جمال اور کمال جڑواں بھائی بھی تھے اور ایک ہی اسکول اور جماعت کے طالبِ علم بھی۔ ان کا اسکول گھر سے بہت دور نہیں تھا اس لئے وہ کسی وین میں جانے کی بجائے پیدل ہی اسکول جایا کرتے تھے۔ گلی سے نکلتے ہی ایک چھوٹا سا بازر آجاتا تھا۔ بازار جہاں ختم ہوتا تھا وہاں قریب ہی ان دونوں کا اسکول تھا۔ بازار میں زیادہ دکانیں سبزی اور پھل فروشوں کی تھیں، کچھ دکانوں پر گوشت اور مرغی فروش بھی ہوا کرتے تھے۔ ایک آدھ دکان نائی، دھوبی اور درزی کی بھی تھی۔ چند ہفتے قبل اسی بازار میں ایک دکان کاروں اور موٹر سائیکلوں کی بیڑی کی کھلی تھی۔ بستی میں زیادہ تر موٹر سائیکل والے یا پھر رکشا والے نظر آتے تھے۔ پوری بستی میں صبح ہی صبح دکانیں کھولنے کا رواج تھا البتہ بیٹری والا اپنی دکان شاید دیر سے کھولا کرتا تھا کیونکہ جمال اور کمال جب اسکول جایا کرتے تو دکان بند ہی ملتی لیکن واپسی پر دکان کھلی نظر آتی تھی۔ آتے جاتے دکان والے پر نظر پڑتی تو اسے کسی نہ کسی کام میں مصروف پاتے۔ دکاندار اس بستی کا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ اپنے محلے کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے سے شکلاً ضرور واقف تھے۔ جیسا کے یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے پہچان کی دولت سے نوازا تھا۔ وہ جس کو بھی ایک نظر دیکھ لیتے تھے اس کی شکل بھولتے نہیں تھے۔ اسے کہیں بھی دیکھ لیتے تو پہچان جایا کرتے تھے اس لئے وہ یقین سے کہہ سکتے تھے کہ دکاندار ان کے محلے کا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ اس کی دکان کے قریب ایک موٹر سائیکل بھی دیکھا کرتے تھے جو اسی کی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ دکاندار کہیں دور سے آتا ہے۔ نہ معلوم کیوں ایک اچھی صورت رکھنے کے باوجود دکاندار انھیں اچھا نہیں لگتا تھا، لیکن کیوں؟، اس کا جواب فی الحال ان کے پاس نہیں تھا۔
جمال اور کمال جب اسکول سے گھر آ رہے ہوتے تو کبھی کبھی بیٹری والے کی دکان کے سامنے انھیں ایک رکشا کھڑا ہوا نظر آتا تھا۔ ساتھ ہی ان کی نظر بیٹری والے کی دکان کے باہر پڑی بینچ پر ایک آدمی پر بھی پڑتی تھی جو یقیناً رکشا ڈرئیور ہی رہا ہوگا کیونکہ جب بھی رکشا وہاں کھڑا نظر آتا وہی آدمی بینچ پر سگریٹ پھونکتا دکھائی دیتا۔
ایک دن جمال اور کمال کے سامنے والے انکل نے ان کو بلایا۔ کہنے لگے بچو، میرے مکان سے تین مکان چھوڑ کر جو ایک اور انکل ہیں، جب صبح دفتر جانے کے لیے انھوں نے اپنی کار اسٹارٹ کرنے کے لیے چابی گھمائی تو انھیں ایسا لگا جیسے بیٹری کے ٹرمینل بیٹری سے نکل گئے ہوں۔ کار سے اتر کر جیسے ہی انھوں نے کار کا بونٹ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کار میں بیٹری ہی نہیں ہے۔ کوئی کار سے بیٹری چوری کر گیا تھا۔ میں آپ دونوں کو یہ بات اس لئے بتا رہا ہوں کہ کار آپ کے والد کی بھی گھر سے باہر ہی کھڑی رہتی ہے، اس لئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جمال اور کمال نے کہا کہ اچھا کیا ہمیں خبر کردی، ہم محتاط بھی رہیں گے اور جو وقت بھی ملے گا، آنے جانے والوں پر نظر بھی رکھیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ حرکت کسی باہر والے ہی کی ہو سکتی۔
چوری کی رپورٹ انسپکٹر حیدر علی کو کر دی گئی تھی۔ انھوں نے جمال اور کمال کو کچھ ہدایات دیں جس پر بچوں نے کہا کہ آپ یقین رکھیں ایسا ہی ہوگا۔ پوری گلی میں جمال اور کمال کے گھر کے علاوہ تین اور گھروں میں کاریں تھیں۔ جن انکل کی کار کی بیٹری چوری ہوئی تھی وہ اسی شام نئی بیٹری خرید کر لائے تھے۔ یہ بیٹری محلے کے بازار کی اسی بیٹری کی دکان سے خریدی گئی تھی جو چند ہفتے قبل کھلی تھی۔ بچوں نے انکل سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس کی رسید بھی ہے۔ انھوں نے جواب دیا، ہاں، اور اس کا رسید نمبر بھی بیٹری پر کندہ ہے۔ پھر کہنے لگے کہ اور گاڑیوں کی نسبت میری گاڑی کا بونٹ آسانی سے کھل جاتا ہے اس لئے چور کو بیٹری چرانے میں آسانی ہوئی۔ گھر میں کار کھڑی کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے سوچا ہے کہ کل صبح بیٹری پر زنجیر کس کر تالا لگا دونگا۔
اگلے دن جب جمال اور کمال اسکول سے واپس آ رہے تھے تو انھوں نے گلی سے ایک رکشہ والے کو گلی سے باہر آتے دیکھا۔ گلی سے باہر نکل کر وہ مخالف سمت مڑ گیا اس لئے وہ رکشہ والے کی شکل تو نہ دیکھ سکے لیکن اس کی نمبر پلیٹ کو پڑھ کر سوچ میں پڑ گئے کہ اس کو پہلے کہاں دیکھا تھا۔ گھر پہنچنے سے پہلے انھیں یاد آیا کہ یہ تو وہی رکشہ ہے جو بیٹری والے کی دکان پر اکثر کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سوچا کہ کسی سواری کو چھوڑنے آیا ہوگا۔ ابھی وہ گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ انکل کی چور چور کی صدا سنائی دی۔ یہ تو وہی انکل تھے جن کی بیٹری پہلے بھی چوری ہوئی تھی اور وہ نئی بیٹری کل ہی لے کر آئے تھے۔ ان کی آواز سن کر جمال اور کمال فوراً گھر سے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ وہ زنجیر اور تالا لاکر گھر گئے تھے۔ اتفاق سے واش روم جانا پڑ گیا۔ وہاں سے فارغ ہوکر باہر آئے تو بیٹری غائب تھی۔ جمال اور کمال کے دماغ میں جیسے جھماکا سا ہوا۔ جمال نے کمال سے کہا کہ وہ سیدھا انسپکٹر حیدر علی کے پاس جائے اور ان سے کہے کہ وہ فوراً فلاں جگہ پہنچے۔ پہنچنے کی جگہ اس نے کمال کے کان میں کہی تھی اور انکل سے کہا کہ آپ موٹر سائیکل نکالیں اور ساتھ ہی بیٹری کی رسید بھی لیتے آئیں۔ انکل کو صدمے کی وجہ سے کوئی بات سمجھ میں تو نہیں آئی پھر بھی وہ موٹر سائیکل گھر سے باہر نکال لائے۔ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر انکل نے پوچھا کہاں جانا ہے تو جمال نے کہا بازار کے آخری سرے پر۔ بازار کے آخری سرے پر جمال نے اسی رکشا کو بیٹری کی دکان کے پاس کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا۔ اب اس کی سمجھ میں پوری بات آ چکی تھی۔ وہ چاروں جانب دیکھ رہا تھا کہ اسے پولیس کی جیپ نظر آ گئی۔ جمال نے کہا کہ انکل میرے ساتھ آئیں۔ وہ ان کو لے کر بیٹری والے کی دکان پر جیسے ہی آیا رکشا والا انکل کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ ابھی وہ حیران ہی تھا کہ پولیس کی چیپ نے بریک لگائے۔ پولیس کو دیکھ کر رکشاوالے نے بھاگنے کی کوشش کی ہی تھی کہ سپاہی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دکاندار کے فرش پر ایک بالکل نئی بیٹری پڑی تھی۔ رسید کا نمبر کندہ تھا جو انکل کی رسید سے میچ کر رہا تھا۔ اس طرح نئی اور پرانی بیٹری، دونوں مل گئیں۔ رکشا ڈرئیور اور دکاندار رنگے ہاتھوں پورے ثبوت کے ساتھ پکڑے گئے۔ انسپکٹر حیدر علی اور انکل نے تو پہلے ہی جمال اور کمال کی تعریفیں سنی ہوئی تھیں۔ سب نے شاباش دی۔ اس طرح وہ دونوں خوشی خوشی گھر آ گئے۔