قوام مرد ہی کیوں ؟

353

عام طور پر سنا اور بولا جاتا ہے ’’مردوں کا معاشرہ‘‘۔ اگرچہ یہ الفاظ بعض اوقات کسی احساسِ محرومی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات نظریے اور فکر کی ناپختگی یہ الفاظ کہلواتی ہے، کبھی فیمینزم کے زیراثر یہ کہا جاتا ہے، اور کبھی حقیقتاً مرد کے غیر منصفانہ رویّے کے ردعمل میں کہا جاتا ہے۔
دیکھنا ہوگا کہ ہم رائے قائم کرنے میں کتنے پختہ ہیں۔ کیا ہم فرد کی کسی ایک کمزوری کو اُس کی ساری خوبیوں پر حاوی کرکے پیش کرتے ہیں، یا اس کی شخصیت کا بحیثیتِ مجموعی جائزہ لے کر ایک متوازن رائے بناتے ہیں۔ دراصل ایک مرد کے غیر منصفانہ رویّے کو بنیاد بناکر اللہ سے شکوہ کناں ہوجانا بچکانہ اور احمقانہ رویہ ہے۔
یہ تو عام فہم بات ہے کہ کسی بھی ادارے کی بنیاد جب رکھی جاتی ہے تو ایک فرد اونر، سربراہ، نگراں کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے سوا کوئی دوسری صورت ہی نہیں۔
اللہ نے جب دنیا بنائی تو سب سے پہلا ادارہ جو قائم کیا وہ ’’خاندان‘‘ تھا۔ خاندان کے معاملات پر ایک نگران مقرر کیا جانا ادارے کی فعالیت اور بقا اور شناخت کے لیے ضروری تھا۔ اللہ‘ جس کی حکمت کا کوئی ثانی نہیں، اس نے مرد کو اِس ادارے کا سربراہ بنادیا تاکہ وہ حالات کے سرد و گرم میں خاندان کا تحفظ کرسکے۔ جہاں تک عورت کی بات ہے تو اس کی بنیادی ذمہ داری اولاد کی پیدائش، پرورش، تربیت تھی۔ ان نازک ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا مرد کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یہ مشقت، پُرصعوبت لیکن اجر و ثواب سے بھرپور کام قیام، مستقل مزاجی اور چار دیواری کا متقاضی تھا، اخفا اس کی خوب صورتی تھی۔ جذبات سے بھرپور عورت اس ذمہ داری کی اہل تھی۔ مرد کو اللہ نے سخت کوش اور مضبوط بنایا، لہٰذا اس کی سوچ میں جذبات سے زیادہ حکمت کا دخل ہے، اس کے فیصلے مضبوط مگر غیر جذباتی ہوتے ہیں، اس کا مؤقف توازن سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ اُن تمام پہلوئوں پر غور کرکے فیصلہ کرتا ہے جن پر ایک عورت جذباتی، نرم دل اور صنفِ نازک ہونے کی وجہ سے غور نہیں کیا کرتی۔
کیا حضرت خدیجہؓ جسمانی، ذہنی اور جذباتی لحاظ سے اُس مخالفت کا براہِ راست سامنا کرسکتی تھیں جس کا سامنا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا پڑا؟ کیا وہ مضبوط اور مستحکم فیصلے کرسکتی تھیں اس صورت حال میں؟ ہاں تشفی ودل جوئی اور ڈھارس بندھانے کا کام ان کی فطرت اور مزاج کے عین مطابق تھا اور وہ انہوں نے بہ خوبی کیا۔
کیا حضرت عائشہؓ واقعہ افک میں اپنے پر بہتان کی خبر پاکر چارپائی سے نہ لگ گئیں؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عرصے میں کوئی جذباتی قدم اٹھایا؟ عائشہؓ پر شک کیا؟ یا بہتان لگانے والوں کے خلاف فوری ایکشن لیا؟ نہیں،کیوں کہ اپنی بیوی کی پاک دامنی کا یقین ہونے کے باوجود ایسا کرنا منافقین کو غیر اخلاقی حملے کرنے کی شہ دے دیتا اور وہ طوفانِ بدتمیزی اٹھا دیتے۔آپؐ نے جذبات پر دانش کو مقدم رکھا اور مختلف افراد سے حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کی گواہی لی، مگر پھر بھی اُس وقت تک اپنی محبوب بیوی کے معاملے میں صریح فیصلہ نہ سنایا جب تک اللہ نے خود شہادت نہ دے دی۔
کیا حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کے جھگڑے کی خبر ہونے کے باوجود بیٹی سے ہمدردی جتانے گئے یا مداخلت کی؟ نہیں،کیوں کہ یہ غیر دانش مندانہ قدم ہوتا۔
کیا حضرت خدیجہؓ کو باوجود طاہرہ اور رشیدہ ہونے کے، دور دراز کاروباری معاملات کے لیے ایک مرد ہی کی تلاش نہ تھی؟ اگر جسمانی، ذہنی اور جذباتی لحاظ سے عورت اتنی مستحکم ہوتی تو کیا وہ رشیدہ خاتون اپنے کاروباری معاملات کی نگرانی کے لیے کسی مرد کو ڈھونڈھتی؟ ہم اُم عمارہؓ، صفیہؓ، عائشہؓ اور خولہؓ کی مثال پیش کرکے چار دیواری سے باہر عورت کے بااختیار ہونے کی بات کرتے ہیں مگر کیا کہیں عورت کو قائد بنایا گیا؟سالار بنایا گیا؟
ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی گھریلو الجھنیں مرد کے متوازن رویّے سے سلجھ جاتی ہیں، بہت سے جذباتی فیصلے جو عورت کو بااختیار بنانے سے تباہ کن ہو سکتے تھے مرد کے غیر جذباتی اور دانش مندانہ کردار کی وجہ سے مثبت نتائج لاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ مرد ہمیشہ درست یا عورت ہمیشہ غلط نہیں ہوتی۔ نظم کے لحاظ سے مرد بالاتر ضرور ہے مگر انجام تو تقویٰ کے حساب سے ہی ہوگا۔ بلا تفریق مرد و عورت جس کے پلڑے میں جو ہوگا وہی تولا جائے گا۔
آیئے مرد کی بالادستی کو دعوتِ مبارزت دینا چھوڑیں اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔

حصہ