شرم و حیا اور جدت پسندی

397

آج کل اکثر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا ہے کہ جدت پسندی شرم و حیا کے لیے زہرِ قاتل ہے، یا شرم و حیا کوئی قدیم رویہ تھا اور جدید زمانے میں اس کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ کچھ الفاظ اپنے حقیقی معنوں کے بجائے رائج الوقت معانی کے حوالے سے مشہور ہوجاتے ہیں، جب ان الفاظ کو کسی خاص مقصد کے تحت مخصوص معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ایک اصطلاح بن جاتے ہیں جیسے ’’شرم و حیا‘‘۔ اس لفظ کو کثرتِ استعمال سے قدیم لباس، برقع اور چار دیواری کے ساتھ مخصوص کردیا گیا، حالانکہ شرم و حیا تو ایک رویہ ہے، ایک عبادت ہے جس کے لیے ہر مذہب میں ہی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ہمیں تو ہمارے نبی محمد مصطفیٰؐ نے بتایا کہ قدیم مذاہب میں بھی یہ بات موجود تھی کہ ’’اگر تجھ میں حیا نہ ہو تو جو جی چاہے کر۔‘‘ اور آپؐ نے یہ بھی بتایا کہ ’’اللہ سب سے زیادہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔‘‘ اور احادیث نے بتایا کہ ’’حیا ایمان کی شاخ ہے۔‘‘

ان تمام باتوں میں کوئی مفہوم بھی نیت اور اعمال صالحہ کے بغیر صرف لباس تک محدود نہیں، مگر پھر اسی رائج الوقت ’’اصطلاح‘‘ کے فلسفے نے اس کوظاہری حلیے تک محدود کردیا۔

دوسری طرف جدت پسندی کو بھی لباس اور طرزِ زندگی کے مظاہر کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے، جب کہ جدت پسندی بھی کاملیت کا سفر اور ایک رویہ ہے یعنی بہتری اور بھلائی کے طریقے اختیار کرنا جدت پسندی ہے جو کہ ایک مستحب رویہ ہے۔

جس طرح پرانے زمانے میں بھٹیوں میں بھالے، تلوار، زرہ بکتر ڈھالی جاتی تھیں، جدید زمانے میں ٹینک، توپ اور میزائل اسلحہ فیکٹریوں میں بنائے جاتے ہیں اور ان سے شرم و حیا کو فی نفسہٖ کوئی خطرہ نہیں، البتہ نقصان تو بلا جواز واشتعال امن پسند ممالک کے خلاف ان کے استعمال کرنے سے ہوتا ہے، اور یہی چیز بے شرمی و بے حیائی ہے۔ ثابت ہوا کہ شرم و حیا کے ساتھ جدت پسندی ایک صحت مند رویہ ہے جو دوسرے صحت مند رویوں اور ماحول کو جنم دیتا ہے۔

اس کی دوسری مثال لباس ہے، آج کل ساتر لباس اور برقع کو شرم و حیا کی علامت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ برقع اور حجاب کے اندر لپٹی ہوئی خواتین بھی اگر خدا کی شرم نہیں رکھتیں تو رویوں میں ضرورت سے زیادہ جری اور بے باک ہوجاتی ہیں۔

جدیدیت کا علَم بلند کرنے والے خواتین و حضرات بھی دو قسم کے ہیں، ایک تو روایتی تعلیمی اور مذہبی طریقوں کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو اور تلاش کے میدان کے شہسوار ہیں اور بحر علوم کے شناور بھی۔ وہ لوگ دین کی اصل شکل اور ترقی و تعلیم کے ذریعے اپنے معاشرے اور بنی نوع انسان کی زندگیوں کو جہالت اور اندھی تقلید کی تاریکیوں سے نکال کر دلیل اور تحقیق کی ضوفشاں کرنوں سے منور کرتے ہیں۔

دوسری قسم ان ترقی پسند مرد و زن کی ہے جو لباس اور انداز میں بے حیائی کو جدت پسندی کا نام دیتے ہیں اور تمام صحت مند روایات کی نفی کرتے ہیں، اور جو اپنے مذموم مقاصد یعنی فیشن انڈسٹریز کے فروغ کے لیے اور اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے جدیدیت کے نام پر معاشرے میں بے چینی پیدا کرتے ہیں اور ہر رشتے کو ایک دوسرے سے متصادم کردیتے ہیں۔ یہ جدت پسندی نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی تباہ کن دوڑ کی منصوبہ بندی ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا سفر نہیں ہے بلکہ پتھروں کے دور سے بھی پیچھے دھکیلنے کے اقدامات ہیں۔ یہ لوگ شرم و حیا کے دشمن ہیں، یہ خاندان کا ادارہ تباہ کرکے فرد کو تنہاکرنے کے جال بچھاتے ہیں جو شرم و حیا کا دشمن رویہ ہے۔

اگر ایمان داری سے دیکھا جائے تو آج شرم و حیا ہی اصل جدت پسندی ہے۔ جس طرح ساتر لباس، حجاب و برقع کی حمایت اور اختلاطِ مرد و زن کے خلاف نوجوان طلبہ صف آرا ہورہے ہیں اس نے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ باحیا معاشرہ ہی اصل جدت پسند معاشرہ ہے، اور خصوصاً پچھلے دنوں ہونے والے کرناٹک کے واقعے نے جس میں ایک برقع پوش لڑکی نے ہندو انتہا پسند غنڈوں کے سامنے دلیرانہ تکبیر کی صدا بلند کی ہے تو اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ساتر لباس اور انداز میں کھل کر حق کا اظہار حیا بہترین جدت پسندی ہے۔

حصہ