احساس

393

سارہ بہت دیر سے جُزبز ہو رہی تھی۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ چھوٹے عمیر کے سردیوں کے کپڑے آنے تھے، اسے اپنا پرانا جیولری کا سیٹ تبدیل کروانا تھا۔ اتنے عرصے سے سینڈل لینے کا سوچ رہی تھی مگر ان کا معاملہ بھی لٹکا ہوا تھا۔ جب سے انتظار کرکے اب مہینہ شروع ہوتے ہی اس نے نعیم سے فرمائش شروع کردی۔ مگر ہائے قسمت‘ اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا جب نعیم نے کہہ دیا کہ فی الحال پرانی چیزوں پر قناعت کرو۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دیور نے کالج میں داخلہ لیا تھا، اس کی فیس بھی نعیم کی جیب سے جانی تھی۔ نند کے اسکول میں کوئی خاص پروگرام آرہا تھا اُس کے لیے بھی خرچہ نعیم کو دینا تھا۔ گھر میں رنگ روغن ہونا تھا، وہ بھی نعیم کے سر تھا۔
’’ہونہہ… ساری دنیا کا ٹھیکہ ایک انہوں نے ہی لے رکھا ہے… یہ نہیں دیکھتے کہ بیوی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں… اور یہ ساس اماں بھی! بس آئے دن اپنے بچوں کے خرچے کے لیے پیسہ لیے جاتی ہیں۔‘‘
سارہ بڑبڑاتے ہوئے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ ابھی اپنی سوچوں میں ہی الجھی ہوئی تھی کہ دھڑ سے دروازہ کھلا اور نعیم آکر بیڈ پر دراز ہوگیا۔ سارہ نے چنداں پروا نہ کی۔
’’خیریت ہے؟ یہ صبح ہی صبح منہ کیوں سوجا ہوا ہے؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔
’’بس رہنے دیجیے، بہت ہوگئی، کچھ اپنے بچوں کا بھی خیال کرلیں، ہر وقت اپنے بہن بھائیوں کو ہی خرچا دیے جاتے ہیں اور مجھے انکار کردیتے ہیں۔‘‘
’’تو تمہارا کیا مطلب ہے…! ان کی تعلیم بیچ میں چھوڑ دوں…؟ میں ہی بڑا ہوں اور میں اُن کی ضروریات پوری نہیں کروں گا تو کون کرے گا!‘‘
’’یہ کوئی آج کی بات نہیں… روز کا مسئلہ ہے۔ بس میرا بھی فیصلہ سن لیجیے، اتنے کم پیسوں میں گزارا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس ایک کمرے میں رہا جاتا ہے… مجھے الگ گھر چاہیے۔‘‘ سارہ نے کھری کھری سنا دیں۔
نعیم ہکا بکا رہ گیا۔ ’’تم ہوش میں ہو؟ امی جان اور باقیوں کا کیا ہوگا؟ اور میری جیب اتنی اجات نہیں دیتی کہ الگ گھر لے کر دوں۔‘‘ نعیم نے غصے سے جواب دیا۔
اماں بی کے کانوں میں بھی سارہ اور نعیم کے جھگڑے کی آواز پہنچ گئی، وہ ٹھٹھک کر رہ گئیں۔ ’’تین بچوں کو بیوگی میں پالا، اور جب بڑا بیٹا خودکفیل ہوگیا تو…‘‘
نعیم کمرے سے نکلا تو اس کا موڈ سخت آف تھا۔ وہ اماں کو اس سے بے خبر رکھنا چاہتا تھا، مگر سارہ نے بھی شاید عزم صمیم کرلیا تھا۔ اسی دن دوپہر کو فون کرکے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلوایا اور عمیر کو لے کر چل دی۔ جاتے ہوئے کہہ گئی کہ جب نیا گھر لے لیں، تو لے جایئے گا، میں اس تنگ سی کوٹھری میں نہیں رہ سکتی۔ اماںکا دل ٹوٹ گیا۔ خرچے کے جھگڑے تو چلتے رہتے تھے اور نعیم اکیلا کماتا تھا اس وجہ سے تنگی بھی آجاتی تھی، مگر سارہ کو ہر طرح کا آرام مہیا تھا۔ جب سیر کی خواہش کرتی گھمانے بھی لے جاتا، شاپنگ کا ارادہ کرتی تو کروا دیتا۔ بس اللے تللے نہیں کروائے جاتے تھے، اور شاید سارہ یہی بات برداشت نہیں کرتی۔
…٭…
سارہ اپنے میکے میں آئی تو حیران سی رہ گئی… چھوٹے بھائی کی شادی کو ابھی تین مہینے ہی ہوئے تھے۔ یہ تو اس نے بھی سنا تھا کہ اس کی بھابھی کپڑے بنانے کی بہت شوقین ہے، مگر اتنا معلوم نہ تھا جیسا کہ خود دیکھنے سے تجربہ ہوا۔
اس کی بھابھی نائلہ بڑے ذوق و شوق سے اسے اپنے سوٹ دکھا رہی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن، لیس سے لدے پھندے… غرض ہر فیشن، ہر رنگ کے سوٹ اس کے پاس جمع تھے، بلکہ سارہ کے سامنے بھی نائلہ بازار سے مزید تین جوڑے لے کر آئی۔
شام کے کھانے کے بعد سارہ امی کے کمرے میں لیٹ گئی۔ امی نے بڑی پریشانی سے کہا ’’سارہ میں کیا کروں…! یہ نائلہ تو ہر تیسرے دن بازار جاتی ہے اور ہزاروں کی شاپنگ کر ڈالتی ہے۔ گھر کے کام پورے نہیں ہوتے مگر اس کے سوٹ ضرور بننے ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو بیٹا ہے اور اس کی ساری تنخواہ یونہی چلی جاتی ہے۔ کون سمجھائے نائلہ کو؟‘‘ امی بہت متفکر تھیں کیوں کہ چھوٹی بیٹی سلمیٰ کا بھی جہیز تیار کرنا تھا، مگر لگتا تھا کہ پیسے رکتے ہی نہیں۔
’’امی آپ فکر نہ کریں، میں بھائی سے بات کروں گی کہ وہ نائلہ کو سمجھائیں۔ ورنہ میں خود اسے سمجھائوں گی۔‘‘ سارہ نے تو یہ کہہ کر امی کو تسلی دی مگر خود اس کے دل میں ہلچل مچ گئی۔
’’میں بھی تو نعیم کے ساتھ یہ سلوک روا رکھتی ہوں۔ اس کی والدہ پر کیا بیتتی ہوگی؟ اور اب جب کہ میرا یہ مطالبہ ہے تو…‘‘ اس سے مزید سوچا نہ گیا۔ ایک احساس نے اس کی آنکھوں کے پردے ہٹا دیے تھے۔
…٭…
’’ہیلو نعیم! میں سارہ بات کررہی ہوں۔ آپ شام کو آیئے گا، کھانا ہے امی کی طرف… پھر میں آپ کے ساتھ واپس آجائوں گی۔‘‘
نعیم حیران بھی تھا اور شکر گزار بھی کہ اس کا گھر کسی بڑی جنگ سے بچ گیا۔

حصہ