شیریں

383

’’اللہ کا جتنا شکر کروں‘ کم ہے۔ میری بہو تو لاکھوں میں ایک ہے۔ نام کی بھی شیریں اور اخلاق کی بھی شیریں۔ سچ پوچھو بہن! نام کا شخصیت پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ پہلے تو میں لڑکیوں کے تیور دیکھ کر بہت پریشان اور خوف زدہ تھی کہ اللہ جانے آنے والی کیسی ہو، پھر میں نے دعائوں کا دامن تھاما کہ اللہ مجھے نیک سیرت اور دین دار بہو دینا۔ صد شکر اللہ نے میری دعائیں قبول کرلیں۔‘‘

’’بہن تمہاری بڑی بہو کیسی ہے؟‘‘
’’بڑی بہو بھی اچھی ہے۔ میری اپنی بھانجی ہے۔ پھر کسی سے زیادہ گھلتی ملتی نہیں۔ روکھے مزاج کی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ پَر شیریں کی تو بات ہی نرالی ہے۔ آتے ہی اس نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور میٹھی مسکراہٹ سے جگہ بنا لی۔ ہر ایک کی ہمدرد اور خیرخواہ۔ صاف نیت کے ساتھ سب کی خدمت کرتی ہے‘ کسی سے شکوہ شکایت نہیں۔‘‘

راشدہ رشک بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولیں ’’شکر کرو بہن! تمہیںاچھے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ ورنہ آج کل تو لڑکیاں رشتے نبھانا ہی نہیں جانتیں۔ سسرالی رشتوں کے خلاف ہر وقت شکایات کا رجسٹر کھولے بیٹھی رہتی ہیں۔‘‘

اتنے میں شیریں چائے لے کر آگئی اور دعائیں لے کر چلی گئی۔ ساس، سسر، ایک دیور اور دو نندیں۔ ایک چھوٹی اور ایک بڑی شادی شدہ نند جو سسرال والوں سے ناراض ہوکر میکے آ بیٹھی تھی (اپنے دو بچوں کے ہمراہ)، ایک جیٹھ اور جیٹھانی اور ان کی پانچ سالہ بچی۔ یہ تھا شیریں کا سسرال۔

چھوٹی نند منہا سے شیریں کی بہت دوستی تھی۔ بڑی نند صبا غصے اور زبان دونوںکی تیز تھی۔ سسرال والوں سے لڑ جھگڑ کر آئی تھی، اس لیے چڑچڑی ہوگئی تھی، جلی کٹی سناتی رہتی تھی۔

جیٹھانی کی حکومت شیریں کے آنے سے کمزور پڑ گئی تھی۔ زیادہ تر حالتِ مقابلہ میں رہتیں۔ شیریں کی تعریف ان سے ہضم نہ ہوتی۔

ایک دن شیریں‘ منہا کے ساتھ خوش گوار موڈ میں محوِ گفتگو تھی کہ منہا پوچھ بیٹھی’’بھابی یہ تو بتائیں اتنا صبر آپ میںکہاں سے آیا؟‘‘

شیریں مسکرا دی ’’دینی تعلیم انسان کو صبر سکھا دیتی ہے، اور جس کو صبر کے اجر کی حقیقت سمجھ آجائے وہ خودبخود صابر بن جاتا ہے۔‘‘

’’آپی کا رویہ آپ کے ساتھ بہت نامناسب ہے، ہر وقت آپ کو کچھ نہ کچھ کہتی رہتی ہیں۔ آپ اتنا سب کچھ سننے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیتیں۔ کوئی احتجاج نہیں کرتیں۔ کیسے خاموش رہتی ہیں؟‘‘

’’اللہ کی خاطر اجر کی نیت سے صبر کرتی ہوں۔‘‘

’’بہت خوب بھابھی! اچھا یہ بتائیں بڑی بھابھی کے لیے آپ کے دل میںکیا ہے۔ وہ آپ کی چھوٹی سی غلطی پر شور مچا دیتی ہیں، آپ کو رسوا کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں ہر کام میں کیڑے نکالتی ہیں۔‘‘

’’میرے دل میں اُن کے لیے رحم ہے اور لبوں پر دُعا۔‘‘

’’وہ کیسے بھابھی…؟‘‘

’’قرآن میں اللہ کا فرمان ہے کہ ’’وہ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ یہ زندگی ایک آزمائش ہے، ہم سب آزمائے جارہے ہیں، حالتِ امتحان میں ہیں۔ پَر خاص بات یہ ہے کہ سب کے پرچے مختلف ہیں۔ کسی کا والدین کا پرچہ ہے، تو کسی کا اولاد کا، اور کسی کا شوہر کا۔ کوئی تنگ دستی کے امتحان سے گزر رہا ہے، تو کوئی امیری کے۔ کوئی صحت سے آزمایا جا رہا ہے، تو کوئی بیماری سے اور کوئی…‘‘

’’بس بس بھابھی! میں سمجھ گئی۔ آپ کو نند اور جیٹھانی سے آزمایا جارہا ہے۔ ویسے بڑا سخت پرچہ ہے۔ آپ بڑے حوصلے اور ہمت سے حل کررہی ہیں۔‘‘

شیریں مسکرا دی اور بولی ’’یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے۔ بس بہتر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ صبا آگئی۔ ’’تم دونوں ہر وقت کیا باتیں کرتی رہتی ہو؟ شیریں تم یقینا منہا کو الٹی پٹیاں پڑھاتی ہوگی، میرے خلاف بھڑکاتی ہو، جب ہی تو تمہارے ساتھ رہ کر میری بہن مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سیاسی ہو تم، اوپر سے بہت میٹھی بنتی ہو۔‘‘

شیریں اتنی تلخ باتیں سن کر بھی خاموش رہی (اس کی خاموشی صباکو سلگا رہی تھی)۔ صبا چیخ کر بولی ’’میری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟ کیا بہری ہو یا منہ میں زبان نہیں؟‘‘ یہ کہہ کر وہ پائوں پٹختی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

منہا نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ’’اُف بھابھی! آپ کے حوصلے کی داد دیتی ہوں۔ اتنا کچھ سننے کے بعد بھی آپ کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ کو اپنی صفائی میں کچھ تو کہنا چاہیے تھا۔‘‘

’’کیا فائدہ ہوتا کچھ کہنے کا؟ میں ان باتوں کو مسئلہ نہیں بنانا چاہتی۔ عفو و درگزر کرنا بڑی نیکی ہے۔‘‘

’بھابھی آپ سو فیصد درست کہہ رہی ہیں۔ کاش یہ باتیں آپی اور بڑی بھابھی کو بھی سمجھ آجائیں تو اُن کے اعمال برباد ہونے سے بچ جائیں۔‘‘

منہا نے آپی کی فراغت کو غنیمت جانا اور ان کے پاس لپک کر جا بیٹھی۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہنے لگی ’’آپی کل شام آپ نے چھوٹی بھابھی کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔ آپ اُن کی طرف سے اتنی زیادہ بدگمان کیوں ہیں؟ اور بنا کسی بات کے اُن کو جھڑک دیتی ہیں، حالانکہ وہ آپ کا اور بچوں کا بے حد خیال رکھتی ہیں۔‘‘

’’کیا خاک خیال رکھتی ہے!‘‘ صبا غصے سے چنگھاڑتی ہوئی بولی۔

’’کل جب آپ ڈاکٹر کے پاس تھیں تو بچوں کے اسکول سے آنے کے بعد بھابھی نے ان کو کپڑے بدلوائے، کھانا دیا، آپ کا بکھرا ہوا کمرہ سمیٹا اور رات کو آپ کو گرما گرم سوپ بنا کر دیا۔ یہ خیال رکھنا نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

یہ سن کر صبا خاموش ہوگئی ’’پتا نہیں منہا! شیریں کو دیکھ کر مجھے کیا ہوجاتا ہے۔ مجھ سے وہ برداشت نہیں ہوتی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اُس کے ساتھ زیادتی کر جاتی ہوں۔‘‘

’’کیوں آپی… ایسا کیوں ہوتا ہے، کوئی تو وجہ ہوگی؟‘‘

’’میں جب بھی امی کے پاس جاتی ہوں وہ شیریں کے قصیدے پڑھنے لگتی ہیں اور مجھے نصیحتیں کرتی ہیں کہ تم بھی شیریں کی طرح خاموش رہا کرو، ہر بات کا پلٹ کر جواب نہ دیا کرو، چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا کرو۔ منہا مجھے لگتا ہے امی مجھے بوجھ سمجھنے لگی ہیں۔ وہ مجھے اکثر کہتی ہیں کہ شادی کے بعد لڑکیوں کا اصل گھر میکہ نہیں سسرال ہوتا ہے۔ جب سسرال میں رہنا مشکل ہو جائے تو لڑکی کیا کرے؟‘‘

’’حوصلہ کرے، صبر کرے۔‘‘ منہا نے یوں ہاتھ نچا کر کہا کہ صبا مسکرا دی اور بولی ’’اچھا ٹھیک ہے دادی اماں… ویسے منہا تم شیریں کی بہت طرف داری کرتی ہو۔ میں نے کل ہی دیکھا، امی پر کچھ پڑھ کر وہ پھونک مار رہی تھی۔ بڑی جادوگرنی ہے۔ امی کو مٹھی میں لیا ہوا ہے۔‘‘

’’آپی پھر بدگمانی! شیریں بھابھی کوئی جادوگرنی نہیں۔ وہ امی پر دعائے شفا پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔ میں نے ہی کہا تھا۔ آپی یاد رکھنا، آج تم دوسروں کے ساتھ زیادتی کرو گی تو کل تمہارے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے، خدا خوفی سے کام لیا کرو۔‘‘

کھانا کھانے سب دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ دیور بولا ’’واہ شیریں بھابھی کیا ساگ بنایا ہے، مکئی کی روٹی کا تو جواب نہیں۔‘‘ بس تعریف کا سننا تھا کہ بڑی بھابھی پائوں پٹختی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔

منہا انہیں منانے اٹھی ’’کیا ہوا بھابھی؟‘‘

’’اس گھر میں تو ہر وقت صرف شیریں کے سلیقے، قرینے اور سگھڑاپے کی تعریف ہوتی ہے، میں تو کوئی اچھا کام کرتی ہی نہیں۔‘‘

’’یہ آپ کو کس نے کہا؟ اچھا چھوڑیں بھابھی! اگر وہ چھوٹی بھابھی کی تعریف کررہے ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے، آپ کیوں مقابلہ بازی کرتی ہیں؟ حوصلہ اور برداشت اپنے اندر پیدا کریں۔ شیریں بھابھی سے ناراض نہ رہا کریں، وہ بڑی بے لوث اور بے غرض ہیں۔‘‘

’’خوش فہمی ہے تمہاری… وہ بڑے مسکے باز ہے، نمبر بنانا خوب جانتی ہے۔ کل میں امی کے کمرے میں گئی تو ان کے پائوں دبا رہی تھی اور امی مسلسل اسے دعائیں دیتی جا رہی تھیں۔ مجھے تو کبھی اتنی دعائیں نہیں دیں۔‘‘

’’منہا مسکراتے ہوئے بولی ’’بھئی آپ نے کبھی امی کے پائوں بھی تو نہیں دبائے۔‘‘

دن یونہی گزرتے چلے گئے۔ معاملات کبھی بگڑتے، کبھی سنورتے۔ منہا بڑی بھابھی اور آپی کو ان کے تلخ رویوں کا احساس دلاتی رہتی۔ شیریں خاموش تبلیغ سے ان کی اَنا کو زیر کر چکی تھی۔ اس کی مسکراہٹ، مثبت رویّے اور زباں بندی نے آخرکار ان کو فتح کرلیا تھا۔ شیریں کے حوصلے، برداشت اور ایثار نے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ وہ جان گئیں کہ شیریں اخلاق سے انسان ہاری ہوئی بازی جیت لیتا ہے۔

صبا آپی سامان پیک کررہی تھیں۔ منہا نے پوچھا ’’ آپی کہاں جانے کا پروگرام ہے؟‘‘

’’اپنے گھر جا رہی ہوں۔‘‘ اتنے میں شیریں بھی وہاں آگئی۔ صبا نے اسے چمٹا کر پیار کیا ’’شیریں میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے لیے دعا کرنا، میں سسرال جا رہی ہوں۔‘‘

شیریں نے صبا کے ہاتھ چومے اور بولی ’’آپی آپ ہمیشہ میری دعائوں میں شامل رہی ہیں۔‘‘
منہا شیریں کو فخر اور محبت سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر دل آویز مسکراہٹ رقصاں تھی۔

حصہ