سرزمین حرمین اور عاجزی

346

مکہ اور مدینہ عالم اسلام کے لئے بے حد اہمیت کے حامل ہیں، ایک مومن مسلمان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ حج یا عمرہ کے لئے مکہ و مدینہ جائے اور رب کی رضا کے مطابق عبادات سر انجام دے (سبحان اللہ)گزشتہ پچھلے چند برسوں میں (کورونا) کی وجہ سے ان دونوں شہروں کی رونقیں ماند تھیں جس کا ہر مسلمان کو دکھ تھا الحمدللہ پھر سے رونقیں بحال ہوگئیں، شاید ہم گناہ گاروں کی وجہ سے اللہ نے یہ در ہم پر بند کردیئے تھے۔ اب یہ دعا ہے کہ یہ دروازے ہمیشہ کھلے رہیں۔ بندہ مومن عاجزی سے وہاں حاضری دیتا رہے اور گناہوں کی معافی مانگے… میں اپنی گزشتہ تحریروں میں جو حج و عمرہ کی مناسبت سے تھیں بہت کچھ تحریر کرچکی ہوں لیکن ہر مرتبہ ایک تشنگی رہ جاتی ہے کہ میں ناقص علم و عقل پورا حق ادا نہیں کرسکوں گی۔ سبحان اللہ مکہ و مدینہ جس کی تاریخی حیثیت و اہمیت سے ہر بندہ واقف ہے وہاں جاکر بندہ نہ صرف ذہنی سکون محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے سحر میں یوں گرفتار ہوجاتا ہے اپنے ملک واپس آنے کے بعد بھی اس سحر سے نکلنے میں وقت لگتا ہے پھر دل دوبارہ متمنی کہ یا اللہ اس در کا دیدار دوبارہ نصیب کردے ۔(آمین)

اس مرتبہ عمرہ کے لئے گئی تو اندازہ ہوا کہ اب زائرین مکہ مکرمہ کے لئے کچھ نئے اصول مرتب کئے گئے ہیں جوکہ بطاہر زائرین پر گراں گزرے ہیں لیکن ان کی وجہ سے بڑا نظم و ضبط قائم رہا۔ ماہ دسمبر میں معمول سے زیادہ رش تھا کیونکہ یورپ وغیرہ میں تعطیلات تھیں تو تمام دنیا سے زائرین کی ایک بڑی تعداد عمرہ کے لئے مکہ میں موجود تھی، ایسا رش میں نے عموماً حج یا پھر رمضان کے موقع پر ہی دیکھا ہے لیکن ان اصوبوں پر پابندی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے نظم و ضبط نظر آیا۔ ہمارا ہوٹل حرم پاک سے دس منٹ کے فاصلے پر خلیق ابراہیم پر ہی تھا، ہمارے ہوٹل تک باجماعت نماز کا سلسلہ رہتا تھا لیکن حرم میں پہنچنے کے لئے جگہ جگہ متبادل راستے ترتیب دیئے گئے ہیں کہ باب فہد تک پہنچنے کے لئے تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا۔ زائرین کو احرام کی حالت میں نیچے مطاف میں طواف کی اجازت ہے اسی طرح وہیل چیئر والوں کو بھی نیچے مطاف میں اجازت ہیں، زائرین اس بات سے اداس و ناراض نظر آئے لیکن میں سوچ رہی تھی کہ اس قدر زائرین کا رش ہے ۔ اگر یہ لاکھوں بندگان خدا مطاف میں اکٹھے طواف کریں تو کیا صورت حال پیش آسکتی ہے، شاید اسی دھکم پیل سے بچنے کے لئے انتظامیہ نے یہ اقدامات اٹھائیں ہوں۔ اسی بھگدڑ اور رش سے بچنے کے لئے ریاض الجنہ میں بھی حاضری کے لئے اصول مرتب کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے سکون کے ساتھ ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی ممکن ہے۔

مطاف میں ہر بندے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حجر اسود اور غلاف کعبہ کو بوسہ دے اور کسی بھی طرح وہاں تک بھی رسائی حاصل کرے، خیر دو مرتبہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی تو غلاف کعبہ کا قرب بھی حاصل ہوسکا، لیکن عموماً طواف اوپر کرپائے۔ اسی طرح ریاض الجنہ پر حاضری کے لئے بھی پہلے سے پرمٹ حاصل کیا جاتا ہے۔

ہم نے مکہ میں ہی مدینہ روانہ ہونے سے دو دن پہلے ایپلی کیشن ڈائون لوڈ کرکے پرمٹ حاصل کرلیا تھا، گرچہ یہ سب بہت مشکل لگ رہا تھا لیکن اللہ نے مدد فرمائی۔ مدینہ پہنچنے کے اگلے دن یعنی پیر کے دن کی پرمٹ تھا یعنی نماز عشا ایک لمبی قطار خواتین کی اپنا اپنا موبائل فون لئے موجود تھی۔ وہیل چیئر والوں کے لئے علیحدہ لائن تھی۔ بچوں کو اجازت نہیں تھی لے کرجانے کی (شیرخوار اور معصوم بچوں کو) خیر اندازاً ایک ہزار خواتین ان لائنوں میں موجود تھی، منتظمین جن میں مرد و خواتین شامل تھے موبائل میں پرمٹ دکھ کر آگے بھیج رہے تھے، ہم سے آگے دس بارہ خواتین کو قطار سے نکالا گیا، ہم ساس بہو دعا مانگ رہی تھی کہ یا اللہ اس در پر پہنچ کر مایوس نہ کرنا، اس در پر سلام کی سعادت نصیب کرنا، آنکھوں میں آنسو تھے اور لبوں پر دعائیں… اللہ اللہ کرکے ہمیں ریاض الجنہ میں داخل کیا گیا، آنسو رک نہیں رہے تھے لکھتے ہوئے ہاتھ لرز رہے ہیں، اللہ کے حبیب کی چوکھٹ پر میرے اللہ نے حاضری کا پھر موقع عطا کردیا، حبیب مصطفیؐ کا جس کی شفاعت کے ہم منتظر ہیں۔ وہ ہم گناہ گاروں کی اللہ سے سفارش کریں گے، گرچہ دامن خالی ہے لیکن گمان ہے بلکہ یقین کامل ہے کہ آپؐ ہماری ضرور سفارش کریں گے، یہی آپؐ کی تمنا و خواہش تھی (سبحان اللہ) ان تمام مذکورہ انتظامات کی وجہ سے بڑے پرسکون ہوکر ہم نے نوافل ادا کئے، میں بس اپنی تحریروں میں لکھتی ہوں کہ اس در پر جاکر میں بڑی لالچی ہوجاتی ہوں، حرص بڑھتی جاتی ہے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے محروم ساس سسر، اما بابا، دادا دادی، نانا نانی تمام مرحومین کی طرف سے نوافل ادا کرتی ہوں، اس مرتبہ ان انتظامات کی وجہ سے زائرین کو تقریباً ایک گھنٹہ ریاض الجنہ میں گزارنے کا موقع ملا دعائیں تھیں جو لبوں پر سرگوشیاں کررہی تھیں، وطن عزیز سے چلتے ہوئے اہل و اقارب و دوستوں کی ڈھیروں دعائوں کی گٹھڑی لے کر اس در پر پہنچی تھی اور اللہ کے حضور پیش کرتی گئی۔ اللہ رب العزت میرے ان تمام ساتھیوں کی دعائیں قبول فرمائے (آمین ثم آمین)

میں ہمیشہ گنبد خضرا پر رخصت ہوتے ہوئے یہ دعا مانگتی ہوں اے اللہ کے رسولؐ میرا یہ آخری سلام نہیں، میں بار بار آئوں گی، تجھے سلام کرنے تاکہ آخرت میں میرا چہرہ یاد ہو، شفاعت سے بہرہ ور ہونے کے لئے (میرے نبیؐ کا تو یہ وعدہ ہے کہ وہ ہم سب گناہ گاروں کے لئے سفارش فرمائیں گے۔ انہوں نے اپنے اللہ سے یہ دعا آخرت کے لئے سنبھال کے رکھی ہے)۔

سفرحج ہو یا عمرہ کی غرض سے اس در پر حاضری کا موقع ملا، میں ہر بار کچھ ایسی باتیں نوٹ کرتی ہوں اور اپنے قارئین سے بھی شیئر کرتی ہوں جو مجھے بے حد متاثر کرتی ہیں۔ آج چاروں طرف جس قدر مہنگائی کا زور ہے غریب اور متوسط طبقہ اس سے بہت متاثر ہے بلکہ بڑی مشکل سے جی رہا ہے ہر شے کی مہنگائی کی طرح عمرہ پیکیج بھی بہت مہنگا ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود ایک بڑی تعداد زائرین کی نچلے متوسط طبقے یا غریب افراد کی نظر آئی، یعنی اللہ جسے اس در پر بلانا چاہے اس کے لئے خود ہی بندوبست کردیتا ہے (سبحان اللہ)۔ دوسرے ممالک کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن پاکستان سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں لوگ مالی حیثیت سے کمزور لگ رہے تھے، ہمارے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے خستہ حالات کے باوجود یہاں اس در پر پہنچے ہوئے تھے۔ یہ سب میرے رب کی قدرت ہے پھر ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی رب کی طرف سے ہوتا ہے۔ حرمین کے باہر مخیر حضرات کی طرف سے تینوں وقت کا کھانا تقسیم کیا جاتا ہے جہاں ایسے لوگوں کا تانتا نظر آیا۔ ایک خاتون سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ پائی پائی جوڑ کر کمیٹیاں ڈال کر اور دوسروں کی مدد سے میں اس در پر حاضری دے رہی ہوں یعنی میرا اللہ جسے اس در پر بلانا چاہے وہ پہنچ ہی جاتا ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے اپنے حج کی ایک ساتھی یاد آگئی جو بہت غریب تھی، اس نے بتایا کہ ’’ہم دونوں میاں بیوی کا زادراہ کا انتظام میرے رب نے کردیا۔پھر ایک شخص نے اپنے والدین کے حج بدل کے لئے ہمارا انتخاب کیا، ہمارے لئے تو یہ خواب ہے کہ اس در کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور چھو رہے ہیں‘‘۔ غرض کہ ایسے کئی لوگ نظر آئے، بے شک میرا اللہ جسے چاہے ان دروں پر پہنچا سکتا ہے، دعا ہے کہ یہاں پہنچ کر بندہ خالص اللہ کی رضا کے لئے ہر عمل کرے۔ جی اللہ کی رضا کے لئے… اور یہ غلط نہیں اس در پر پہنچ کر میرا یہ تجزیہ بھی ہے کہ بندہ واقعی میں ’’بندہ‘‘ بن جاتا ہے۔ اللہ کی عبادت تو کرتا ہی ہے لیکن اس کے کردار و عمل میں بھی بندگی و عاجزی ٹپکتی ہے، خوش اخلاقی، مروت، مدد کرنا، ہمدردی جیسی خوبیاں مجھے مکے اور مدینہ کے زائرین میں نظر آئیں۔ کاش ہم عام زندگی میں بھی ان خوبیوں سے اپنی زندگی کو آراستہ کرلیں۔

تو حقیقتاً اسلامی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ یا اللہ اس در کی برکتوں سے ہمیں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے محفوظ رکھ (آمین ثم آمین یا رب العامین)

حصہ