سیلیک ڈیزیز‘(گندم سے الرجی)

سیلیک ڈیزیز‘ جسے گلوٹن سینسیٹو (Gluten Sensitive) اور عرف عام میں گندم سے الرجی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک شدید مرض ہے جس میں آنتوں میں الرجی ہوجانے سے سوزش واقع ہو جاتی ہے اور غذا جذب نہیں ہو پاتی۔ عام طور پر یہ مرض ان افراد کو لاحق ہوتا ہے جو گلوٹن یعنی گندم‘ جوار‘ جو‘ دلیے کی پروٹین برداشت نہیں کر پاتے۔ دراصل خوراک میں گلوٹن کی موجودگی کے نتیجے میں انہضام کی نالی میں الرجی ظاہر ہوتی ہے جو بعدازاں آنت کی جھلی کو الرجک کرکے مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ مرض دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مغرب میں تقریباً ایک فیصد آبادی اس سے متاثر ہے‘ مگر ہمارے یہاں مرض سے متعلق معلومات کا اس قدر فقدان ہے کہ بیش تر مریض علامات ظاہر ہونے پر اسے آنتوں کی کوئی بیماری یا آنتوں کا انفکشن سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تاحال مریضوں کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں ہوسکے۔ عمومی طور پر یہ مرض آٹھ سے بارہ ماہ یا اس سے زائد عمر کے بچوں میں پایا جاتا ہے البتہ زیادہ تر کیسز میں علامات 40 سے 50 سال کی عمر تک ظاہر ہوتی ہیں۔

سیلیک ڈیزیز کی علامات کو دو حصوںمیں منقسم کیا گیا ہے۔ یعنی معدہ اور اضافی آنتیں۔ معدے کی علامات میں سب سے عام ڈائریا ہے کہ قریباً 50 سے 80 فی صد مریض اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈائریا میں جسم سے خارج ہونے والا مواد پانی جیسا پتلا اور کم انجذاب کی وجہ سے چکنا بھی ہو سکتاس ہے اس کے علاوہ معدے میں درد‘ پیٹ پھولنے اور مروڑ جیس علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔ نیز 50 فیصد مریضوں کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ شیرخوار بچوں کی نشوونما کی صلاحیتیں متاثر ہو جاتی ہیں۔ جسم کے دیگر حصوں کی بھی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کم انجذاب کی وجہ سے خون کی کمی‘ آسٹیوملییا‘ آسٹیو پوروسس‘ قے‘ کمزوری کی کیفیت‘ بے ہوشی طاری ہونا‘ جِلدی بیماریاں‘ تھکاوٹ‘ منہ کے چھالے‘ زخم‘ بانجھ پن اور ماہ واری میں بے قاعدگی وغیرہ۔ دیکھا گیا ہے کہ مرض کی حتمی تشخیص سے قبل ہی مریض کو گلوٹن فری غذا کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے حالانکہ اے سی۔ جی گائیڈ لائنز کے مطابق مرجیض کو گلوٹن فری غذا دینے سے قبل ٹیسٹ کروانا بہتر ہے۔ عام طور پر مرض کی تشخیص کے لیے جینیٹن ٹیسٹنگ (ڈی این اے) کی تجویز کی جاتی ہے جس کی سہولت پاکستان میں بھی دستیاب ہے اس کے علاوہ معمول کے بلڈ ٹیسٹس مثلا سی بی سی‘ الیکٹرو لائٹس (Electrolyte) اور سیرم کیلشیم فاسفیٹ وغیرہ بھی کروائے جاسکتے ہیں۔

چونکہ یہ ایک موروثی بیماری ہے تو اگر گھر کا کوئی فرد بھی اس میں مبتلا ہو جائے تو دیگر افراد میں سی لیک ڈیزیز سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لہٰذا حفظِ ماتقدم کے طور پر اہل خانہ بھی اپنا ٹیسٹ کروا لیں تاکہ بروقت تشخیص صحت کی ضامن بن سکے۔ ایچ ایل اے ڈی کیوٹو (HLADQ-2) اور ایچ اے ڈی کیو ایٹ (HADQ-8) کی تشخیص کے لیے بھی جینٹک ٹیسٹنگ ناگزیر ہے کیوں کہ یہ 95 فیصد مریضوں میں مثبت ہوتے ہیں اس کے علاوہ بعض کیسز میں گیسٹرو اسکوپی اور 6 ڈیوڈ نیم کی بائیوآپسی بھی کی جاتی ہے۔ علاج کے ضمن میں تاحال کوئی دوا دریافت نہیں ہوسکی لہٰذا اس مرض کا واحد علاج تاحیات گلوٹن والی غذائوں سے پرہیز ہے۔ مریض صرف وہی غذائیں استعمال کر سکتے ہیں جن میں گلوٹن شامل نہ ہو یعنی مکمل طور پر گلوٹن والی غذا‘ رائی‘ گندم اور جو کے استعمال سے اجتناب برتنا ہے۔ ایسے مریضوں کی اکثریت میں‘ جو گلوٹن فری غذا پر انحصار نہیں کرتے ہیں‘ ڈائریا یا خون اور وزن کی کمی کی شکایت عام ہوتی ہے۔ سیلیک ڈیزیز کی علامات کم کرنے کے ضمن میں ماہر اغذایہ کا کردار بہت اہم گردانا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے یہاں گلوٹن فری ڈائٹ کا استعمال اتنا آسان اس لیے نہیں کہ گلوٹن فری گندم اور دیگر اشیا مہنگی ہے اور باآسانی دستیاب بھی نہیں۔ واضح رہے وہ تمام مریض جو اپنے معالج کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں اور کسی صورت پرہیز ختم نہیں کرتے‘ ان کی صحت بہتر رہتی ہے‘ بصورت دیگر پرہیز نہ کرنے یا علاج نہ کروانے کی صورت میں مریض کے جسم میں خون کی شدید کمی (اینیمیا) واقع ہو سکتی ہے۔ غذائیت کی کمی‘ نشوونما میں رکاوٹ بن جاتی ہے جب کہ بچوں میں خون خارج ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نیز چھوٹی ہڈیوں کا لمفوما اور غدود کا سرطان بھی لاحق ہوسکتا ہے۔