اطمینان

284

عصر کا وقت ہورہا تھا جب میں اپنی سہیلی نادیہ کے گھر اُس کے بیٹے کی عیادت کو پہنچی۔ میں اُس کے گھر پہلی دفعہ آئی تھی اس لیے ہر چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ کرائے کے دو کمروں پر مشتمل اس کا صاف ستھرا گھر، جہاں ہر چیز اپنے ٹھکانے پر موجود تھی۔

’’واہ، چھوٹے بچوں والا گھر اور ہر چیز اپنے ٹھکانے پہ پڑی ہے۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہی میں نے دل ہی دل میں نادیہ کے سلیقے کو سراہا۔
اسی دم نادیہ کمرے سے باہر نکلی۔ وہ قدرے نیا لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کے دونوں چھوٹے بچے بھی صاف ستھرے حلیے میں تھے۔

میں نے حال احوال کے بعد فوراً نادیہ سے پوچھا ’’کہیں جانے کا ارادہ ہے کیا؟‘‘

نادیہ نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں نے سوچا کہ میں نے تو نئے جوڑے کہیں آنے جانے کے لیے رکھے ہوتے ہیں۔ گھر میں تو کبھی کسی سوٹ کی قمیص اور کسی کے دوپٹے جیسے حلیے میں ہی پھرتی رہتی ہوں۔ ’’بس یہ کام ختم ہوجائے تو صاف ہوتی ہوں‘‘، ’’بس وہ کام مکمل کرلوں تو حلیہ درست کرتی ہوں‘‘ کی گردان کرتے کرتے دن گزر جاتا ہے۔

میں نے اپنے دل سے گفت و شنید بند کرکے نادیہ سے اس کے دو سالہ بیٹے کی خیریت دریافت کی جس نے چوہے مار گولی کھا لی تھی اور دو دن انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہ کر آیا تھا۔

میرے پوچھنے پر نادیہ اطمینان سے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے بتانے لگی کہ بروقت امداد ملنے سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ پھر ہنستے ہوئے بولی ’’میں تو اپنے بھانجے کے عقیقے پر جانے کو تیار کھڑی تھی۔ میرا بیٹا مجھے اسی تیاری کے ساتھ آئی سی یو لے گیا۔‘‘

میں نے سوچا کہ نادیہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے، ورنہ بیٹا مرتے مرتے بچا ہو تو جان پر بنی ہوتی ہے، بدحواسی میں ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ میں اس کی جگہ ہوتی تو رو رو کر خود کو ہلکان کرلیتی، یا پھر میکے نہ جانے پر اپنے شوہر اور بیٹے کو کوسنے دیتی کہ یہ باپ بیٹا تو چاہتے ہی نہیں کہ میں میکے جاؤں، عین وقت پر ضرور کچھ ایسا کردیتے ہیں کہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ میکہ بھلا پھر کس کو یاد رہتا ہے!

میں اپنی سوچوں کو پرے دھکیل کر نادیہ سے مزید تفصیلات پوچھنے لگی۔ میرے ذہن میں اُس کے شوہر کی معمولی نوکری اور قلیل تنخواہ بھی تھی سو دوبارہ سوال داغا:

’’اسپتال میں تو بہت خرچا ہوگیا ہوگا؟ یکدم اتنا بڑا خرچا سر پہ پڑ جائے تو بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

’’نہیں… نہیں، میرے شوہر کچھ نہ کچھ جمع پونجی الگ سے رکھتے ہیں، پھر میں بھی گھر کے خرچے میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہوں۔ بس اسی میں گزارہ ہوگیا۔ بیٹے کی بیماری پہ قرض نہیں لینا پڑا۔‘‘

نادیہ نے جب اسی اطمینان سے جواب دیا تو میں پھر سوچ میں پڑ گئی’’یااللہ! یہ نادیہ اتنے ٹھنڈے مزاج کی کیسے ہے؟ اتنی تھوڑی تنخواہ میں بھی شکر ادا کررہی ہے۔ کرائے کا گھر اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور نادیہ صاحبہ کا اطمینان قابلِ دید۔‘‘

اسی اثنا میں بیڈ روم سے ملحق کمرے سے کراہنے کی آواز آئی۔ نادیہ نے فوراً اپنی بیٹی کو پانی کا گلاس دے کر بھیجا۔ میں نے عادت سے مجبور ہوکر پھر پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا معذور جیٹھ ہے جو کئی سال سے چارپائی پہ ہے اور اس کی ساری ذمہ داری نادیہ کے شوہر پر ہے، کیوں کہ والدین حیات نہیں اور کوئی دوسرا بھائی بھی نہیں ہے۔

میں نے ازراہِ ہمدردی پوچھا کہ تمھارے شوہر تو سارا دن نوکری پر ہوتے ہیں پھر ان کو کون سنبھالتا ہے؟ میں توقع کررہی تھی یہاں نادیہ ضرور گلہ شکوہ کرے گی، مگر وہ بڑے اطمینان سے بولی کہ اس کے شوہر رات نوکری سے واپسی پر دو تین گھنٹے اپنے بھائی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کی، ان کے بستر اور کمرے کی صفائی کرتے ہیں۔ سارا دن کی روداد سناتے ہیں، ملکی حالات پر گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ یوں رات گیارہ، بارہ بجے اپنے کمرے میں آتے ہیں۔

میں نے کریدتے ہوئے کہا کہ نادیہ تم تنگ نہیں آجاتیں؟
وہ ذرا سا مسکرائی اور کہنے لگی کہ مسائل کہاں نہیں ہوتے! انہیں ذہنوں پہ سوار کرکے اپنا سکون تو برباد نہیں کر نا چاہیے۔ جتنا کچھ میسر ہے اس کا شکر تو ادا ہوتا نہیں۔

وہ اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر میں اس کے چہرے کے اطمینان، دل کے سکون اور لفظوں کی مٹھاس میں کھو گئی تھی کہ مزید اس کو سن ہی نہ پائی۔

واپسی کا سارا رستہ یہی سوچتے گزر گیا کہ اصل دولت تو دل کا اطمینان ہے۔ یہ میسر ہو تو مسائل رب کی رضا لگنے لگتے ہیں اور جھونپڑیاں بھی محل دکھتی ہیں، اور گھر جنت نظیر بن جاتا ہے۔

حصہ