میری مرضی

294

’’ذرا یہ فرائز تو ادھر دو… بڑے مزے کا فلیور ڈالا ہے آج کینٹین والے انکل نے…کون سا ہے؟‘‘سدرہ نے بنائے پوسٹر ایک طرف کرتے ہوئے فرائز کی طرف ہاتھ بڑھائے تو علیزہ نے گھورتے ہوئے ڈبے کا رخ اُس کی طرف کیا، گویا احسان کردیا ہو۔
یونیورسٹی میں آج خاصی گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ سدرہ نے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے فٹافٹ فرائز سے بھرپور انصاف کرنا شروع کردیا، ساتھ ساتھ فرائز کی تعریف بھی جاری تھی۔
’’اچھا بس کردو فرائز کی شان میں قصیدے پڑھنا۔‘‘ علیزہ نے کہا۔
’’امممم! پھر کیا پڑھوں؟ رابنز کی تھیوری؟‘‘ سدرہ نے منہ چلاتے ہوئے کہا تو دونوں ہنس پڑیں۔
’’ اچھا یہ بتاؤ عینا آپی کیسی ہیں؟‘‘ علیزہ نے سدرہ کی بہن کے بارے میں پوچھا جن کی شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔
’’عینا آپی! مزے میں ہیں ماشاء اللہ، یوں سمجھو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ان کی۔‘‘
’’ایک تو تمہاری ہر بات کھانے سے شروع ہوتی ہے سدرہ کی بچی۔‘‘
’’ارے بھئی میرا مطلب ہے بہت خوش ہیں الحمدللہ… اور احمر بھائی بہت ہی اچھے ہیں۔ تمہیں پتا ہے جب وہ آتے ہیں نا ہماری طرف تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے آپی کے لیے دروازہ کھولتے ہیں، اور آپی کسی شہزادی کی طرح تشریف رکھتی ہیں۔ آپی سے جوس پورا نہیں پیا جاتا تو آپی کا باقی جوس وہ ختم کرتے ہیں، آپی کو پنک کلر پسند ہے، کھانے میں چائنیز اچھا لگتا ہے، امجد اسلام امجد کی شاعری پسند ہے، یہ سب انہیں ایک ماہ میں ہی پتا چل گیا۔‘‘
’’واہ‘‘! علیزے نے کہا۔
’’اور آ پی کا تو نہ ہی پوچھو۔‘‘ سدرہ نے مزید تفصیلات بتائیں۔ ’’اتنا بدل گئی ہیں وہ، سوچو ذرا! جو لڑکی ٹھنڈا کھانا کھا لینے اور اپنی چیزیں سنبھال کر نہ رکھنے پر امی کی ڈانٹ کھاتی تھی، آج میاں جی کے موزے سنبھال کر رکھتی ہے، ان کے لیے روز مزے مزے کے کھانے بناتی ہے، اور اب تو انہوں نے باقاعدہ نقاب لینا بھی شروع کردیا ہے جبکہ پہلے اسکارف اوڑھنے سے بھی گرمی لگتی تھی۔‘‘ سدرہ نے مزے سے بتایا۔
’’بہت خوب! یہی تو باحیا لڑکیوں کی خاص بات ہے کہ وہ بہت محتاط ہوتی ہیں، مگر نکاح کے بندھن میں بندھتے ہی ایک اجنبی اُن کے لیے بہت خاص ہوجاتا ہے۔‘‘ علیزہ نے خالص بزرگانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یہی امی کہتی ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ کاش مجھے بھی ایسا ہی ہم سفر ملے۔‘‘ سدرہ نے کہا تو علیزہ نے دعائیہ انداز میں ہاتھ میں ہاتھ اٹھاکر پُر زور انداز میں ’’آمین‘‘ کہا۔
’’اوہو… کون سی دعائیں کی جارہی ہیں؟‘‘ قریب سے گزرتی نور نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں، بس یہ سدرہ اپنے مستقبل کے شوہر کے لیے دعا کروا رہی تھی۔‘‘ علیزے ہنس کر بولی۔
’’وہاٹ؟ کیا کہا تم نے؟‘‘ نور نے بے یقینی سے پوچھا۔
’’ہائیں…! ایسا کیا کہا میں نے؟‘‘ علیزہ بولی۔
’’ تم، یعنی آج کے دور کی لڑکی، ہونے والے شوہر کے لیے دعا کررہی ہے، افسوس۔‘‘
نور نے ایک ادا سے ماتھے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے سدرہ کی طرف اشارہ کیا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا نور؟’’ سدرہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ…اوہ مائی گاڈ۔‘‘
’’ڈونٹ ٹیل می کہ تم اکنامکس میں ماسٹرز کرنے کے بعد اپنا فیوچر بنانے کے بجائے ہسبینڈ کے لیے کھانا گرم کرو گی اور اس کا حکم مانوگی!‘‘ نور نے ناقابل یقین انداز میں سر پہ ہاتھ رکھا۔
’’ہاں تو اس میں ایسا کیا ہے؟‘‘ سدرہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ نور اتنا پریشان کیوں ہوگئی!
’’ایکچوئلی…ایسا ہے کہ مجھے تو مردوں کی غلامی کا سوچ کر ہی غصہ آتا ہے… یہ کرو، وہ نہ کرو… یہ نہ پہنو… وہاں نہ جاؤ…‘‘
’’ارے تو وہ ہمارے بھلے کے لیے ہی کہتے ہیں نا۔‘‘
’’نہیں بھئی ! یہ کون سی بھلائی ہے کہ اچھی بھلی لڑکی کو ٹینٹ میں لپیٹ دو۔‘‘ نور نے سدرہ کے عبایا پر طنز کرتے ہوئے کہا۔
’’جانے دو…‘‘سدرہ نے جواب دینے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ علیزہ نے کہا، اور اپنی چیزیں سمیٹنا شروع کردیں۔
’’کیا ہوا؟ خاموش اسی لیے ہوگئیں نا کہ تمہارے فادر یا پھر…بھائی، انہوں نے کہا ہوگا نا یہ عبایا پہننے کے لیے… چچ چچ! اتنی قید کافی نہیں ہے جو شوہر کو بھی برداشت کرو گی تم!‘‘ نور نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نور! یہ کیا بولے جا رہی ہو تم؟‘‘ سدرہ کا ضبط ٹوٹا۔
’’پابندی… شوہر، بھائی… یہ تو میرے محرم رشتے ہیں اور عبایا میری حیا کا تقاضا ہے۔‘‘ سدرہ نے غصے سے سرخ ہوتے چہرے مگر نرم آواز میں کہا۔
’’اوہو میڈم! یہ اکیسویں صدی ہے۔ تم ہو کہاں؟ مجھے کہیں جانا ہو تو بس جینز، شرٹ اور جوگرز پہنتی ہوں اور ریڈی… اور میں بھائی کا ویٹ بھی نہیں کرتی، کیوں کہ میں ٹائر خود بدل سکتی ہوں۔‘‘ نور نے سدرہ پر پھر سے طنز کیا۔
’’بس نور!‘‘ علیزہ نے کہا۔ ’’ تمہیں اگر حیا کے فطری تقاضوں سے آزادی چاہیے تو ضروری نہیں کہ سب کی سوچ ایسی ہو۔ جاؤ جی لو اپنی زندگی، مگر یاد رکھنا جس وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہیں وہ وجود، مرد کی پسلی کا ایک ٹکڑا ہے۔ دل کے بہت قریب… اور رب جانتا ہے شاید پسلی کو بنایا ہی اس لیے گیا ہو کہ اسی سے مرد و عورت کی تکمیل ہونی تھی۔‘‘ علیزہ نے کہا۔
’’نور! تمہیں پتا ہے ’’در مکنون‘‘ کسے کہتے ہیں؟‘‘ سدرہ نے اچانک پوچھا تو پوزیشن ہولڈر نور ایک لمحے کے لیے سٹپٹا گئی۔
’’سیپ میں چھپا موتی در مکنون کہلاتا ہے نور! اور ہر باحیا، باپردہ لڑکی درمکنون ہوتی ہے۔‘‘ سدرہ کے سوال کا جواب علیزہ نے دیا۔
’’مگر یہ سب تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں یار!‘‘ نور کا جوش اب قدرے بیٹھ چکا تھا۔
’’تمہیں ایک بات بتاؤں نور! میرے گھر میں میری ماں چادر میں لپٹے وجود کے ساتھ ہم سب کے لیے رول ماڈل ہیں۔ میری گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر بھابھی، حجاب میں بھیا کے ساتھ اسپتال جاتی ہیں۔ ماریہ کے داخلے پر بھیا نے اُسے نفیس سا عبایا لاکر دیا، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ موتی سیپ میں رہتا ہے تو اس کی قدر ہی اور ہوتی ہے۔ جب بازار میں پیش کیا جاتا ہے تو سینکڑوں خریدار بولی لگانے پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ سدرہ نے نور کے ہاتھوں میں موجود گفٹ بیگز کی طرف دیکھا۔
یک دم نور کو لگا کہ وہ شاید بازار میں رکھا ہوا وہ شو پیس ہے جس کی بات سدرہ کررہی ہے۔
’’ایک بات اور… ہم صنفِ نازک صنفِ آہن بھی ہیں مگر اُن کے لیے جو ہماری طرف نگاہِ غلط ڈالیں، ہم ان کی آنکھیں بھی نوچ سکتی ہیں اور ہاتھ بھی کاٹ سکتی ہیں، مگر ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارے محرم ہمارے لیے اللہ کے بھیجے ہوئے نگہبان ہیں… ہمارا فخر ہمارا مان ہیں۔‘‘ سدرہ نے عقیدت سے کہا۔
’’باقی تم جانو تمہاری سوچ، تم نے سنا تو ہوگا…‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔
’’رک کیوں گئیں؟‘‘نور نے مدھم لہجے میں پوچھا۔
’’کچھ نہیں ، جو جی چاہے کرو‘‘۔ سدرہ نے مبہم لہجے میں کہا۔
’’میں جارہی ہوں، یاسر آگیا ہے مجھے لینے۔ وہ کیا ہے کہ اگر مجھے گھر پہنچنے میں دیر ہوجائے تو بابا جانی باہر سڑک پر ہی یاسر کی کلاس لینے پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
’’اوکے! پھر ملتے ہیں کل …کل حیا ڈے ہے نا‘‘۔ سدرہ نے پوسٹر سامنے کیا جس پہ جلی حروف میں حدیثِ نبویؐ کا مفہوم تحریر تھا ’’جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چاہے کرو۔‘‘

حصہ