میری ماں

587

’’امی تمہارا انتظار کررہی ہیں آپی!‘‘
یہ الفاظ میرے بھائی کے تھے جس نے امی کی طبیعت کا بتایا۔
میں دو دن سے بیمار تھی اور امی کو دیکھنے اسپتال نہ جا سکی تھی۔ فوراً اپنے شوہر کے ساتھ اسپتال پہنچی جہاں میری جنت، میری امی اپنے رب سے ملنے کی تیاری میں تھیں۔ میں نے جاکر ان کو پکارا، وہ بے ہوشی کی حالت میں تھیں۔ میں نے ان کے سرہانے سورہ یاسین کی تلاوت کی۔ امی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا کہ نہ جانے اب یہ مہربان لمس پھر کبھی میسر ہوگا کہ نہیں۔
امی کو اللہ حافظ کہہ کر اسپتال سے گھر آنے کے لیے نکلی تو راستے میں ہی فون آگیا کہ امی کی مطمئن روح رب کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئی۔
یہ 22 جولائی 2004ء، جمعرات رات 8 بجے کا وقت تھا، امی کی شدید خواہش تھی کہ ان کی نماز جنازہ، جمعہ کی نماز میں ادا کی جائے اور الحمدللہ ان کی یہ خواہش اللہ نے پوری کی۔
آج اس مہربان ہستی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال ہوگئے ہیں لیکن مجھے ہمیشہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میری امی میرے ساتھ ہیں، خاص کر جب میں کسی پریشانی میں ہوتی ہوں یا مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ خواب میں مجھے تسلیاں دیتی ہیں۔
میری امی جان اپنے نام کی طرح احسان کرنے والی تھیں، انتہائی خوب صورت، خوب سیرت اور تہجد گزار تھیں، ہر ایک سے عزت سے ملنے والی، بہت سخی، خاموشی سے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی تھیں۔ انتہائی مہمان نواز، بزرگوں کی خدمت کرنے والی، صابرین اور شاکرین کی عملی تفسیر تھیں۔
جب ان کی شادی ہوئی تو دونوں خاندانوں کے اسٹیٹس میں بہت فرق تھا، میری والدہ کا تعلق متمول گھرانے سے تھا جب کہ والد صاحب ایک سرکاری ملازم کے پڑھے لکھے بیٹے تھے۔ دونوں گھرانوں کے طرز زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لیکن امی نے کبھی ابو سے کسی قسم کی شکایت نہیں کی اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔
والد صاحب سے ان کا تعلق صرف شوہر اور بیوی کا نہیں تھا بلکہ وہ ان کی بہترین دوست، بہترین مشیر اور بہترین معاون بھی تھیں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ ’’زندگی پھولوں کی سیج نہیں، اس میں نشیب و فراز بھی آتے رہتے ہیں‘‘ تو والد صاحب کی زندگی میں بھی بہت اتار چڑھاؤ آئے مگر امی نے اپنی 31 سالہ ازدواجی زندگی میں قدم قدم پر اُن کا ساتھ دیا۔ دونوں کے درمیان بے پناہ محبت اور عزت و احترام کے رشتے کے ساتھ ساتھ ایک ظریفانہ سی بے تکلفی بھی تھی جس کی وجہ سے گھر کا ماحول خوش گوار رہتا تھا، اور اگر کبھی کوئی نوک جھونک ہوجاتی، جو کہ شادی شدہ زندگی کا حسن ہوتی ہے، تو ہمیشہ منانے میں پہل ابو کیا کرتے تھے، کیوں کہ وہ ہمیشہ امی کی فہم و فراست اور خوبیوں کے معترف تھے۔ انھوں نے گھر کے تمام اختیارات امی کو دے رکھے تھے۔ رشتے داروں سے ملنا ملانا ہو یا شاپنگ کرنا ہو، عید، بقرعید پر دعوتوں کا اہتمام ہو یا شادی بیاہ میں دینا دلانا، یعنی گھر کے سارے اندرونی اور بیرونی معاملات امی کے حوالے تھے، اور یہ تمام ذمے داریاں وہ بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتی تھیں۔ ابو اسی لیے انہیں ’’ہوم منسٹر‘‘ کہا کرتے تھے۔
کہتے ہیں اچھی بہو بننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے لیکن میری امی وہ خوش نصیب خاتون تھیں جو کہ سسرال میں بھی ہردل عزیز تھیں۔ حالانکہ ان کو ہم سے رخصت ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی میری ددھیال والے ان کی تعریف کرتے ہیں۔ امی کی تعریف سن کر میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔
کہتے ہیں ’’جو اللہ سے محبت کرتا ہے، اللہ لوگوں کے دلوں میں اُس شخص کی محبت ڈال دیتا ہے۔‘‘ میری امی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اپنے اور غیرسبھی اُن سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے ہم دونوں بہن بھائی کی تعلیم و تربیت بہت صبر و شکر کے ساتھ کی۔ اپنی اولاد سے انہیں محبت نہیں بلکہ عشق تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں شادی کے بعد اُن سے ملنے جاتی تھی تو وہ کہتی تھیں ’’میری چڑیا گھر سے چلی گئی تو چڑیوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا۔‘‘
میری شادی کے بعد وہ صرف چار سال حیات رہیں۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر صرف 45 برس تھی۔ اپنی امی کے ساتھ گزرے ہوئے شب و روز میری زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہیں۔ اگر میں لکھنا چاہوں تو ان پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ میری امی جان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما دے اور مجھے ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنا دے، آمین۔

حصہ