َََفحش گوئی کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو قوت شہوانیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے مرتکب زیادہ تر رند، بیباک نوجوان اور بے تکلف دوست و احباب ہوتے ہیں، مثلاً جب اس قسم کی بے تکلفانہ اور رندانہ محبتیں قائم ہوتی ہیں تو عورتوں کے حسن و جمال کا ذکر ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اس قسم کے حالات و واقعات بیان کیے جاتے ہیں جو بعض اوقات شرمناک حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ عربی زبان میں اس قسم کی فحش گوئی کو رفت کہتے ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت میں:
فَلا رَفَتْ وَلا فُسُوقَ وَلا جَدَالَ فِي الْحَجَّ ﴾ (البقرہ: ۱۹۷)
” حج کے دنوں میں نہ شہوت کی کوئی بات کرنی چاہیے نہ گناہ کی اور ندلڑائی کی“۔
اس کی ممانعت کی گئی ہے لیکن زمانہ حج کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ اس زمانہ میں مردوں اور عورتوں کا عام اجتماع ہوتا ہے اور اس سفر میں پردے کی پوری پابندی مشکل ہوتی ہے، اس لیے اس قسم کے چرچے نہایت آزادی کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں حالانکہ یہ زمانہ صرف ذکر الٰہی کا ہوتا ہے ور نہ حج کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ اسلام میں عام طور پر اس قسم کی فحش گوئی ممنوع ہے، چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور مردوں کے ایک مجمع میں خطبہ دیا، اور حمد وثنا کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ”کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو دروازہ بند کر لیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس طرح خدا کے پردہ میں چھپ جاتا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ”ہاں“ پھر فرمایا کہ اس کے بعد کی صحبتوں میں بیٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا ۔ اس پر سب لوگ خاموش ہورہے ۔ پھر عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا تم سب اس قسم کے واقعات بیان کرتی ہو؟ اس پر ایک عورت نے دوزانو بیٹھ کر کہا: ”ہاں مرد اور عورت دونوں اس قسم کے واقعات بیان کرتے ہیں ۔ فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ اس کی کیا مثال ہے؟ اس کی مثال اس چڑیل کی ہے جو گلی میں ایک شیطان سے ملی اور اس نے اس سے مباشرت کی ، حالانکہ لوگ اس کو دیکھ رہے تھے۔ (ابو داؤد)
مقصود یہ ہے کہ علانیہ کرنا اور کھول کر بیان کرنا دونوں کی بے شرمی کی صورت یکساں ہے۔ اس فحش گوئی کی ممانعت کا فلسفہ یہ ہے کہ حدود الٰہی کی حرمت کا تخیل ہر حال میں برقرار ہے، ورنہ جب باتیں زبانوں پر آئیں گی تو وہ اہمیت کھو دیں گی اور قول عمل کے لیے ایک دن راستہ صاف کر دے گا۔ یہی سبب ہے کہ اس قسم کی باتوں کے بیان کے لیے جب ناگزیر ضرورتیں پیش آتی ہیں تو مجزر و استعارہ کی زبان میں ان کو ادا کیا جاتا ہے، تا کہ مدعا ظاہر ہو، اور شرم کا پردہ بھی ڈھکا رہے، چنانچہ قرآن مجید میں اس قسم کے واقعات مجاز و استعارہ ہی کے پردہ میں بیان کیے گئے ہیں مثلاً:
( وَقَدْ أَفضَى بَعْضُكُمْ بَعْضِ وَلَمَسْتُم النِّسَاءَ(النساء:43)
”حالانکہ تم ایک دوسرے تک پہنچ چکے (یعنی میاں بی بی ہم صحبت ہو چکے ) یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو (یعنی ان سے صحبت کی ہو)
حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ خدا شرمیلا اور شریف ہے، اسی لیے اس نے جماع کو کنایہ لمس ( چھونے) کے لفظ سے بیان کیا ہے، اسلام نے اس کے لیے اور جو الفاظ پیدا کیے ہیں، جو فقہی مسائل کی تشریح میں مجبوراً آتے ہیں، گو وہ اب عام استعمال کی وجہ سے تصریح کے درجہ کو پہنچ چکے ہیں، لیکن در حقیقت وہ سب کے سب کنائے اور استعارے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پائخانہ، پیشاب اور دوسرے نفرت انگیز اور شرمناک امراض کا ذکر بھی کنایہ کرنا چاہیے۔ پائخانہ اور پیشاب کے لیے احادیث میں قضائے حاجت کا لفظ مستعمل ہے جو ایک کنایہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کے لیے غائط کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو لغت میں نشیب زمین کو کہتے ہیں۔
( او جاء أحد منكم من الغائط )(نساء:43)
”یا تم میں سے کوئی پست زمین سے ( ہو کر ) آیا ہو“۔
چونکہ عام طور پر لوگ اس مقصد کے لیے پست زمین کو پسند کرتے ہیں، اس لیے استعارۃً اس سے پائخانہ مراد لیا گیا۔ اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پائخانہ بھی ایک استعارہ ہے جس کی اصل پائیں خانہ ہے، چونکہ پائخانے عموماً مکانوں کے کنارے بنائے جاتے ہیں ، اس لیے استعارہ ان کو پائیں خانہ کہا گیا، پھر تخفیف کے اصول کے مطابق پائخانہ ہو گیا، اور اب کثرت استعمال سے اس میں استعارہ کی شان باقی نہ رہی۔ قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ نے ”برص“ کی تعبیر ”سو“ کے لفظ سے کی ہے جس کے معنی برائی یا عیب کے ہیں۔
( وَاضْهُمْ يَدَكَ إِلى جَنَاحَكَ تُخْرِجُ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوْءٍ آيَةً أخرى (طه: 22)
”اور اپنے ہاتھ کو سکیٹر کر اپنی بغل میں رکھ لو اور پھر نکالو ) تو وہ ہدوں اس کے کہ کسی طرح کا روگ ہو، سفید ( براق) نکلے گا (اور یہ ) دوسرا معجزہ (ہے)“۔
فحش گوئی کی دوسری قسم کا تعلق قوت غضبیہ سے ہے جس کا نام سب وشتم یا گالی گلوچ ہے اور یہ صورت عموماً جنگ و جدل کے موقع پر پیش آتی ہے۔ زمانہ حج میں چونکہ عام اجتماع ہوتا ہے اور اس حالت میں لڑائی جھگڑے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اس لیے خداوند تعالیٰ نے ایک لفظ ”فسق“ سے اس کی ممانعت کی۔
(فَلا رَفَتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجّ ) (البقره: 197)
” حج کے دنوں میں نہ شہوت کی کوئی بات کرنی چاہیے، نہ فسق کی نہ جھگڑے کی“ ۔
گالی گلوچ کی مختلف صورتیں ہیں۔ بعض اوقات انسان ایک شخص کے ماں باپ کو بُرا بھلا کہتا ہے، اس کے نسب میں عیب نکالتا ہے، کبھی خود اس شخص کے عیوب ظاہر کرتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی نفرت انگیز مرض مثلاً برص یا جذام میں مبتلا ہو تو اس پر بھی طنز کرتا ہے، بعض حالتوں میں اگر اس نے کوئی برا کام کیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی کہ برا برتاؤ کیا گیا ہے، تو اس کا اظہار کرتا ہے۔
قرآن مجید نے اجمالی طور پر ان تمام صورتوں کی ممانعت صرف ایک لفظ سے کی ہے۔
( لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ الأَ مَنْ ظُلِمَ )
(النساء: 148)
”اللہ کو بری بات کا پکار کر کہنا پسند نہیں مگر جس پر ظلم ہوا ہو، وہ ظلم کر بر ملا بیان کرسکتا ہے)“۔
اور قرآن وحدیث میں جابجابد زبانی سے بچنے کے حکم و مصالح نہایت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں:
(۱) ایک مصلحت یہ ہے کہ گالی گلوچ میں لوگ عموماً تعدی کرتے ہیں، یعنی اگر ایک شخص ایک گالی دیتا ہے تو دوسرا دو دیتا ہے، اگر ایک شخص کسی کے باپ کو برا کہتا ہے تو دوسرا اس کے ماں باپ دونوں کو اس میں شامل کر لیتا ہے۔ اس لیے دوسرے کی تعدی سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو گالی نہ دی جائے ، خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید کی اس آیت میں یہی نکتہ بیان کیا ہے:
( وَلَا تَسُبُّو الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونَ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدَّةَ الْعَبِيرِ عِلْمٍ ) (الانعام: 108)
”اور ( مسلمانو ! ) خدا کے سوا دوسرے جن معبودوں کو یہ پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ ( بھی ) نادانی سے بڑھ کر خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے“ ۔
اس نکتہ کو رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہےکہ آدمی اپنے باپ ماں پر لعنت بھیجے، کہا گیا: یا رسول اللہ ! کوئی اپنے ماں باپ پر کیوںکر لعنت بھیج سکتا ہے؟ فرمایا: ”اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی اس کے ماں باپ دونوں کو برا بھلا کہے گا“ ۔ ( بخاری )
(۲) بد زبان آدمی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے فوائد سے محروم ہو جاتا ہے، اور لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ سے ملنے آیا ، آپﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ ”اپنے قبیلہ میں یہ نہایت برا آدمی ہے“۔ لیکن جب وہ آپ کے پاس بیٹھا تو آپ اس سے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ملے، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ جب آپ نے اس کو دیکھا تو برا کہا، پھر اس سے نہایت لطف و محبت کے ساتھ ملے، فرمایا: ”عائشہ!تم نے مجھ کو بد زبان کب پایا؟ خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے براشخص وہ ہوگا جس کی بدزبانی کے خوف سے لوگ اس کو چھوڑ دیں“۔ (بخاری)
امام بخاری نے ادب المفرد میں اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غلاموں یا نوکروں کو برا بھلا کہنا جائز نہیں۔
(۴) رفق و ملاطفت وشرم و حیا شریفانہ اخلاق ہیں اور اسلام نے خاص طور پر ان کی تعلیم دی ہے لیکن بد زبانی ان کے بالکل مخالف ہے۔ ایک بار کچھ یہود رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کے بجائے ” السّامُ عَلَيْكُمْ“( تم کو موت آئے ) کہا حضرت عائشہ نے جواب میں کہا:” عَلَيْكُمْ وَلَعْنَكُمُ اللهِ وَغَضَبِ اللهِ عَلَيْكُمْ“یعنی تم کو موت آئے ، خدا تم پر لعنت بھیجے اور تم پر خدا کا غضب نازل ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے سنا تو فرمایا: ”اے عائشہ !نرمی اختیار کرو اور سختی اور بد زبانی سے بچو“ ۔ ( بخاری )
(۵) گالی گلوچ کی ممانعت کا ایک نہایت دقیق نکتہ یہ ہے کہ اس میں عموماً بے شرمی اور بے حیائی کی باتوں کو الفاظ کی صورت میں سے منہ سے نکالا تا جاتا ہے اور سنایا جاتا ہے، اس سے سوسائٹی میں ان مکروہ باتوں کے سننے اور سنانے کی جرات پیدا ہوتی ہے اور بے حیائی کے الفاظ بڑھ کر اعمال کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بدزبانی کو حیا کے بالمقابل ذکر فرمایا ، ارشاد ہے کہ ”بد زبانی جس چیز میں شامل ہوتی ہے اس کو بدنما بنا دیتی ہے، اور حیاجس چیز میں ہوتی ہے، اس کو زینت دے دیتی ہے“ ۔(ترمذی)
اس سے معلوم ہوا کہ بدزبانی اور بخش گوئی حیا کے خلاف ہے۔
(6) گالی گلوچ سے لوگوں کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے، حالانکہ مسلمانوں کو ایذا رسانی سے احتراز کرنا چاہیے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہیں (مسلم)۔ مردوں کو برا بھلا کہنے کی ممانعت اس لیے کی گئی ہے کہ اس سے زندوں یعنی مردوں کے عزیز واقارب اور دوست و احباب کے دلوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ (ترمذی)
(۷) گالی گلوچ لڑائی کا پیش خیمہ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھڑنا کفر ہے، اس لیے جو چیز اس کا ذریعہ بنتی ہے وہ اگر کفر نہیں تو کم از کم فسق ضرور ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( سباب المسلم فسوق وقتاله كفر)
” مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر“۔
ان تمام مراتب کو پیش نظر رکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بدزبانی اور فحاشی اسلامی تعلیمات اور اسلامی خصوصیات کے منافی ہے، اس لیے جو شخص صحیح اسلامی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے وہ اس بداخلاقی میں مبتلا رہنا پسند نہیں کرے گا اس لیے رسول اللہ ﷺ یہ ہم نے فرمایا:
(ليس المومن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذى )(ترمذی)
”جو مسلمان ہے وہ طنز و تشنیع نہیں کرتا لعنت نہیں بھیجا، بدزبانی اور مخش کلامی نہیں کرتا“۔
ایک اور حدیث میں بدزبانی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
یہ تمام وجوہ تو انسانوں کی باہمی گالی گلوچ اور لعن طعن سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس قسم کی بد زبانیاں صرف انسانوں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ بے جان اور عقل سے خالی چیزوں سے بھی جب نقصان پہنچتا ہے تو لوگ ان کو بھی برا بھلا کہ بیٹھتے ہیں مثلاً جب کوئی شخص حوادث زمانہ کا شکار ہوتا ہے تو وہ زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ اس میں زمانے کا کیا قصور ہے، یہ جو کچھ ہوا ہے مشیت الٰہی سے ہوا ہے۔ اس بنا پر اسلام نے ان چیزوں کو برا بھلا کہنے کی بھی ممانعت کی ہے، اور اس مفہوم کو رسول اللہ ﷺنے خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے اس طرح ادا کیا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ انسان زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں خود زمانہ ہوں اور رات دن میرے ہاتھ میں ہیں (بخاری)۔ یعنی زمانہ کو برا بھلا کہنا خود خدا کو برا بھلا کہنا ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک شخص کی چادر ادھر ادھر اڑنے لگی، اس نے ہوا پر لعنت بھیجی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”اس پر لعنت نہ بھیجو، وہ تو صرف خدا کی فرمانبردار ہے “۔ ( ابوداؤد)
ایک سفر میں ایک عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت بھیجی ، رسول اللہ ﷺنے اونٹنی کو الگ کر دیا (ابوداؤد ) اور یہ اس عورت کی سزا تھی کہ تا کہ وہ دوبارہ اس قسم کا کلمہ نہ کہہ سکے۔
اسلام میں گالی گلوچ کے صرف یہی معنی نہیں کہ کسی کو مغلظات سنائے جائیں، بلکہ ہر وہ بات جس سے کسی کی تو ہین یا دل آزاری ہوگالی ہے۔ کسی کو فاسق یا کافر کہنا اگر چہ عرف عام میں گالی نہیں ہے، لیکن اسلام میں وہ ایک سخت گالی ہے اور رسول اللہ ﷺمیں عوام نے ایک مقدس دن، ایک مقدس مہینہ اور ایک مقدس شہر میں ( یعنی حجتہ الوداع میں) ایک خطبہ میں مسلمانوں کو یہ ہدایت کر دی ہے کہ خدا نے تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزت کو اسی طرح حرام کر دیا ہے جس طرح تمہارا یہ دن ، تمہارا یہ مہینہ اور تمہارا یہ شہر محترم ہے۔