کرکے دینے تھے۔ جب سے سیاسی جلسے میں بشیرے کی ٹانگ پہ گولی لگی تھی وہ چارپائی کا ہی ہوکر رہ گیا تھا۔ پارٹی کے بھی تو کسی کام کا نہ رہا تھا، سو انھوں نے بھی کبھی پلٹ کر پوچھا ہی نہیں کہ گزر بسر کیسے ہورہی ہے۔اسے بھی وہ دور یاد آتا جب وہ پارٹی کا اہم پرزہ تھا تو وہ سر جھٹک کر رہ جاتا، اور تو کچھ کر نہیں سکتا تھا، غریب جمیلہ کو ہی کوسنے لگتا۔ یہ سیاست دان بھی تو ہوس کے پجاری ہی تھے نا، جب تک مطلب تھا تو اس کی واہ واہ تھی اور اب اس سے کسی کو سروکار ہی نہ تھا۔
جمیلہ ایک نظر اسے دیکھتی اور خاموشی سے سلائی مشین پر جھک جاتی اور شکر کرتی کہ ماں نے اچھے وقتوں میں اسے سلائی کا کورس کروا دیا تھا۔ اُس وقت ماں اسے کسی جلاد سے کم نہ لگتی تھی جو ہر وقت کام پہ لگائے رکھتی تھی، اسے ذرا جو رحم آتا ہو، اور جہیز میں مشین بھی دی تھی۔
کیا ماں کو پتا تھا کہ یہ میرے کام آئے گی؟ وہ اپنے آپ سے پوچھتی اور دو آنسو اس کی جلتی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے گالوں تک آنے لگتے جنھیں وہ اپنے دوپٹے سے صاف کر دیتی کہ کہیں بشیرا نہ دیکھ لے، کہ اور شامت آنی تھی، کہتا: تیرا یہ رونا ہی مصیبت میں ڈالتا ہے۔
’’ٹھکا… ٹھک…‘‘ مشین چلتی رہی اور فجر کی اذان ہوگئی۔ وہ اٹھی، وضو کرکے نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ پھیل گئے جنھیں اس نے صاف نہ کیا کہ رب سوہنے کو تو اس کے بے ضرر سے آنسو پسند تھے، وہ انھیں اپنے دربار میں قیمتی سمجھتا تھا۔
ملک صاحب کی بیگم نے سلائی کے پیسے اس کے ہاتھ پہ ایسے رکھے گویا احسانِ عظیم کیا ہو۔ مہنگائی کے اس دور میں پانچ سو روپے فی جوڑا، وہ بھی ڈیزائن والا۔ کیا جانتی نہ تھیں کہ وہ مجبور ہے مگر پھر وہی ہوس کی غلامی… دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا۔ پانچ جوڑوں کے ہوئے کُل ڈھائی ہزار روپے۔ بشیرے کی دوائی،گھر کا راشن،گڈو کا سوئیٹر… اس کی دماغ کی پھرکی گھومنے لگی۔ ہر چیز ہی مہنگی تھی۔ آنسو اس کی جلتی آنکھوں سے باہر نکلنے کو مچلے، مگر اس نے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے اپنے اندر اتار لیے اور گڈو کو دوا اور راشن لینے بھیج دیا۔ چھمو جو ثمینہ سے چھمو ہوچکی تھی لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرتی، اسی نے جمیلہ کے گھر کا پتا ملک صاحب کی بیگم کو دیا تھا کپڑے سلوانے کے لیے، اور اب ایک اور بیگم صاحبہ کو لائی تھی، ان کا بوتیک تھا اور جمیلہ کی اتنی اچھی سلائی دیکھ کر اسے اچھے دام دینے کو تیار ہوگئی تھیں… وہ چھمو کی مشکور تھی جو غریب اور اَن پڑھ تھی مگر اخوت کا سبق پڑھ رکھا تھا شاید۔ بڑے لوگ تو پڑھے لکھے ہوتے ہیں پھر کیوں…؟اس نے سوچا۔’’پڑھے لکھے دولت مند غریب نہیں، یہ تو دل کا معاملہ ہے۔‘‘
بوتیک کے کام سے اس کے حالات میں بہتری آنے لگی تھی۔ ’’ٹھک ٹھکا ٹھک ٹھک‘‘ سلائی مشین کا پہیہ گھوم رہا تھا، جمیلہ نے مشین پہ جھکا سر کچھ لمحوں کے لیے اٹھایا۔ فجر کی اذان ہورہی تھی۔ وہ اٹھی اور اپنے رب کے سامنے سربہ سجود ہوگئی۔ تشکر کے دو آنسو اس کی آنکھوں سے آزاد ہوئے۔