قیصرو کسریٰ قسط(85)

330

وہ جلدی سے اُٹھ کر باہر نکل آئے۔ عاصم اُن کے قریب پہنچ کر ہانپتے ہوئے گھوڑے سے اُتر پڑا اور غلام نے بھاگ کر اُس کی باگ پکڑلی۔ عاصم نے آگے بڑھتے ہوئے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ مذاق کرتے تھے۔ یہ گھوڑا میری توقع سے کہیں زیادہ شریف ثابت ہوا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم آج میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ یہ گھوڑا تمہیں پسند آجائے، یہ اب تمہارا ہے‘‘۔
عاصم نے احسان مندی سے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’اگر آپ نے میرے لیے اتنی تکلیف اُٹھائی ہے تو میں اپنے آپ کو ناشکر گزار ثابت نہیں کروں گا‘‘۔
رات کے وقت جب عاصم اور فرمس اپنی سرائے کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے تو عاصم اُس سے کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے واقعی اِس گھوڑے کی ضرورت تھی اور آپ حیران ہوں گے کہ جب میں اس پر سوار ہو کر باہر نکلا تو میں نے قسطنطنیہ میں آنے کے بعد پہلی بار یہ بات محسوس کی کہ میں تلوار کے بغیر کہیں جارہا ہوں‘‘۔
ایک ماہ بعد ہر قلیہ کی چہل پہل دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بازنطینی سلطنت کا پرشکوہ بھی پھر لوٹ آیا ہے۔ ہرقل جس کے متعلق آخری دم تک اُس کی رعایا کو یہ اطمینان نہیں تھا کہ وہ قسطنطنیہ کے قلعے سے باہر نکلنے پر آمادہ ہوجائے گا، ملاقات کی تاریخ سے ایک ہفتہ قبل ہرقلیہ پہنچ چکا تھا، اور اُس کے اِس جرأت مندانہ اقدام نے مایوس اور بددل عوام کے حوصلے بلند کردیے تھے، چناں چہ وہ جوق در جوق ہرقلیہ میں جمع ہورہے تھے۔ شہر سے باہر اولمپک کھیلوں کے میدان میں رتھوں کی دوڑ اور دوسرے قومی کھیلوں کی مشق شروع ہوچکی تھیں۔ باہر سے آنے والے کھلاڑی اور تماشائی جن کے لیے شہر میں جگہ نہ تھی، اِس میدان کے آس پاس خیمے نصب کررہے تھے۔ شہر کے اندر اور باہر جگہ جگہ اُن گویوں، رقاصائوں، نقالوں اور بازی گروں نے اکھاڑے لگا رکھے تھے، جنہیں برسوں کے بعد ایک پرامن ماحول میں اپنے کمالات دکھانے کا موقع ملا تھا۔ سیکڑوں پادری اور راہب وہاں پہنچ کر قیصر کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔
عاصم اور ولیریس ہرقل سے ایک دن قبل وہاں پہنچ گئے تھے، لیکن مرقس اُن سات قابل اعتماد معززین میں سے ایک تھا، جنہیں قیصر نے اپنی غیر حاضری کے ایام میں دارالحکومت کے دفاعی اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی تھی۔
عاصم کو ہرقلیہ پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک مغموم فضا سے نکل کر مسکراہٹوں اور قہقہوں کی دنیا میںد اخل ہوچکا ہے۔ اُس نے بڑی بڑی فتوحات کے بعد ایرانی لشکر کو جشن مناتے دیکھا تھا۔ لیکن ہرقلیہ میں جمع ہونے والوں کی گرمجوشی اُس کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ عاصم دن کے وقت کبھی قیصر کے محافظ دستوں کی پریڈ، کبھی پہلوانوں کی شہ زوری کے کرتب اور کبھی رتھوں کی دوڑ دیکھتا او رات کے وقت ولیریس کے ساتھ رقص اور موسیقی کی محفلوں میں چلا جاتا۔ کلاڈیوس عام طور پر قیصر کی حفاظت کے انتظامات کی دیکھ بھال یا کھیلوں کے میدان کو آراستہ کرنے اور اونچی حیثیت کے مہمانوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے میں مصروف رہتا تھا، اس لیے اُسے عاصم کے پاس بیٹھنے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔
ایک رات وہ تھکا ہارا اپنی قیام گاہ میں داخل ہوا، تو عاصم تنہا ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ کلاڈیوس نے پوچھا۔ ’’عاصم اکیلے یہاں کیا کررہے، ولیریس کہاں ہے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’وہ ابھی تک رقص دیکھ رہا ہے اور میں واپس آگیا ہوں‘‘۔
’’کیوں، تمہیں رقص پسند نہیں آیا؟‘‘۔
’’نہیں، رقص تو بہت اچھا تھا، لیکن مجھے کبھی کبھی لوگوں کے ہجوم سے وحشت ہونے لگتی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے اُس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم میں بہت تھک گیا ہوں۔ کاش قیصر اور خاقان کی ملاقات سے کوئی اچھا نتیجہ برآمد ہوسکے، ورنہ یہ لوگ اپنے مستقبل سے قطعاً مایوس ہوجائیں گے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’یہ خیال مجھے بھی بہت پریشان کرتا ہے۔ مجھے لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دشمن کے ساتھ صلح کی بات چیت کی بجائے کسی بہت بڑی فتح کے جشن کی تیاریاں کررہے ہیں۔ آج نقالوں کے ایک اکھاڑے میں جمع ہونے والے لوگ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے اور اُن کے قہقہے میرے کانوں کو اجنبی محسوس ہوتے تھے۔ کلاڈیوس میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر صلح اور امن کے متعلق اُن کی توقعات غلط ثابت ہوئیں یا خاقان نے یہاں آنے سے انکار کردیا تو یہ کتنا بڑا سانحہ ہوگا۔ اگر ان سادہ دل انسانوں کو جنگ کے آلام و مصائب سے نجات دلانا میرے بس کی بات ہوتی تو میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتا۔ آج رقص و سرور کی محفلوں کے قریب سے گزرتے ہوئے میں جنگ کی ہولناکیوں کا تصور کررہا تھا اور مجھے طائوس و رباب کے نغموں کی بجائے بے بس انسانوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ میرے لیے وہاں کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا۔ ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر آوار کے خاقان نے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو ایرانیوں کو آبنائے باسفورس عبور کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ پھر جب یہ دوخطرناک طاقتیں ایک دوسرے کی حلیف بن کر قسطنطنیہ پر یلغار کریں گی تو کیا ہوگا؟‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں اُس دن زندہ نہیں ہوں گا۔ اور میرے کان اپنی بہنوں اور بھائیوں کی چیخیں نہیں سنیں گے۔ عاصم ایک انسان کی بے بسی اپنی انتہائی صورت میں خود فریبی کو جنم دیتی ہے اور میں سردست اس خود فریبی میں مبتلا رہنا چاہتا ہوں کہ قیصر اور خاقان کی ملاقات سے ہماری تقدیر بدل جائے گی۔ اور صرف میں ہی نہیں بلکہ میری ساری قوم اس خود فریبی میں مبتلا رہنا چاہتی ہے‘‘۔
عاصم کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا، بالآخر اُس نے کہا۔ ’’آج دُنیا کا ہر مظلوم اِس خود فریبی میں مبتلا ہے کہ اُس کی مظلومیت کے دن بیت چکے ہیں اور ہر ظلم اِس یقین کے ساتھ اپنی تلوار بے نیام کرچکا ہے کہ مظلوموں کی تقدیر ہمیشہ اُسی کے ہاتھ میں رہے گی اور عدل و انصاف کے جو دروازے اُس نے اپنے طاقتور ہاتھوں سے بند کیے ہیں، وہ ہمیشہ بند رہیں گے۔ لیکن وہ کہاں ہے؟ کب آئے گا؟ ظالم اُسے کب تک للکارتے رہیں گے اور مظلوم کب تک اس کی راہ دیکھتے رہیں گے؟‘‘۔
’’وہ کون؟‘‘۔ کلاڈیوس نے پریشان سا ہو کر پوچھا۔
عاصم نے چونک کر کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔ ’’مجھے فرمس کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ کسی دن امن کا ایک داعی نمودار ہوگا اور اُس کے ساتھ خدا کی نشانیاں ہوں گی۔ وہ انسانوں کو زندگی کے نئے آداب سکھائے گا۔ اُس کا رحم مظلوموں کی ڈھال ہوگا اور اُس کے جلال کے سامنے ظالموں کی گردنیں جھک جائیں گی‘‘۔
کلاڈیوس مسکرایا…’’اس قسم کی باتیں انطونیہ بھی کیا کرتی ہے۔ اور میں اُس سے یہ کہا کرتا ہوں کہ جب وہ آئے گا تو ہم دونوں دوڑ کر اُس کے پائوں سے لپٹ جائیں گے‘‘۔
دو دن بعد قیصر اور خاقان ایک کشادہ شامیانے کے نیچے سونے کی مرصع کرسیوں پر رونق افروز تھے۔ ماہ دسمبر کی سردی کے باوجود کھیلوں کے میدان میں غیر معمولی چہل پہل تھی۔ قیصر کے بائیں ہاتھ خاقان کے بعد چند آوار سرداروں کی کرسیاں تھیں اور دائیں طرف اُس کے وزراء، بڑے بڑے عہدہ دار اور سینٹ کے ارکان بیٹھے ہوئے تھے۔ پچھلی قطاروں میں مہمانوں اور میزبانوں کو اس قرینے سے بٹھایا گیا تھا، کہ ہر سیتھین کے ساتھ ایک رومی نظر آتا تھا۔
ہرقل اور خاقان کی کرسیوں کے عین پیچھے کچھ جگہ خالی تھی اور وہاں کلاڈیوس کے علاوہ دو رومی اور دو آوار کھڑے تھے۔ اس مرکزی شامیانے کے دائیں بائیں چند قدم کے فاصلے پر دو اور شامیانے نصب تھے اور یہاں نسبتاً کم درجہ کے سیتھین اور رومی بیٹھے ہوئے تھے اور باقی میدان کے گرد تماشائیوں کا ہجوم گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔
خاقان اپنے ساتھ قریباً تین سو سوار لے کر آیا تھا۔ رومیوں نے ان سب کو شامیانوں کے نیچے بٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن خاقان کے آدمیوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے گھوڑے رومیوں کے حوالے کرنا پسند نہ تھے۔ چناں چہ اُن میں سے قریباً ایک سو شامیانوں کی طرف چلے گئے۔ باقی سواروں نے نیچے اُترے بغیر اپنے ساتھیوں کے خالی گھوڑوں کی باگیں پکڑ لیں اور اِدھر اُدھر پھیل کر تماشائیوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ رومیوں نے گھوڑوں کو میدان سے باہر باندھنے کا انتظام کر رکھا تھا، لیکن خاقان کے آدمیوں کو اپنے گھوڑوں کے ساتھ رہنے پر بضد دیکھ کر انہوں نے زیادہ اسرار کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ کھیلوں کا آغاز روم اور یونان کی قدیم رسم کے مطابق ایک نمائشی پریڈ کے ساتھ ہوا۔ سب سے پہلے سوار اور پیادہ فوج کے دستے مارچ کرتے ہوئے قیصر اور اُس کے معزز مہمانوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ اس کے بعد شوخ و طرار دوشیزائیں ناچتی، گاتی اور مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرتی ہوئی گزر گئیں۔ اُن کے پیچھے پہلوانوں اور مسخروں کے گروہ نمودار ہوئے، سب سے آخر میں اُن رتھوں کی نمائش شروع ہوئی، جن کی دوڑ کو قدیم یونانیوں کی طرح رومیوں کے قومی کھیلوں میں بھی ایک اہم ترین مقام حاصل تھا۔ ہر رتھ کے ساتھ چار چار گھوڑے جُتے ہوئے تھے۔ اور اُن کے سوار انتہائی شوخ رنگوں کے بیش قیمت لباس پہنے ہوئے تھے۔ آوار کا لباس میلے کچیلے کپڑوں، بدبودار پوستینوں اور سمور دار ٹوپیوں پر مشتمل تھا، اور اُن کا مہیب صورت خاقان بھی ایک غریب رومی کے مقابلے میں مفلس نظر آتا تھا۔ یہ لوگ للچائی ہوئی نگاہوں سے کبھی کھلاڑیوں کی اور کبھی اپنے قریب بیٹھے یا کھڑے ہونے والے رومیوں کی زرق برق پوشاکیں دیکھ رہے تھے۔
عاصم اور ولیریس کو بائیں طرف کے شامیانے کے نیچے جگہ ملی تھی۔ اور اُس کے درمیان ایک دیوقامت سیتھین کے ساتھ ایک پتلا دُبلا رومی بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک عاصم کی نگاہ ایک اور سیتھین کے چہرے پر مرکوز ہو کر رہ گئی جو ولیریس کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے عجیب و غریب لباس کے باوجود عاصم کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اُسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہے۔ ایک ثانیہ کے اندر اندر اُس کے شبہات یقین کی صورت اختیار کرچکے تھے۔ اس آدمی کی شکل ایرج سے اس قدر ملتی تھی کہ اگر وہ ایرانی لباس میں ہوتا تو عاصم اُسے پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے سے بھی پہچان لیتا۔ لیکن موجودہ حالات میں اُسے ایرج کا یہاں پہنچ جانا بعید ازقیاس معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس مشابہت کو محض ایک اتفاق سمجھ کر کھیلوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ سیتھین عاصم کی طرف متوجہ ہوچکا تھا، لیکن جب عاصم نے اچانک اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے خوفزدہ ہو کر منہ پھیر لیا۔
(جاری ہے)

حصہ