عبداللہ بیٹرز بی (انگلستان)
کم و بیش تیس برس قبل کا ذکر ہے میں برما میں مقیم تھا۔ کشتی میں سوار ہو کر ندیوں اور دریائوں میں گشت کرنا میرا سرکاری معمول تھا۔ کشتی کا ملاح چٹاگانگ کا ایک مسلمان شیخ علی تھا۔ شیخ علی زبردست قسم کا ملاح اور باعمل مسلمان تھا۔ نماز کا وقت آتا تو وہ سارے کام چھوڑ کر نہایت وقار اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتا۔ نیکی اور فرض شناسی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کی ان خوبیوں نے میرے دل میں اس کے لیے عزت اور عقیدت کے جذبات پیدا کر دیے تھے۔ ساتھ ہی مجھ میں یہ احساس بیدار ہونے لگا تھا کہ اس مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہییں جس نے ایک عام آدمی کو اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کا پیکر بنا دیا ہے۔
میرے اردگرد بدھ مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت تھی۔ میں دیکھتا تھا کہ یہ لوگ بھی نیکی و پرہیزگاری کی بڑی نمائش کرتے ہیں اور کہا جاتا تھا کہ سخاوت اور دریا دلی کے اعتبار سے دنیا بھر میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی مگر ان کو عبادت کرتے ہوئے دیکھتا تو رہ رہ کر کسی کمی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ پگوڈوں (عبادت گاہوں) میں بھی جاتے تھے مگر صاف نظر آتا تھا کہ ان کے طرزِ عبادت میں غیر فطری قسم کا عجز و انکسار غالب ہے اور قوت یا وقار کا کہیں شائبہ تک نہیں جب کہ اس کے مقابلے میں شیخ علی کی عبادت میں وقار بھی تھا‘ حسن بھی اور عجز و انکسار بھی۔ اس تقابلی مطالعے نے اسلام کے لیے میری دل چسپی میں بہت اضافہ کر دیا لیکن جب کبھی میں شیخ علی سے کچھ جاننے کی کوشش کرتا مجھے بڑی مایوسی ہوتی‘ وہ بے چارہ اپنے مذہب کی ان خوبیوں کو بیان کرنے پر قادر نہ تھا۔ حالانکہ انہی خوبیوں نے اس کی شخصیت کو میرے نزدیک بے حد محترم بنا دیا تھا۔ تاہم میں شیخ علی کے پیکر میں اسلام کو مجسم صورت میں دیکھتا رہتا تھا۔
اپنی دل چسپی اور تجسس کی تسکین کے لیے میں نے اسلام اور تاریخِ اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں خرید لیں۔ میں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور کارناموں کا مطالعہ بھی کیا۔ مزید وضاحت کے لیے میں نے اپنے مسلمان دوستوں سے بھی گفتگو کی۔ تلاشِ حق کا یہ مرحلہ طے نہیں ہوا تھا کہ پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور میں فوج میں شامل ہو کر عراق کے محاذ پر چلا گیا۔
اب میں ایک ایسے علاقے میں تھا جسے عرب مسلمانوں کا قلب کہنا چاہیے۔ یہ لوگ قرآن کی زبان عربی میں باتیں کرتے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے درمیان مبعوث ہوئے تھے۔ اسلام کو سمجھنا اب میرے لیے کہیں زیادہ آسان تھا۔ میں نے عربی زبان سیکھ لی اور مسلمان اور قرآن سے براہ راست تعلق قائم کر لیا۔ اسلامی طریق عبادت کے تواتر اور تسلسل نے مجھے خصوصی طور پر متاثر کیا۔ یہ جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ اسلام خدا کی وحدانیت کا قائل ہے۔ عیسائیت کے نظریۂ تثلیث سے مجھے خود بھی الجھن ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام ہی دنیا کا سچا مذہب ہے اور لا الٰہ لااللہ میں فطری اپیل ہے۔ میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گرجا ‘جانا چھوڑ دیا اور جب کبھی پولیس آفیسر کی حیثیت سے میری ڈیوٹی لگتی میں مسجد میں بھی چلا جاتا۔
1935ء سے 1942ء تک مجھے فلسطین میں رہناپڑا۔ یہیں میں نے قبولِ اسلام کا مصمم ارادہ کر لیا اور ایک روز بیت المقدس کے محکمۃ الشرعیہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ میں اس وقت جنرل اسٹاف آفیسر تھا۔ چنانچہ میرے اعلان پر خاصے ناخوشگوار ردعمل کا اظہار کیا گیا‘ مگر میں نے کسی کی پروا نہ کی۔ الحمدللہ آج میں مسلمان ہوں اور کروڑوں افراد کی ایک متحد برادری کا فرد۔ میں خدا کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کفر کے اندھیروں سے نکال کر توحید اور ایمان کے اجالوں میں لاکھڑا کیا ہے اس کے لیے میں اس بوڑھے ملاح ’’شیخ علی‘‘ کا دل کی انتہائی گہرائیوں سے شکر گزار ہوںجس کے عمل اور شخصیت نے اسلام کی روشنیوں کی طرف میری رہنمائی کی۔ میں ہر نماز کے وقت اس کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطا کرے اور اس کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔