قرآن کی امتیازی خصوصیات

337

قرآن کو جس کسی نے بھی توجہ سے پڑھاہو، وہ اس کی ایک خصوصیت سے ضرور حیرت زدہ ہوگا اور یہی خصوصیت اسے دنیا بھر کی لاکھوں کروڑوں کتابوں سے الگ ایک مقام امتیازی عطا کرتی ہے۔

کتابِ لاریب
ہمارے سامنے یہ واحد کتاب ایسی ہے جس میں کہیں کسی مقام پر کوئی بات شبہے کے انداز میں نہیں کہی گئی۔ کوئی اصول ، کوئی حکم، کوئی تجزیہ اور کوئی تبصرہ اس میں ایسا دکھائی نہ دے گا جس کے پیچھے تذبذب کار فرما ہو۔ ہر بات یقین وتحدّی کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک فقرہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے مصنف کو اس بات کا قطعاً کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے کہ اس کی کسی بات کو جھٹلایا بھی جا سکتا ہے۔ کہیں کسی سطر میں کوئی ایسی کمزوری نہیں جھلکتی ، جیسی بالعموم انسانی تصانیف میں پائی جاتی ہے۔ کوئی ایسا موقع نہیں آتا ، جہاں یہ محسوس ہو کہ مصنف نے خوب صورت لفظوں اور نگارش کا پردہ ڈال کر اپنی کسی کوتاہی کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ، کتابِ حق اور کتابِ یقین ہے، اِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(الحاقۃ ۶۹:۵۱)، اور آغاز ہی میں کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہہ دیا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ (البقرہ ۲:۲)۔

اس میںکہیں کوئی تضاد نہیں ملتا۔ ہر بات جو اس میں درج ہے وہ دوسری باتوں کی مؤیّد ہے اور دوسری باتیں اس کی مؤیّد ہیں۔ حالانکہ بہترین مفکرین ومحققین اور ادبا وشعرا کے مرتب کردہ جو دفتر ہمارے سامنے ہیں ان میں سے کوئی اعلیٰ ترین نگارش بھی اس عیب سے پوری طرح منزہ ومبرّا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی مقامِ تضاد ضرور آئے گا، جب کہ قرآن میں کہیں ایسی ذہنی اُلجھنیں منعکس نہیں ہوتیں ۔ کہیں کوئی ابہام نہیں ملتا ،کسی مقام پر فراریت کا رجحان نہیں پایا جاتا۔

یہ کتاب تفریحی لٹریچر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق ومعاملات سے بحث کرتی ہے اور وہ بھی سنجیدہ اور باوقار انداز سے ، مگر اس کے باوجود یہ ادب پارہ اور انتہائی مؤثر دل نشین کلام بھی ہے جو اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے تمام تر نصیحت ہونے کے باوجود اس خشک روی سے مبرّا ہے جو ناصحین کی تحریر وتقریر کا خاصہ ہے۔ ایک ایک لفظ موتیوں کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ایک ایک سطر شاخِ گل ہے اور ایک ایک سورت خیابانِ بہار ! مگر حُسنِ بیاںکے اتنے ضخیم مجموعے میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ نگارش اصل مقصد کی راہ سے ذرّہ برابر ادھر اُدھر ہو جائے اور آرٹ کی لذت وکشش قاریِ کتاب کو اپنی رو میں بہا لے جائے۔ کوئی ایک جملہ تو کجا،ایک لفظ نہیں جسے ’ادب براے ادب‘ قرار دے کے مقصدی ضرورت سے زائد قرار دیا جا سکے۔

اس کتاب کی شان یہ بھی ہے کہ اگرچہ اس کا مرکزی موضوع اور اس کے تفصیلی مباحث نہایت سنجیدہ نوعیت رکھتے ہیں اور انھی مباحث پر جب کبھی انسانی قلم حرکت میں آتا ہے تو وہ اندازِبیان پیدا ہوتا ہے جو فلسفہ وقانون کی کتابوں میں پایا جاتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اس کتاب کے اسلوب میں حلاوت ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آدمی پر سوز وگداز اور رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ قاری نے اگر دل کے دروازے بند نہ کر رکھے ہوں تو وہ اس کلام کی مرعوبیت اپنے اوپر طاری ہوتی محسوس کرتا ہے، بالآخر اس کی روح بالکل سربسجود ہو کر رہ جاتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو لوگ اس کے معانی سمجھے بغیر پڑھتے ہیں، وہ بھی اس کی نثر کا حُسن، عبارت کی موزونیت ، الفاظ کی نشست اورصوتی نغمگی میں ڈوب کر بے اختیار گریاں ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ کہ اس کتاب میں معافی ومطالب کے ساتھ مرتب الفاظ واصوات کا معجزانہ امتزاج ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔

چنانچہ اس کتاب نے اپنے مخالفین و منکرین کو ایک سے زیادہ بار چیلنج کیا کہ ایسی کوئی سورت یا چند آیتیں ہی مرتب کر کے دکھادو۔ ایک آدمی نہیں بہت سے آدمی مل کر اپنی کاوشیں مجتمع کرلیں اور قرآنی ادب کاجواب پیش کر دکھائیں ۔ یہ چیلنج جس کو چودہ سو سال میں کوئی بھی قبول نہ کرسکا آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے اور آج بھی دنیا بھر کے انسان اپنی مجموعی قابلیتوں اور تخلیقی قوتوں کو جمع کر کے قرآنی اندازِ نگارش اور معیارِ کلام کا جواب نہیں دے سکتے۔

اس کتاب کی یہ ایسی خصوصیات ہیں جو اس کے دعوے کو برحق ماننے پر ہر معقول اور خوش ذوق آدمی کو مجبور کر دیتی ہیں، کہ اس کتاب کا مصنف کوئی انسان نہیں بلکہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہے۔

کتاب العلم
قرآن ان معنوں میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب نہیں ہے جن معنوں میں عیسائیوں، یہودیوں، ہندوئوں اور دوسرے مذہبی گرہوں نے مذہب کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے ۔ فی الحقیقت قرآن ایک مکمل دین پیش کرتا ہے۔ یہ گویا زندگی کی کتابِ ہدایت (Guide Book ) ہے۔ اس میں ایک نظامِ تہذیب کا خاکہ دیا گیا ہے۔ اس نظامِ تہذیب کو چلانے کے لیے جیسی حکومت کی، اور اسے قائم کرنے کے لیے جیسی تحریک کی ضرورت ہے، اس کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر مطلوبہ ریاست اور تحریک کے لیے جیسی جماعت وتنظیم اور جیسے انسانوں کی ضرورت ہے، ان کا معیار پیش کیا گیا ہے۔

اس کتاب کا موضوع انسان ہے اور یہ انسان کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کرتی ہے۔ اس میں زندگی کو ایک وحدت اور ایک کُل مان کر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب ایک مخصوص طرز کی سو شیالوجی (سماجیات ) کی کتاب ہے اور ایک مکمل سوشل سسٹم یا نظامِ اجتماعی ہمارے سامنے رکھتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قرآن عدلِ اجتماعی کا ایک جامع فارمولا ہے۔ ایسی کتاب میں قدرتی طور پر ہر شعبۂ زندگی اور ہر علم کے بارے میں بحث ہونی چاہیے، لیکن یہ کتاب ہماری مروجہ تقسیم علوم کے مطابق کسی خاص جزوی علم کی کتاب نہیں ہے،بلکہ اس میں تمام علوم پر حاوی ہو جانے والا اور تمام علوم کو چند اٹل بنیادی حقائق اور اصولوں کے ذریعے منضبط اور ہم آہنگ کرنے والا علم پیش کیا گیا ہے، جسے اس کتاب نے اصطلاحاً ’العلم‘ ( The Knowledge) قرار دیا ہے، یعنی وہ علمِ ہدایت جو انسانی زندگی کی مجموعی فلاح کے لیے ناگزیر بنیادی علم ہے۔ وہ رہنما علم جو تمام علوم کواور انسانی قافلہ ہاے افکار کو درستی پر قائم رکھتا ہے اور انھیں بھٹکنے سے روکتا ہے۔

قرآن جس ’ العلم‘ پر مشتمل ہے اس میں ایک تو وہ اساسی صداقتیں شامل ہیں جن پر یہ کائنات چل رہی ہے اور جن کے تحت زندگی کا ظہور اور نشوونما ہوا ہے ، دوسرے وہ تاریخی اصول ہیں جن کے تحت قوموں کا عروج وزوال واقع ہوتا ہے، اور تیسرے وہ اخلاقی ضابطے ہیںجن سے فرد اور معاشرے کی زندگی سنورتی ہے اور جن کو ترک کرنے سے اس میں فساد واقع ہوتا ہے۔ وہ ضابطے جو اس کی زندگی کو کائنات کے حقائق سے ہم آہنگ اور اسے خدا کی رضا اور خوش نودی کا سزاوار بناتے ہیں ۔

الفرقان
اس کتاب کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حق وباطل ، خیر وشر ، اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز قائم کرنے والی ہے۔ چنانچہ خود اس نے اپنے آپ کو ’الفرقان ‘ کہا ہے ۔ سورۂ فرقان میں ارشاد ہے:

تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَانِ (الفرقان ۲۵:۱) خداے عزوجل ، بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندۂ خاص (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) پر فیصلے کی کتاب قرآن نازل کی تا کہ اہلِ عالم کو متنبہ کرے (ڈرائے) ۔

اسی حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے:
اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ o (الطارق ۸۶:۱۳ ) یہ ایک جچی تُلی بات ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا :
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶)، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

قرآن اپنے دلائل کو اسی لیے (بیّنہ ) اور ’بینّات ‘ اور اپنے مندرجات کو ’آیاتِ بینّات‘ کہتا ہے اور ’تبیین ‘ کو اپنی غایت اور فریضۂ نبوت قرار دیتا ہے۔ وہ طریقۂ تلبیس کا سخت مخالف ہے۔ قرآن حق وباطل اور نیکی اور بدی کے درمیان کسی سمجھوتے اور سودے بازی کا قائل نہیں ۔ وہ اضداد کے مرکبات سے کوئی نظامِ علم وحکمت یا ضابطۂ مذہب واخلاق مرتب نہیں کرتا۔

انسان کم ہی خالص جھوٹ ، ظلم اور بدی محض کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کم ہی ایسا ہو گا کہ وہ خالص جھوٹ اور ظلم وشر کی دعوت قبول کرے۔ وہ ہمیشہ مرکبات بناتا ہے۔ مرکبات کی طرف بلاتا ہے، اور مرکبات ہی سے مغالطہ کھا کر انھیں دوسروں سے قبول کرتا ہے۔
قرآن کا جب نزول ہوا تو اس نے اپنے دور کے رائج الوقت فکری ، اعتقادی اور اخلاقی مرکبات واضداد کا تجزیہ کر کے خیر وشر کو الگ الگ نتھار دیا، مثلاً یہود کی مذہبی واخلاقی زندگی کے ہرگوشے میں اجتماع ضدّین کے جو تجربات معمول بن چکے تھے، ان کا اس نے بڑا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان سے صاف صاف کہا تھا کہ :

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ(البقرہ۲: ۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو۔

الغرض قرآن حقائق کو نتھار دینے والی اور ضد کو چھانٹ کر الگ کر دینے والی کتابِ مبین اور کتابِ مہیمن ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے جا بجا تقابلی انداز اختیار کیا ہے ۔ ایمان اور کفر کو ، توحید اور شرک کو ، خلوص اور نفاق کو، بہادری اور بزدلی کو، آخرت پسندی اور دنیا پرستی کو، حق اور باطل کو، عدل اور انصاف کو، اطاعت اور انحراف کو، فحاشی اور حیا کو، سخاوت اور بخل کو، اسراف اور انفاق کو، نفسانیت اور ایثار کو، ایک دوسرے کے آمنے سامنے رکھ کر ان کے اثرات و نتائج پر بحث کی ہے۔

اعتقادی اور اخلاقی مسلکوں کے ساتھ ساتھ اس نے ان سے آراستہ تاریخی کرداروں کو بھی تقابلی انداز سے پیش کیا ہے اور پچھلی ساری انسانی تاریخ کا مطالعہ اسی انداز سے کرایا ہے کہ متضاد کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے نمایاں ہوں اور اچھے اور برے کو پہچانا جائے۔ آدم ؑ وابلیس ، ہابیل وقابیل ، نوحؑ اور فرزند ِ نوح، ابراہیم ؑ اور نمرود ، حضرت یوسف ؑ اوربرادرانِ یوسف ؑ ، اور ساتھ ہی عزیز مصر اور اس کی بیوی، حضرت لوط ؑ اور ان کی بیوی ، حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون، حضرت عیسیٰ ؑ اور فقیہوں اور فریسیوں کے کردار تقابلی انداز سے لائے گئے ہیں۔ قرآن نے پسرِ نوح کے بالمقابل پسرِ ابراہیم اور امراۃِ لوط کے بالمقابل امراۃِ فرعون کا نمونہ اس طرح رکھا ہے کہ قاری کا دل ادھر بے اختیار جھک جاتا ہے جدھر خیرو خوبی پائی جاتی ہے۔ رشد وغنی کی راہیں سامنے آ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کی لوح پر اسلام لکھا ہے اور دوسرے پر جاہلیت کا تختہ آویزاں ہے۔

اپنے اس اسلوب سے قرآن قاری کو اپنے انسانِ مطلوب سے متعارف کراتا ہے۔ اپنے انسانِ مطلوب کو مخالف عنصر کے بالمقابل مختلف زمانوں میں ایک مخصوص تاریخی پارٹ ادا کرتے ہوئے دکھاتا ہے۔ پھر وہ ان تمام اوصاف ِ حسنہ کے ایجابی خاکے جگہ جگہ بیان کرتا ہے جن سے اس کا انسانِ مطلوب بنتا ہے اور ان سٔیات کے خاکے بھی متقابلاً پیش کرتا ہے جن سے انسانیت کے نامطلوب کردار تیار ہوتے ہیں۔

منفرد اور جداگانہ اسلوب
قرآن کی خصوصیت میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا کی بہترین ادبی کتاب ہے۔ اس کا بالکل جدا گانہ اور نرالا اسلوب ہے، جسے ’آسمانی ادب‘ یا ’الہامی ادب ‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ قرآن کی ادبیت کا کمال یہ ہے کہ کلام کرنے والا خدا ہے اور حرفِ مدعا اسی کی طرف سے صادر ہوا ہے، مگر اندازِ کلام وہ ہے جو انسانی ذوق اور انسانی حسیّات ِ جمال اور انسانی معیارِ لطافت کے لحاظ سے ایسی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ الفاظ اور اصطلاحات روایت کے دائرے سے لیے گئے ہیں۔ تشبیہیں اور استعارے جانے پہچانے ماحول سے اٹھائے گئے ہیں ۔ انسانی لٹریچر میں بلاغت وفصاحت کے جو راستے نکالے گئے ہیں ان کو مدِ نظر رکھا گیا ہے، لیکن بحیثیت ِ مجموعی جو ادب پارہ تیار ہوا ہے وہ منفرد اور یکتا ہے۔

قرآن اگرچہ اصلاً ایک کتاب اور ایک نوشتہ ہے، مگر اس میں لطفِ خطابت بھی شامل ہے جو اُسے دُہرا حسن بخشتا ہے اور اس میں ذہنی نفوذ اور دل میں سرایت کر جانے کی کیفیت بڑھا دیتا ہے۔پھر اسی مناسبت سے اس کی ایک شان تصریف وتکرار ہے ، یعنی ایک ہی مضمون کو سورنگ سے باندھا جاتا ہے۔ تصریف وتکرار میں اگر یکسانی ہو تو کلام دلنشین ہونے کے بجاے اکتاہٹ پیدا کرتا ہے مگر قرآن کا کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں قاری اکتاہٹ محسوس کرے ۔ کہیں بات اجمال میں چھوڑ دی گئی ۔کہیں ذہن کو حرکت دلانے کے لیے محض ہلکی سی اشاریت سے کام لیا گیا ہے۔ کہیں تمثیل واستعارہ سے اور کہیں واشگاف انداز سے، کہیں چھوٹے چھوٹے جملوں اور دھیمے دھیمے الفاظ میں معانی کا بہائو پایا جاتا ہے، اور کہیں پر زور الفاظ اور پر شکوہ جملوں کی صورت میں حرفِ مدعا ایک طوفانی ریلا بن جاتا ہے جو جامد پتھروں کو ان کی جگہ سے اکھیڑ کر بہا لے جاتا ہے۔ کہیں نصیحت ہے کہ نگہتِ گل کی مانند غیر محسوس سا اثر ڈالتی ہے۔ کہیں دعوت ہے دل سوزی کے ساتھ ، اور کہیں تنقید ہے بڑی قوت کے ساتھ ۔ پھر بار بار عبارت کا مزاج بدلتا ہے، ترنم کے پیرائے بدلتے ہیں اور اس ادل بدل سے ذوق کی لطیف سطح پر خوش گوار نقوش ثبت ہوتے ہیں۔

قرآنی ادب میں سارا استدلال اگرچہ عقلی ہے مگر جذبات کی قوتِ محرکہ کی اہمیت کو کسی مقام پر نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ خالی عقل ، بے جان فلسفیت اور جامد تصورات کی طرف لے جاتی ہے۔ عملی انسان بنانے اور تاریخ کو حرکت میں رکھنے کے لیے جذبے کی قوت ناگزیر ہے۔ عقل اور جذبہ دونوں کے امتزاج ہی سے وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ایمان کہتے ہیں۔ قرآن میں آپ دیکھیں گے کہ رُلا دینے والی ، حیرت میں ڈال دینے والی ، مبہوت کر دینے والی ، خوف طاری کرنے والی ، اطمینان دلانے والی ، عزم ویقین ابھارنے والی، جوش میں لانے والی ، آمادۂ پیکار کر دینے والی اور ایثار کی اسپرٹ پیدا کرنے والی عبارتوں کی رنگا رنگ کیاریاں جا بجا پھیلی ہوئی ہیں۔ انسانی فطرت کا ہر شعبہ ان سے اثر لیتا ہے اور انسانی نفسیات کا ہر گوشہ ان سے زندگی پاتا ہے۔ تمام کے تمام جذبات وحسّیات اس ایک کتاب کے مطالعے سے حرکت میں آتے ہیں اور ایک ہی مرکزی نصب العین کے گرد مجتمع ہو جاتے ہیں۔ قرآن پورے کے پورے انسان کو حرکت میں لے آتا ہے، اس کے شعور کو بھی ، اس کے جذبات کو بھی (جائز حدود میں )، اس کی دنیوی خواہشوں کو بھی اور اس کے اخلاقی میلانات کو بھی۔ دنیا بھر کے لٹریچر میں کوئی کتاب بھی یہ کرشمہ نہیں دکھا سکتی۔

قربِ خدا
اس کتاب کی ایک عظیم الشان خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے قاری کو خدا سے قریب کر دیتی ہے اور خدا اس کے قریب آ جاتا ہے۔

خدا کا یہ تصور کہ وہ الگ تھلگ وجود ہے، جس سے انسان کا براے نام سا تعلق ہے، وہ بھی بس دُور پار کا ! قرآن پڑھتے ہی اس قسم کا محدود، کمزور اور باطل تصور مٹ جاتا ہے۔ قرآن کا خدا ایسا ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے آدمی کو وہ بالکل اپنے سامنے ، اپنے آس پاس بلکہ عین اپنے دل میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ جہانِ قرآن میں داخل ہوتے ہی قاری محسوس کرتا ہے کہ خدا کو اس سے گہرا تعلق ہے، اس سے گہری محبت ہے۔ خدا کو اس سے دل چسپی اور ہمدردی ہے۔ وہ اس کے ہرخیال کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس کے ہر کام میں حصہ لے رہا ہے۔ وہ اس کی دعائیں سنتا، اس کی پکاروں کا جواب دیتا ، اس کے کام سنوارتا، اسے خیر سے بہرہ ور کرتا اور شر سے بچاتا ہے۔ قرآن کا قاری اگر قرآن کی دعوت پر لبیک کہہ کر بدی اور ظلم کی طاقتوں کے خلاف راستی اور نیکی کی جنگ لڑنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ اس جنگ میں خدا خود اس کا ساتھی ہے۔ وہ اس کے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں اور سرپر اور سینے کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ وہ اس کا خنجرِ جہاد ہے، وہ اس کے بچائو کی ڈھال ہے، وہ اس کے بازوئوں کی قوت ہے ۔

پھر قرآن کا قاری جب موسیٰ ؑ اور یوسف ؑ کی داستانیں پڑھتا ہے، نبی آخرالزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی جدو جہد کا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اس میں یہ ایمانِ محکم پیدا ہوتا ہے ، کہ تاریخ کی جنگاہ میں خیرو شر کا جو معرکہ مسلسل بر پا رہا ہے خدا اس سے بے تعلق نہیں ہے، بلکہ پس ِ پردہ بیٹھا وہ اپنے تصرفِ خاص سے ہر دور میں ایک خاص طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ مخالف طاقتوں کو ایک خاص انجام سے دوچار کرتا ہے۔

پھر قرآن کی نگارش کا کمال ہے کہ اس کے قاری کے سامنے حشرونشر کا نقشہ ایسی وضاحت سے آتا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عرصۂ غفلت گزار کر اور فراریت کے صد ہا تجربے کر کے بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسے آخرت کی عدالت دکھائی دینے لگتی ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے موت کا دروازہ سامنے کھلا نظر آتا ہے۔ وہ عدالت جہاں نہ رشوت چلے گی، نہ سفارش کے زور سے اہل کاروں سے ساز باز کی جا سکے گی، نہ کوئی کسی کا فدیہ دے گا، نہ وکیلوں کی چرب زبانی کام آئے گی،نہ دوست اور رشتہ دار سہارا دے سکیںگے ، اور نہ رونا چیخنا ہی سود مند ہو گا بلکہ وہاں کا قانون تو بس یہ ہے کہ :

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) جس کسی نے رتی بھر بھی نیکی کی ہو گی و ہ اسے وہاں دیکھ لے گا۔ اور جس کسی نے رتی بھر بھی بدی کی ہو گی وہ بھی اسے وہاں دیکھ لے گا۔

حصہ