دنیا کی نظروں سے اوجھل رہنے والے آسی ضیائی رام پوری

635

آج کے دور میں ایٹمی ٹونٹی 20/80 کا فارمولا کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک پروڈکٹ کی تیاری پر بیس روپے کا خرچ آتا ہے تو عام صارف تک پہنچانے کے لیے مارکیٹنگ اور اشتہارات پر 80 روپے خرچ کیے جاتے ہیں یوں اس کی کُل لاگت 100 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔

جب سے ہیومن ریسورس (HR) کا نظریہ دریافت ہوا ہے انسان بھی ایک چیز بن کر رہ گیا ہے اور مارکیٹنگ کا یہی فارمولا حضرت انسان پر بھی لاگو ہے۔ مارکیٹنگ کے رنگ و روغن کی بدولت عام پتھروں کو ہیروں اور جواہرات کے بھائو بیچا جاتا ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ اصل ہیرے جواہرات ناقدری‘ کسمپرسی اور بے مروتی کے ملبے تلے دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امان اللہ خان آسی ضیائی ایسے ہی ہیروں میں سے ایک تھے۔ وہ پائے کے ادیب اور شاعر تھے‘ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے شعر و ادب کے ماہر تھے‘ علم عروض پر ان کو دسترس حاصل تھی۔ قرآن و حدیث کا علم رکھتے تھے۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود انہوں نے بہت کم لکھا ہے۔ ان کے شاگردوں اور دوست حفیظ الرحمن احسن مرحوم نے درست لکھا ہے کہ ’’وہ (آسی ضیائی صاحب) کسی زور دار تحریک کے بغیر نہیں لکھتے تھے خواہ وہ داخلی ہو یا خارجی۔ ایک تو وہ طبعاً بے نیاز اور گوشہ گیر انسان تھے تو دوسری طرف کوئی ایسا فعال حلقہ یا ادارہ بھی موجود نہ تھا جو ان سے ان کے مقام و مرتبے کے مطابق کام لیتا۔‘‘ تاہم اس کے باوجود انہوں نے مختلف اصناف ادب میں بے حد وقیع سرمایہ چھوڑا ہے۔ اس بیش قیمت سرمائے پر تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو ان کی تحریریں مختلف رسالوں میں بکھری پڑی ہیں جس کی تالیف و ترتیب بھی کرنے کا ایک عام کام ہے۔ تاہم چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں۔

٭کلام اقبال کا بے لاک تجزیہ (1957ء) کلام اقبال کا ایک نئے رخ سے تجزیائی مطالعہ۔

٭ کھوٹے سکے (1959ء) افسانے‘ ڈرامے‘ تراجم

٭ شب تاب چراغاں (1957ء) اردو شاعری کا عہد بہ عہد ہر عہد کے نمائندہ شعرا کے کوائف اور نمونہ کلام کے حوالے سے۔

٭ درست اردو (1960)

٭ تاریخ زبان و ادب اردو (1992ء)

٭ تحسین اردو (1968ء)

٭ رگِ اندیشہ مجموعہ نظم و غزل(1994)

٭ یادیں کچھ کرداروں کی (1997)

٭ داستان گو انیس (1997)

٭ ترجمہ انجیل برناباس (1974ء) بائبل کے اسلوب میں اس نایاب کتاب کا معرکہ آرا ترجمہ۔

(واضح رہے کہ آسی ضیائی صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ سید مودودیؒ کی خصوصی تحریک پر انہی کے فراہم کردہ انگریزی ایڈیشن سے کیا تھا۔)

آسی ضیائی صاحب یکم اگست 1920ء کو ہندوستان کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بریلی سے بریلی سے بی اے کیا اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کے ساتھ ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ وہ رشید احمد صدیقی صاحب جیسے نامور استار کے شاگرد رہے۔ بابائے اردو کے دست راست اور انجمن ترقی اردو کے پہلے سیکرٹری ہاشمی فرید آبادی جیسے علمی شخصیت کے سگے بھانجے تھے بیگم کی طرف سے وہ مرزا اسد اللہ غالب کے بھی رشتہ دار تھے۔

آسی ضیائی صاحب پاکستان بننے کے بعد یہاں آئے۔ 1948ء میں مرے کالج سیالکوٹ کے شعبہ اردو میں لیکچرار اور صدر شعبہ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں اسی کالج کے پرنسپل بن گئے۔ 1983ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ منصورہ کے قریب حبیب پارک میں رہائش اختیار کر لی۔ اسی دوران وہ ادارہ معارف اسلامی لاہور سے منسلک ہوئے۔ سر پر رام پوری ٹوپی اور نیچے مخصوص چغہ پہنے روزانہ گھر سے سائیکل پر ادارہ پہنچتے۔ مجھے تین برس تک ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی گفتگو سننے‘ ان سے بات کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب چائے کے دور میں وہ ہمارے ساتھ ہوتے۔ وہ بڑی دل چسپی اور لگن سے مزے لے لے کر چائے پیتے تھے۔ چائے کے اس دور میں خوب گپ شپ ہوتی۔ گو کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کا حافظہ متاثر ہو گیا تھا لیکن پرانی یادوں کا ہارڈ ڈسک بالکل صحیح سالم تھا۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کے مزے کے لطائف‘ واقعات اور حکایتیں سناتے۔ اسی طرح کبھی کبھی اپنے ساتویں جماعت میں یاد کی ہوئی نظمیں بڑی روانی کے ساتھ سناتے۔ وہ مختلف لوگوں کے بارے میں اپنی رائے دیتے لیکن میں نے ان کی زبان سے شکایت اور غیبت کی قسم ایک بات بھی نہیں سنی۔ مزاج میں بلا کی سادگی‘ استغنا اور درویشی تھی۔ وہ عجز و انکسار‘ خلوص‘ بے غرضی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ میں نے ان کا ایک طویل انٹرویو کیا تھا‘ افسوس کہ وہ ریکارڈنگ ضائع ہو گئی۔

ان کی عمر 90 برس سے زائد تھی اس عمر میں بھی وہ ملتان روڈ عبور کرکے منصورہ آتے۔ ایک روز دفتر سے گھر جاتے ہوئے منصورہ کے صدر دروازے پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر پڑے جس سے ان کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ وہ اس طرح صاحب فراش ہو گئے کہ پھر اٹھ نہ سکے اور اسی دوران پھیپھڑوں کے کینسر نے سر اٹھایا کچھ عرصے بعد آسی ضیائی صاحب راہی ملک عدم ہوگئے۔ وہ نسلاًپختون تھے ان کے ابا و اجداد کا تعلق خیبرپختون خوا کے ضلع بونیر کے گائوں کلپانڑے سے تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

حصہ