جب الفاظ زہر اور لہجے تلوار ہوجائیں

560

مواصلات انسان کی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ آپ کو کسی سے کچھ پوچھنے یا بتانے کے لیے الفاظ کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ورنہ اشاروں کی زبان میں بھی موقع کی مناسبت سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی فنی قابلیت اپنی جگہ لیکن الفاظ اور لہجوں کا خوب صورت چناؤ سے بنا امتزاج انسان کی شخصیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جو الفاظ ہوتے ہیں انہیں لکھنا بھی محال ہوتا ہے‘ انہیں سنبھالنا بھی محال ہوتا ہے۔ اگر یہ الفاظ جذبات کا حقیقی لبادہ اوڑھ کر قلم کی سیاہی سے نکلیں تو تباہی پھیلا کر رکھ دیں۔ یہ خوب کمال ہوتا ہے جذبات پر الفاظ پر دسترس ہوتی ہے اور لہجے کے معاملے میں تو ہم لوگ گونگے بن جاتے ہیں بس قلم کو ہی زبان بنا لیتے ہیں۔ تب کہیں جا کر جذبات جو صرف الفاظ تک محدود رہ جاتے ہیں اور لہجے کے محتاج ہونے کے باعث اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا کہ فقط بولنے والے کرتے ہیں۔

جذبات میں تو دل کی دھڑکن بھی اپنے طرز پر الفاظ مرتب کررہی ہوتی ہے اب یہ جذبات پر منحصر ہے کہ وہ محبت لیے ہیں یا پھر نفرت کا طرز مرتب کر رہے ہیں۔ دونوں ہی صورت میں گونگے ہوجانا ہی بہتر ہے ورنہ بہت کچھ ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ہی جذبات کسی مسخرے کی تقویت کا باعث بنتے سنائی بھی دیے جا سکتے ہیں کیوں کہ جذبات بھی بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا رکھتے ہیں۔ بہت ہی قلیل لوگ ایسے ہوں گے جن کے جذبات وقت کے ساتھ پختہ ہوتے گئے ہوں اور وہ ان جذبات کو سنبھالے سنبھالے اور ساتھ لیے زندگی کی تمام منزلیں طے کرتے ہوئے آخری سفر پر روانہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان احساسات اور جذبات کو ساتھ رکھنے کی مد میں انہوں نے کیا کچھ کھویا ہو اور شاید ہی کچھ پایا ہو۔ مضمون الفاظ اور لہجے پر ہے اور جذباتوں نے جذباتی کردیا ہے۔

ہمارا معاشرہ ہی ہماری دنیا ہے، جس معاشرے پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں جہاں ہمیں سب سے پہلے ہمارے گھروں میں موجود ٹیلی وژن پر ہر وقت نمودار رہنے والے وہ میزبان دکھائی دیں گے جو اپنے الفاظ کے ساتھ ساتھ لہجے سے بھی سنائی و دکھائی جانے والی ایک غیر اہم خبر کو انتہائی اہم بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں کہ جس سے لوگ ایک انجانے اور ان دیکھے ہیجان کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ ہیجان مختلف کیفیات کی شکل اختیار کر کے منفی اقدامات کی جانب پیش قدمی کرتا چلا جاتا ہے۔ پے درپے ایسی خبریں ہماری ذہنوں پر کیا اثر ڈال رہی ہیں ہمیں اس کا احساس نہیں ہورہا البتہ ہمارے مزاج مسلسل تند ہوئے جا رہے ہیں اور الفاظ مغلظات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ایک عام سی بات کے لیے بھی زور زور سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح سے ہم اگلی نسل کو کیسے الفاظ اور کیسا لہجہ منتقل کر رہے ہیں ہمیں سمجھ آجانا چاہیے۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جو کہ اتنا غور طلب نہیں ہے جتنا غور طلب ہونا چاہیے، آج ہر فرد کسی نا کسی الجھن میں الجھا ہوا ہے۔ معاشرہ اجتماعیت کھوتا جا رہا ہے اور انفرادیت کی جانب تیزی سے سفر کر رہا ہے جس کے لیے ہمیں جن آلات کی ضرورت تھی وہ ہمیں مہیا کردیے گئے ہیں جن میں اوّل نمبر پر موبائل فون ہے۔ یہ تو بہت عام سی بات ہے کہ ایک ایک کر کے ختم کرنا آسان ہوتا ہے پہلے ٹیلی وژن ہوا کرتے تھے جوکچھ بھی دیکھا جاتا تھا سب دیکھتے تھے مگر اب تو موبائل ہیں‘ سب اکیلے اکیلے اور کیا دیکھ رہے ہیں یہ ایک دوسرے سے پوشیدہ ہے۔ معاشرہ اخلاقی طور سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔

ایک خوب صورت سا باغ جس میں لگے پھول اور ان پھولوں سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو‘ اس خوشبو سے لطف اندوز ہوتے لوگ پھر کہیں سے کسی نے اس باغ کے کسی کونے میں کچرا پھینکا اور دیکھنے والوں نے یہ کہہ کر کچھ نہیں کیا کہ یہ ہمارا مسئلہ تو نہیں ہے کچھ دنوں میں باغ کم کچرہ خانہ زیادہ کھائی دینے لگا اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو میں کچرے کی بدبو غالب آنا شروع ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لاپروائی کی وجہ سے ایک اچھا بھلا باغ کچرے کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔

ہمارے معاشرے میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو بغیر کسی وجہ کہ مغلظات بکتے رہتے ہیں، کبھی بھونڈے مذاق کے لیے‘ کبھی کسی کی تضحیک کے لیے اور کبھی کسی معصوم پر محض رعب ڈالنے کے لیے۔ یہ ایسی گفتار ہے جس کی مماثلت کسی ایسی دھواں چھوڑتی گاڑی سے کی جاسکتی ہے جو ماحول کو آلودہ کرنے پر سڑک پر نکالی گئی ہو اور لوگ سوائے اپنی گاڑی کے شیشے اوپر کرنے یا پھر جلد از جلد اسے کراس کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ ان الفاظ کا بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جن سے کراہیت ہوتی ہے جیسے کسی رینگنے والے جان دار کو دیکھ کر ہوسکتی ہے۔

آخر معاشرے کو اس جانب گامزن کرنے میں کن عوامل کا کردار نمایاں ہے۔ اوّل نمبر پر میڈیا پر موجود وہ پڑوسی ملک کی فلمیں ہیں جن میں تیسرے درجے کے معاشرے کی عکاسی اتنی بری طرح سے کی جاتی ہے کہ جو عمومی سطح پر ناقابل قبول ہے۔ معاشرے میں بے قاعدگیاں، بدعنوانیاں اور میرٹ کا قتل عام بھی ایسی ذہن سازی کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاید کچھ لوگ اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیں کہ ہمارے گھر میں ہونے والی گندگی میں بھی بیرونی ہاتھ کیسے ملوث ہوسکتا ہے، جی بالکل ہوسکتا ہے۔ میڈیا کے توسط سے جو ذہن سازی کی جا رہی ہے اس کی بنیادیں کہاں جاکر ملتی ہیں۔ درجہ ذیل شعر میں شاعر نے معاشرے کی بے اعتنائی اور بے ثباتی کا کیا خوب ماتم کیا ہے:

تاثیر ہی الٹی ہے اخلاص کے امرت کی
جس جس کو پلاتے ہیں وہی زہر اگلتا ہے

ایسے معاشرے میں جہاں الفاظ زہر بن کر من کو آہستہ آہستہ کھاتے جا رہے ہوں اور لہجے تلوار کی طرح تن کو زخمی کیے جا تے ہوں تو خاموش رہنا اور دستورِ زباں بندی پر کاربند رہنا ہی عافیت کا سبب بن سکتا ہے ورنہ زندگی تو ان کی بھی گزر جاتی ہے جنہیں عملی طور پر چلنے کے لیے کہا نہیں جاتا بلکہ ایک ڈنڈا یا ایک چابک رسید کی جاتی ہے۔ جہاں ہمارے ملک کو بدعنوانوں سے پاک کرنا بہت ہی اہم معاملہ ہے بالکل اسی طرح ہمیں اس بات پر بھی بھرپور دھیان رکھنا ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو کس طرح سے اس چنگل سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

حصہ