جمال اور کمال بہت زیادہ فکر مند نظر آ رہے تھے کیونکہ وہ بچی جس کا نام فاطمہ تھا اکثر گلی کے اور بچوں کے ہمراہ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور کبھی کبھی ان کے گھر بھی آ جایا کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ جمال اور کمال کے گھر والے بہت غم زدہ تھے اور اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ فاطمہ جلد بازیاب ہو جائے۔ آج کافی دنوں کے بعد جمال اور کمال کو کچھ وقت ملاتھا۔ گھر اور گھر سے باہر کی فضا سوگ وار تھی اس لیے دونوں نے گھر سے کچھ دور جاکر چہل قدمی کا پروگرام بنا لیا۔ گھر سے کوئی دو فرلانگ دور ایک چھوٹا سا میدان تھا جہاں بچے کھیل کود کیا کرتے تھے۔ دونوں وہاں جانے کے بعد میدان کا چکر لگا رہے تھے کہ انھوں نے میدان سے کچھ دور دومنزلہ عمارت کی جانب سے کچھ سفید کاغذوں کو ہوا میں اڑتے دیکھا۔ ہوا کیونکہ میدان ہی کی جانب آ رہی تھی اسے لیے وہ کاغذ میدان ہی کی جانب بڑھے چلے آ رہے تھے۔ کمال اور جمال نے بے خیالی میں ایک کاغذ اٹھا لیا۔ کاغذ اٹھانے کے بعد دونوں چونک سے گئے۔ وہ بالکل ہی کورے اور نئے تھے۔ گویا یہ کوڑا کرکٹ نہیں ہے۔ دونوں نے بیک وقت کہا۔ تو پھر ۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے انھوں نے تیز ہوا میں تین چار کاغذ اور بلند ہو کر میدان کی جانب لپکتے دیکھے۔ ان کو ایسا لگا جیسے یہ عمارت سے پھینکے گئے ہوں لیکن یہ عمارت نہ صرف کافی مخدوش تھی بلکہ عرصہ دراز سے خالی بھی تھی۔ انھوں نے وہ تمام کے تمام کاغذ اٹھا تو لیے لیکن وہ تو بالکل کورے تھے۔ ان پر کچھ بھی تو نہیں لکھا ہوا تھا۔ وہ گھر آکر سادہ کاغذوں پر غور ہی کر رہے تھے کہ اچانک جمال کے ہاتھ سے ایک کاغذ پنکھے کی ہوا کی زد میں آکر ایسا اڑا کہ واش روم میں جا پڑا۔ واش روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اس کا فرش بری طرح گیلا تھا۔ جیسے ہی کمال واش روم میں کاغذ اٹھانے کے لیے جھکا تو اس نے دیکھا کہ کاغذ پر کوئی تحریر ابھری ہوئی ہے۔ تحریر پر نظر پڑتے ہی وہ دیوانہ وار جمال کی جانب بڑھا اور نہایت بلند آواز میں پکارا کہ ’’جمال جلدی کرو اور میرے ساتھ فوراً تھانے چلو۔‘‘ جمال ابھی کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ کمال نے باہر کا راستہ ناپ لیا۔ اب کمال نہایت تیز رفتاری کے ساتھ آگے ہی آگے چلتا جا رہا تھا اور جمال اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ تھانہ بہت دور نہیں تھا۔ حیدر علی ان دونوں بچوں کو آتا دیکھ کر جیسے چونک سا گیا۔ کمال نے اشارے سے بتایا کہ ہم دونوں آپ سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ حیدر علی نے اہلکاروں کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ کمال نے کہا کہ ’’جتنی بھی جلدی ہو آپ فوراً فلاں جگہ پہنچیں۔ دیر ہو گئی تو شطرنج کی بساط الٹ بھی سکتی ہے۔‘‘ حیدر علی نے کہا کہ ’’کچھ بتاؤ بھی تو کمال نے کہا ہمارے پاس کچھ بتانے کا وقت نہیں۔‘‘ بس آپ پوری طرح لیس ہو کر پہنچیں۔ ’’ہم دونوں فوراً وہاں جا رہے ہیں تاکہ اگر مجرم وہاں سے کہیں اور جانے کی کوشش کریں تو ہم ان کا پیچھا کر سکیں۔‘‘ یہ کہہ کر جمال اور کمال تو بڑی عجلت میں وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اور دور ہی دور سے میدان میں کھڑے ہو کر عمارت کے صدر دروازے پر نظر جمائے رہے۔ اس دوران کوئی ہل چل نہیں دکھائی دی۔ اسی دوران انہوں نے انسپکٹر حیدر علی کی پولیس جیپ کو آتے دیکھ لیا۔ عمارت کو چاروں جانب سے پولیس نے گھیر لیا۔ اور اعلان کیا کہ ’’جو بھی ہو اس کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ پولیس کے حصار میں ہے۔ اگر اپنی زندگی بچانا چاہتا ہے تو فوراً عمارت سے باہر نکل آئے۔‘‘ اتنے میں عمارت کے پچھلی جانب کی سب سے اونچی اور واحد کھڑکی کھلی اور کسی لڑکی کی آواز آئی کہ ’’یہاں کوئی نہیں ہے اور کمرے کے باہر تالا لگا ہوا ہے۔‘‘ یہ سن کر سپاہی دوڑتا ہوا حیدر علی کے پاس آیا اور اس نے صورتِ حال بتائی تو فوراً ہی تمام پولیس والے دوڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ انسپکٹر حیدر ابھی کاروائی کا حکم دے کر جیپ میں بیٹھے ہی تھے کہ انھیں عمارت کی جانب ایک اور جیپ آتے دکھائی دی۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ پولیس کی جیپ کو دیکھ کر جیسے واپسی کے لیے تیزی سے موڑ کاٹ رہی ہو۔ حیدر علی کے ساتھ جو ایک اہلکار بیٹھا تھا، بہت تربیت یافتہ اور مشاق نشانے باز تھا۔ جیسے ہی آنے والی جیپ نے تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موڑ کاٹا ٹھیک اسی لمحے حیدر علی کے اہلکار نے ایک آگے اور ایک پیچھے کا ٹائر فائر کرکے پھاڑ دیا۔ جیپ ٹائروں کے پھٹتے ہی الٹ گئی۔ اس سے پہلے کہ مجرمان اس ناگہانی حملے کے بعد اپنی جیپ سے باہر نکلتے، حیدر علی اور ان کا اہلکار ان کے سروں پر پہنچ چکے تھے۔ فائرنگ کی آواز پر تمام پولیس والے بھی دوڑتے ہوئے باہر نکل آئے اور معاملہ سمجھنے کے بعد جیپ میں موجود چاروں مجرموں کو گرفتا کر لیا۔ اتنے میں ایک اہل کار جس بچی کو لیکر آیا وہ ان ہی کی گلی کی فاطمہ تھی جس نے بیان دیا کہ’’ اگر آپ کو ذرا بھی دیر ہوجاتی تو یہ لوگ مجھے پڑوس والے ملک میں لے جاتے۔ وہاں یہ کیا کرتے، اس بات کی مجھے خبر نہیں۔ میں نے کچھ دیر قبل عمارت کی کھڑکی سے جمال اور کمال کو دیکھ لیا تھا۔ دور ہونے کی وجہ سے مجھے شکلیں تو صاف نظر نہیں آ رہی تھیں لیکن ان کے چلنے کا انداز ان ہی دونوں کی طرح لگا۔ میں آواز اس لیے نہیں دینا چاہتی تھی کہ مجرموں کا کوئی ساتھی عمارت میں موجود نہ ہو۔ میں نے کھڑکی سے مدد مدد لکھ کر کچھ کاغذات پھینکے۔ ہوا کیونکہ میدان ہی کی جانب تھی اس لیے مجھے یقین تھا کہ ان دونوں کی نظر ضرور ان پر پڑے گی۔ میں نے ان دونوں کی ذہانت کے قصے سنے ہوئے تھے اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ نہ صرف معاملے کی سنگینی کو سمجھ جائیں گے بلکہ میری رہائی کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے۔‘‘
کارروائی کے اختتام پر حیدر علی نہایت خفیہ طریقے سے جمال اور کمال کے گھر پہنچے کیونکہ ان کی نظر میں ان کی حفاظت ہر صورت مقدم تھی۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انھوں نے بچوں سے کہا کہ ’’جن کاغذات کا ذکر مغویہ فاطمہ کر رہی تھی وہ مجھے بھی دکھاؤ تاکہ ان کو پولیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکے۔‘‘ کمال اندر کیا گیا اور جو پانچ کاغذات انھیں ہوا میں اڑتے ملے تھے وہ ایک لفافے میں بند کر کے انسپکٹر حیدر علی کے سامنے رکھ دیئے۔ حیدر علی نے لفافہ کھول کر کاغذات باہر نکالے، ان کو دونوں جانب سے بغیر کسی تحریر کے پایا تو کسی حد تک غصے میں آ گئے۔ کہنے لگے کہ ’’میں تم دونوں کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن ایسا مذاق پسند نہیں کرتا۔ اس میں تو کچھ بھی نہیں لکھا جبکہ فاطمہ کا بیان ہے اور جو پولیس کے ریکارڈ پر بھی موجود ہے کہ میں نے ان کاغذات پر مدد مدد لکھ کر ہوا کی نظر کئے تھے۔‘‘ کمال اور جمال نے مسکرا کر کہا کہ ’’ہم آپ سے کیوں مذاق کرنے لگے۔ یہ وہی کاغذات ہیں اور ان پر مدد مدد لکھا ہوا ہے۔‘‘ اس مرتبہ حیدر علی کو واقعی غصہ آ گیا۔ کہنے لگے کہ ’’کیا تم مجھے اندھا سمجھتے ہو۔ ‘‘اچانک جمال نے ایک کاغذ اٹھا کر قریب رکھی ہوئی میز پر رکھ دیا جس پر منصوبے کے مطابق پہلے ہی پانی ڈالا ہوا تھا۔ کاغذ جوں ہی گیلا ہوا، اس پر مدد مدد کی تحریر نمایاں ہو کر ابھر آئی۔ ’’یہ کیا؟‘‘ حیدر علی نے حیرت سے کہا۔ ’’جی ایسا ہی ہے۔ جب کوئی نیک کام کرنے کا عزم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ ہم بھی آپ کی طرح ان سادہ کاغذوں پر حیران تھے۔ گھر آکر سوچ ہی رہے تھے کہ ان کاغذات کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ پنکھے کی ہوا کی زد میں آکر ایک کاغذ واش روم کے گیلے فرش پر جا گرا اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس پر مدد مدد لکھا ہوا ہے۔ بس پھر یہ جان کر ہم نے لمحہ ضائع کئے بغیر آپ سے رجوع کیا اور شکر الحمد اللہ ہم نہ صرف فاطمہ تک پہنچ گئے بلکہ مجرمان بھی رنگے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور امید ہے کہ ان کی وجہ سے آپ دیگر مجرموں تک بھی ضرور رسائی حاصل کر لیں گے۔ اب رہی یہ بات کہ یہ تحریر کس کیمیکل سے لکھی گئی ہے، یہ بات فاطمہ ہی بہتر بتا سکتی ہے۔‘‘
فاطمہ نے پولیس کو ایک اور بیان ریکارڈ کروایا کہ کمرے سے ملحقہ ایک کچن بھی تھا اور وہاں تک میں آ جا سکتی تھی۔ وہاں پیاز بھی تھے۔ میں نے کبھی اپنے دادا سے سنا تھا کہ اگر پیاز سے کورے کاغذ پر کچھ لکھا جائے اور سوکھ جانے پر پانی میں کاغذ ڈالا جائے تو تحریر ابھر آتی ہے۔ میں نے پہلے تو خود تجربہ کیا اور کامیاب ہوجانے پر میں نے ایک درجن کاغذات ہوا کی نظر کر دیئے۔ یہ تو وہ بات تھی جو پولیس کے ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی لیکن اس سے آگے کا بیان جو کچھ یوں تھا کہ کمال اور جمال بھائیوں کے متعلق جو کچھ پورے محلے میں مشہور تھا، آج مجھے خوشی ہے کہ وہ دونوں واقعی اس قابل ہیں کہ ان کی جتنی بھی عزت کی جائے وہ کم ہے۔ مجھے یہ یقین تو نہیں تھا کہ وہ پیاز سے لکھی گئی تحریر کو ابھارنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وہ اس بات کا نوٹس ضرور لیں گے کہ برسوں سے خالی اور مخدوش عمارت کی جانب سے بالکل نئے اور کورے کاغذات کون پھینک رہا ہے۔ اگر انھوں نے کبھی مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنانا چاہا تو میں دل و جان سے قبول کر لوں گی۔