ستائشی تبصروں کو تنقید کا متبادل سمجھا جانے لگا ہےجو کہ سراسر غلط ہے،اردو ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے،فیس بک نے پرنٹ میڈیا کو ڈسٹرب کیا ہے،معروف شاعر ،صحافی اور ادیب خالد معین سے جسارت میگزین کی گفتگو
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادب کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
خالد معین: ترقی پسند تحریک نے اپنے آغاز ہی سے اردو شعر و ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے‘ شاعری ہو‘ فکشن ہو‘ تنقید ہو یا تعمیری ادبی سرگرمیاں ترقی پسند تحریک نے ہم عصر ادب کی تخلیقی حدود میں بے پناہ وسعت پیدا کی۔ نئے زاویوں‘ نئے پیرائے اظہار‘ نئی سمت نمائی‘ نئی تخلیقی توانائی اور نئے امکانات کی راہ دکھائی تاہم جدیدیت کے تازہ تر امکانات‘ جدید پیرائے اظہار‘ عالمی ادب کے زیر اثر نئی تخلیقی تازگی‘ نئے ڈکشن کی تلاش اور جدید انسان کے جذباتی‘ نفسیاتی اور سماجی دروبست کی چہرہ نمائی بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔
جسارت میگزین: ادب اور شوبزنس کے درمیان حدِ فاضل تیزی سے ختم ہو رہی ہے‘ اس پر کیا کہیں گے؟
خالد معین: کچھ لکھنے والوں نے سوشل میڈیا کی وقتی چکا چوند کو حقیقت جان لیا اور اس رو میں بہنے لگے۔ وقتی شہرت اور شہرت کے لیے کیا مرد‘ کیا خواتین سب ہی بھاگ رہے ہیں۔ مشاعروںکے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ کیا ملک اور کیا بیرون ملک‘ اسی طرح الٹی سیدھی کتابوں کے انبار لگ رہے ہیں‘ تعارفی تقریبات اور جشن منائے جا رہے ہیں‘ جعلی اور بے قامت لوگوں کو سر پر بیٹھایا جا رہا ہے۔ یہ بڑا بدنما منظر ہے اور واقعی ادب کو شوبزنس سمجھ لیا گیا ہے۔
جسارت میگزین: تو کیا شعر و ادب کا مستقبل تاریک اور مایوس کن ہے؟
خالد معین: اب ایسی بھی مایوسی کی بات نہیں۔ لاہور‘ کراچی‘ فیصل آباد‘ بہاولپور‘ ملتان‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ حیدرآباد اور مجموعی بڑے ادبی مراکز کے علاوہ مضافات میں بھی ایک دو نسلیں سامنے آچکی ہیں جو اپنی پوری تخلیقی توانائی سے شعر و ادب سے جڑی ہوئی ہیں۔ مقصود وفا‘ قمر رضا شہزاد‘ جاوید صبا‘ احمد نوید‘ افضل گوہر رائو‘ عتیق احمد جیلانی‘ شاہین عباس اور اجمل سراج سمیت اس صف میں حمیدہ شاہین‘ فریحہ نقوی اور حنا امبرین طارق جیسی اور بھی تازہ کار شاعرت شامل ہیں۔ اسی طرح فکشن میں زیب اذکار حسین‘ ارشد جاوید رضوی‘ اختر رضا سلیمی‘ رفاقت حیات اور سید کاشف رضا سمیت کئی تازہ کار لکھنے والے موجود ہیں۔ سینئرز کی طرح نئے شاعر اور ادیب اپنی اپنی انفرادیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور شعر و ادب کا مستقبل تاریک اور مایوس کن ہرگز نہیں ہے۔
جسارت میگزین: ناول ’’وفور‘‘ لکھنے کا خیال کب اور کیسے آیا؟
خالد معین: ’’وفور‘‘ سے پہلے فکشن کی ایک اور کتاب ’’اب سب دیکھیں گے‘‘ لکھ چکا تھا جس میں آٹھ طبع زاد ڈرامے موجود ہیں۔ مطلب فکشن کی جانب پیش قدمی تو ہو چکی تھی۔ اسی طرح نثر کی دو مزید کتابیں بھی شائع ہوئیں۔
جسارت میگزین: ’’وفور‘‘ کا مرکزی خیال کیا ہے اور اس کا اتنا چرچا کیوں ہے؟
خالد معین: ’’وفور‘‘ کا مرکزی خیال تو سوشل میڈیا اور کورونا کے گرد گھومتا ہے اور اس کے دونوں مرکزی کردار لکھاری ہیں یعنی علی جمال اور نبیلہ جہاں افسانہ نگار ہیں‘ نبیلہ جہاں کا قیام امریکا کی سٹی شکاگو میں ہے جب کہ علی جمال کراچی میں مقیم ہے اور فیس بک کے ذریعے دونوں کی دوستی ہوتی ہے جو آگے چل کر کورونا کے وحشت ناک ماحول میں اپنی اپنی تنہائی کی کرب ناکی کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف زندگی کی چاہت ہے دوسری طرف موت کا آسیب رقصاں ہے۔
جسارت میگزین: کیا ’’وفور‘‘ میں صرف اتنا ہی ہے؟
خالد معین: یہ تو ہم نے اجمالی طور پر ایک مختصر سا خاکہ بیان کیا ہے تاہم وفور میں اور بہت کچھ ہے۔ کراچی کے سیاسی اور سماجی حالات بھی اس میں علامتی طور پر بیان کیے گئے ہیں‘ اس میں مکالمات ہیں‘ خودکشی اور خودکشی کے بعد کے نفسیاتی مسائل ہیں‘ قربتیں بھی ہیں اور قربتوں کے بعد ایک احساسِ ندامت کے رنگ بھی ہیں۔ ناول کی پوری بُنت‘ کردار‘ بنیادی سانچہ بھی ہے اور بین السطور بھی بہت کچھ ہے۔ ایک عشق ہے جو اپنے وفور کی انتہا پر ہے۔ باقی چیزیں قارئین خود ناول پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔
جسارت میگزین: اب کچھ وفور سے آگے کی بات کرتے ہیں‘ اس بیچ شاعر خالد معین کیا کہتے ہیں؟
خالد معین: شاعری ہمارا پہلا عشق ہے اور نثری کاشیں‘ کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے والا معاملہ ہے۔ شاعری اپنی جگہ چل رہی ہے ار مسلسل شعر ہو رہے ہیں جو ہم اپنے فیس بک پیچ پر لگاتے بھی رہتے ہیں‘ مشاعروں میں بھی آنا جانا رہتا ہے۔ اصل میں کوئی بھی تخلیق اپنی فرم خود لے کر آتی ہے‘ چاہے غزل ہو‘ چاہے نظم ہو یا پھر نثری تخلیقات ہوں۔
جسارت میگزین: شاعری کے مقابلے میں نثر لکھنا بہت دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں جم کر کام کرنا پڑتا ہے اور شاید اسی لیے نوجوان نسل اس طرف کم آتی ہے؟
خالد معین: بالکل! شاعری کی مشق شاعر کے لیے آسانی فراہم کردیتی ہے خاص طور پر غزل میں کہ آپ چلتے پھرتے‘ ادھر کے کام کرتے ہوئے بھی اپنی غزل کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ البتہ نظم کے لیے کسی حد تک جم کر کام کرنا پڑتا ہے تاہم نثری تخلیقات کے لیے باقاعدہ ذہن کو مرتب کرنا پڑتا ہے اور طویل عرصے تک اس میں لگنا بھی پڑتا ہے تب جا کر کوئی شکل بنتی ہے۔ نوجوان نسل ہی کیا خود ہماری نسل میں بھی کم کم لوگ نثر کی طرف آئے ہیں اور اسی لیے اس میں زیادہ خلا آتا جا رہا ہے۔
جسارت میگزین: کیا آپ تنقید کی موجودہ صورت حال سے مطمئن ہیں؟
خالد معین: جی نہیں بالکل بھی نہیں۔ شاعری میں تو بہت کام ہو رہا ہے تاہمِ تنقید کا حال بڑا پتلا ہے اور اب تبصروں کو اور ستائشی تبصروں کو تنقید کا متبادل سمجھا جانے لگا ہے جو سراسر غلط ہے۔ تنقید کا منصب تبصروں سے بہت بلند ہے اور 80 کی دہائی کے بعد سے سنجیدہ تنقید بہت کم لکھی گئی ہے۔ سحر انصاری اور کسی حد تک جاذب قریشی کے بعد یہ خانہ کم سے کم کراچی میں خالی محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر آصف فرخی ویسے تو ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور تنقید کے حوالے سے ان کی بڑی اہمیت تھی تاہم ان کی بے وقت موت نے یہ خلا مزید بڑھا دیا ہے۔
جسارت میگزین: سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی معاملات کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ’’ادب و فنون نامہ‘‘ میں اٹھائے جانے والے مصنوعات پر کیا کہیں گے؟
خالد معین: سوشل میڈیا میں ’’سب چلتا ہے‘‘ کے مصداق واقعی سب کچھ چل رہا ہے۔ کہیں کچھ چل رہا ہے‘ کہیں کچھ اچھا اور بہت اچھا ہے‘ کچھ ادب کی بہت اہم شخصیات پوری دنیا سے اس میں موجود ہیں اور انہی کی وجہ سے سوشل میڈیا کا وقار اور اہمیت مسلم کہی جاسکتی ہے باقی یہاں شوقین مزاجوں کا ہجوم ہے تاہم نوجوان نسل اسی بہانے شعر و ادب سے کسی حد تک جڑی ہوئی ہے جو خوش آئند بات ہے۔ جہاں تک ’اب و فنون نامہ‘‘ کا معاملہ ہے یہ کمرشل ہرگز نہیں اور اسی لیے اس پر بات کرنے کی پوری آزادی بھی ہے جو ہم کرتے بھی ہیں‘ کچھ لوگ اس نوع کی آزادانہ گفتار کو پسند نہیں کرتے اور جب کہیں کہیں کسی مسئلے کی نشان دہی کی جاتی تو اسے اپنے خلاف سمجھ لیتے ہیں جب کہ اس پروگرام کے کمنٹس میں سب کو اپنی رائے دینے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ یہ بھی ہم عصر شعر ادب پر اظہار خیال کا ایک ذریعہ ہے اور اس میں تمام فنون لطیفہ پر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم شعر و ادب کا حصہ یقینا زیادہ ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: موجودہ دور کے منعقد ہونے والے مشاعروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں‘ خاص طور پر تقدیم و تاخیر اور شاعروں اور متشاعروں کے ضمن میں کیا کہیں گے؟
خالد معین: ڈاکٹر صاحب ایک ہی سانس میں اتنے گمبھیر سوال۔ مشاعرے اچھے بھی ہو رہے ہیں اور برے بھی۔ کراچی بڑا شہر ہے اور مختلف ادبی تنظیمیں اپنے اپنے مزاج کے مطابق مشاعرے یا شعری نشستیں منعقد کرتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی دن کئی کئی شعری نشستیں یہاں ہوتی ہیں۔ اب شاعر کا کام ہے کہ وہ کس معیار کی شعری نشست میں شرکت کا فیصلہ کرتا ہے تاہم بری شعری نشستیں زیادہ ہو رہی ہیں جن سے کراچی کی ادبی فضا پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ البتہ بڑے ثقافتی ادارے جیسے آرٹس کونسل اور کراچی پریس کلب کی ادبی تقریبات اور مشاعرے اپنا ایک خاص معیار رکھتے ہیں‘ اسی طرح اور بھی کچھ ادارے اور تنظیمیں بھی اس کا خیال رکھتی ہیں جہاں تک تقدیم و تاخیر کا مسئلہ ہے یہ ناقابل حل مسئلہ ہے کیوں کہ ہر شاعر اور شاعرہ خود کو شہر کا سب سے سینئر اور اہم لکھنے والا تصور کرتا ہے اور سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صاحبِ صدر کے بعد اپنا کلام سنائے۔ اسی طرح شعرا کے اوریجنل ہونے کا معاملہ ہے۔ دیکھیں جب کوئی شاعر یا شاعرہ اپنے چند شعر ڈائس پر پڑھتاہے تو وہ بتا دیتا ہے کہ کلام اس کا اپنا ہے یا وہ کلامِ غیر کے مزے لے رہاہے۔ پھر صرف وزن پورا کرنا اور کچھ بھی الٹا سیدھا لکھنے کا نام شاعری نہیں‘ شاعری ایک الگ معاملہ ہے‘ یہ زندگی بھر کا سودا ہے اور زندگی بھر کا جنون ہے‘ باقی چیزیں مزے کے لیے سو مزا ضرور لیں مگر اس پر کوئی کلیم کرنا ایک خاصا سنجیدہ معاملہ ہے۔