’’بی بی جی! اللہ کے نام پر دے دو…سدا سکھی رہو۔ بچی کا صدقہ دے دو۔‘‘
فقیرنی کی آواز ناہید کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ سانولی رنگت، تیکھے نقوش، پتلی دبلی خاتون اپنی میلی چادر کو ایسے لپیٹے ہوئے تھی جیسے یہی اس کی کُل متاع ہو۔ ہر گاڑی والے کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کا روز کا معمول تھا۔
ناہید اپنی چار سالہ بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتی تھی۔ اسکول چھوڑتے ہوئے ایک چورنگی آتی جہاں روز یہی فقیرنی بھیک مانگتی نظرآتی، اُس کے ساتھ اُس کی دس سالہ بیٹی بھی ہوتی جس کو وہ بار بار تنبیہی نظروں سے دیکھتی۔ ناہید روز اسے کچھ نہ کچھ دے جاتی اس لیے وہ فقیرنی، ناہید کو پہچاننے لگی تھی۔ جیسے ہی ناہید کی گاڑی دیکھتی فوراً لپکتی اور اپنی دس سالہ بیٹی کو بھی آوازیں دیتی ’’دیکھ باجی آگئی‘‘۔
ناہید نرم مزاج اور کھلے دل کی مالک تھی۔ آئے دن کسی نہ کسی کی مدد کرنا اس کے مزاج کا حصہ تھا۔ ناہید اس فقیرنی کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے لیے اُس سے بات چیت کرنا ضروری تھا۔ ایک دن ناہید کی بیٹی اسمارہ کی پارٹی تھی۔ اس دن جلدی جاکر اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
معمول کے مطابق فقیرنی ناہید کی گاڑی دیکھ کر لپکی۔ ’’باجی اللہ کے نام پر دیتی جا‘‘۔
’’اچھا !ٹھیرو، میں گاڑی ایک طرف لگا دوں۔‘‘ ناہید نے گاڑی ریورس کرکے کونے میں کھڑی کردی اور خود اتر کر فقیرنی کے پاس گئی۔ فقیرنی بھی حیران نظروں سے ناہید کو دیکھ رہی تھی کہ نہ جانے کیا بات ہے؟
ناہید نے اس کے تاثرات بھانپتے ہوئے کہا ’’گھبراؤ نہیں…! بس تم سے تھوڑی بات کرنا چاہتی ہوں۔ تم اپنے بارے میں بتاؤ، تمہارا نام کیا ہے؟ کہاں رہتی ہوں؟ بھیک کیوں مانگتی ہو؟‘‘ ناہید نے ایک سانس میں تمام سوالات کر ڈالے۔
’’بی بی جی آپ یہ سب پوچھ کر کیا کریں گی! ہماری تو گزربسر اس بھیک پر ہی ہوتی ہے، مجبوری ہے… شوہر کو نشے کے لت لگ گئی تھی، اس کی وجہ سے اس کے پھیپھڑے ناکارہ ہوگئے اور فوت ہوگیا۔‘‘
’’اچھا…! بہت افسوس ہوا۔ نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
’’ہمارا کیا نام؟جو جس نام سے بلا لے وہی نام بن جاتا ہے۔ اماں کو لطیفن پکارتے سنا تھا۔ میری یہ بیٹی ہے، اس کو کلثوم بولتی ہوں، بس اس کے لیے زندہ ہوں۔ اس کی فکر رہتی ہے۔‘‘
’’تمھارے رشتے دار؟‘‘ ناہید نے پوچھا۔
’’جی، سب غلط کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اس سے پیسے اچھے ملتے ہیں۔ وہ لوگ چاہتے ہیں میں بھی وہ کام کروں۔ میں نہیں مانی تو انہوں نے میرے ساتھ رابطہ رکھنا چھوڑ دیا۔ ہماری جھگی کی عورتیں رات کو سڑک پر کھڑی ہوجاتی ہیں… پھر کسی بڑی سی گاڑی والے کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ واپسی میں اپنے ساتھ بڑے نوٹ لاتی ہیں… اور دوسروں کو دکھا کر اتراتی ہیں۔ مجھے یہ کام پسند نہیں۔ میں اپنی بیٹی کو بھی اس کام سے بچانا چاہتی ہوں۔‘‘ لطیفن کا درد اس کی آنکھوں سے صاف واضح ہورہا تھا۔
’’تمھاری سوچ بہت اچھی ہے۔ تم نے اپنی عزت کا سودا نہیں کیا… جو عورتیں یہ کام کرتی ہیں کیا اُن کے مرد نہیں جو اُن کا سہارا بن سکیں؟‘‘ ناہید نے پریشان لہجے میں پوچھا۔
’’بی بی جی! ان کے مرد خود اس کام کے لیے بھیجتے ہیں۔ کوئی نشہ کرتا ہے، کسی کا کام نہیں چلتا، کوئی ناکارہ بن جاتا ہے۔‘‘ لطیفن نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔
ناہید یہ سن کر سوچ رہی تھی کہ کیا ہمارے مرد بے غیرت ہوچکے ہیں یا عورتیں بے حیا ہوچکی ہیں؟ ایک عورت کیسے اپنی عزت کا سودا کرسکتی ہے؟ اب تو یہ ایک پیشہ بن چکا ہے۔
’’تم کوئی کام کرسکتی ہو؟ اگر تمہیں کوئی ہنر سکھائوں تو کام کروں گی؟‘‘ ناہید نے لطیفن سے پوچھا۔
’’جی بی بی! عزت سے کھانا ہر کوئی چاہتا ہے۔ آپ کی حیاتی لمبی ہو! میری بیٹی کو بھی ہنر سکھا دیں۔‘‘ لطیفن نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میرے شوہر کا چھوٹا سا کارخانہ ہے، وہاں تمھاری جیسی کئی خواتین کام کرتی ہیں، میں بھی کام کرتی ہوں۔ تم اور تمھاری بیٹی کل میرے ساتھ چلنا، وہاں تمھیں ہنر بھی سکھائیں گے اور نوکری بھی ملے گی… بس تمھیں بھیک مانگنا چھوڑنی ہوگی۔‘‘
’’جی بی بی جی! میں خود بھیک مانگنا نہیں چاہتی، میں کل آپ کا انتظار کروں گی۔ میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔ ضرور آپ کو میرے مولا سائیں نے بھیجا ہے۔‘‘لطیفن تشکر بھری نظروں سے ناہید کو دیکھ رہی تھی۔
’’اچھا اب میں چلتی ہوں، پھر کل ملتے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چند روپے لطیفن کی ہتھیلی میں تھما کر وہ اپنی گاڑی کی جانب چل دی۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے کسی کو وہ کسی حد تک کم کرسکتی ہے، یہ سوچ کر وہ طمانیت سے مسکرا دی۔