خواتین گھر کے اخراجات کیسے کم کریں؟

407

شوہر کو دفتر اور بچوں کو اسکول بھیج کر ثنا یوں ہی کھڑکی سے باہرکا نظارہ کرنے لگی۔ اس نے دیکھا نیچے جیٹھ اپنی بائیک سے اتر رہے تھے، ان کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا۔ شاپر میں موجود چیز پر اس کی نظر پڑی جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تو سیڑھیاں چڑھ کر اپنے گھر میں چلے گئے اور ثنا کچھ سوچتے ہوئے اپنا گھر سمیٹنے لگی۔

پورشن میں بنے گھر کے دوسرے حصے میں ثنا کی جیٹھانی فائزہ مقیم تھیں۔ دونوں کاموں سے فارغ ہوکر گپ شپ کرتیں اور آئے روز چھوٹی موٹی گھریلو چیزوں کا لین دین بھی کرتیں۔

ثنا نے کام سمیٹے اور فائزہ کے دروازے پرجا پہنچی جو قدرے کھلا ہوا تھا۔ بھابھی کو آواز دیتی ہوئی وہ اندر داخل ہوگئی۔ فائزہ بھابھی نے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے اسکرین پر جاری ڈراما روک دیا۔ سلام دعا کے بعد ثنا نے مدعا زبان پر لانے کے لیے تمہید باندھی:

’’بھابھی! وہ مجھے آج ایک چیز چاہیے۔‘‘
’’ارے تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔‘‘
فائزہ نے جو ابھی تک ڈرامے کے زیر اثر تھیں، بڑے اسٹائل سے کہا۔ ’’سوچ لیں بھابھی… بہت بڑی بات کہہ دی آپ نے۔‘‘
’’اچھا… اچھا بتاؤ تو سہی کیاچاہیے تمہیں؟‘‘

’’وہ بھابھی کہتے شرم بھی آرہی ہے مگر…‘‘
’’ارے بھئی! سسپنس ختم کرو اور کہہ بھی دو، دے سکی تو ضرور حاضر کردوں گی۔‘‘

’’وہ بھابھی مجھے نا، دو توس چاہئیں۔‘‘
’’اوہ…!‘‘ یہ سن کر بھابھی کا دل بیٹھ سا گیا۔ سوچنے لگیں یہ کیا مانگ لیا! اب کیا کہوں؟ سوکھے منہ منع کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ کہنے لگیں:

’’اچھا میں دیکھتی ہوں، ہے بھی کہ نہیں۔‘‘ اور مرے قدموں سے کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

پیچھے سے ثنا نے کہا ’’نہیں بھابھی جان، ہوگی… صبح بھائی جان سیڑھی چڑھ رہے تھے تو ان کے ہاتھ میں تھی۔‘‘

فائزہ نے بریڈ کے اوپر والا اور نیچے کا آخری پیس الگ نکال کے رکھے تھے، وہی شاپر میں ڈال کر لے آئیں۔ فائزہ نے شاپر دیکھا اور ڈھیٹ بن کر ایک حصہ واپس کرتے ہوئے کہنے لگی’’بھابھی! ذرا ایک درمیان کا نرم پیس دے دیجیے۔‘‘

فائزہ نے بیزاری سے دوبارہ کچن کا رخ کیا اور ثنا کی فرمائش پوری تو کردی مگر ثنا کے جاتے ہی میاں کو کال ملائی۔ رابطہ نہ ہونے پر پیغام لکھ بھیجا:

’’آئندہ آپ ذرا ڈھنگ کے شاپر میں بریڈ لائیے گا، سارا رستہ اپنے پرائے کی نظر لگتی ہے۔‘‘ پھر شوہر کا جوابی تابع داری پیغام پاکر ہی ان کے حواس کچھ بحال ہوئے۔

یہ قصہ پڑھتے ہوئے یقینا آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ہوگی۔ مگر کیا یہ المیہ نہیں کہ ڈبل روٹی جوکہ روزمرہ کا گھریلو آئٹم ہے، بوڑھوں، بچوں اور بیماروں کی غذا ہے، قیمتی ہونے کے سبب پہنچ سے دور ہوتی چلی جارہی ہے؟ ایک ماں کے اگر تین بچے اسکول لنچ لے کر جاتے ہیں تو اکثر بریڈ اس کا حصہ ہوتی ہے۔ جب وہ پوری طرح لنچ نہ دے پائے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی! بڑھتی مہنگائی ہمارے آپس کے تعلقات کو متاثر کررہی ہے۔ ذہنی تناؤ اور محرومی کا احساس بڑھا رہی ہے۔ ملک کے معاشی نظام پر مامور عمّال پر تو اس صورتِ حال کی اصل ذمہ داری عائد ہوتی ہی ہے، پَر ہم عوام بھی کچھ اپنے چلن کو بدل کر اس عفریت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

میڈیا پر موجود رنگ و نور میں ڈوبے سحر انگیز اشتہارات محض سراب ہیں جو پوری طرح ہماری معاشرت اور ثقافت کے عکاس بھی نہیں۔ اس لیے اپنی اور اپنے متعلقین کی حقیقی ضروریات کا اندازہ لگاکر غیر ضروری اشیا کی خریداری کو ترک کردیں۔ لباس، خوراک، تقریبات اور رسم و رواج میں نمود و نمائش سے گریز کرتے ہوئے سادگی اختیار کرکے وسائل کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ چادر دیکھ کے پاؤں پھیلانا صرف مقولہ نہیں ہے بلکہ اس پر عمل قرض میں ڈوبنے اور امداد مانگنے سے بچا لیتا ہے۔

گھریلو امور میں سلیقہ برت کر بھی وسائل کی کمی پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً دھلے کپڑے تار پر ڈالیں تو جھٹک کر پھیلا کر کلپ لگائیں تو استری بہت جلد ہوجاتی ہے۔ شام کے وقت بجلی چارجز ڈبل ہوجاتے ہیں، اس وقت دو گھنٹے کے لیے فریج بند کردیں، واشنگ مشین میں گرم پانی میں پاؤڈر ڈالیں تو کم مقدار کے خرچ سے بہت سے کپڑے دھل جاتے ہیں۔ باسی روٹی شاپر میں لپیٹ کر فریزر میں رکھیں۔ ضرورت کے وقت توے پر گرم کرلیں، بالکل تازہ معلوم ہوگی۔ کھانا توجہ سے پکائیں کہ جلنے نہ پائے، دودھ ابل کر گرنے نہ دیں۔ حاضر دماغی سے کام لے کر اس طرح کے کئی کام کرکے وسائل ضائع ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔

اپنے جاری معیارِ زندگی سے اوپر والوں کو دیکھنے سے محرومیوں کا احساس بڑھتا ہے جس سے ذہنی تناؤ، حسد اور منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ یہ سب مل کر گھر کے ماحول کو کشیدہ کرتے ہیں۔ جب کہ اپنے سے کمتر حیثیت کے لوگوں کو دیکھنے سے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

گھریلو امور میں مشینوں کا استعمال بہت سا وقت بچاتا ہے جسے اسکرین کی تفریحات کی نذر کردیا جاتا ہے۔ مہنگائی نے نئے نئے پیشوں کو جنم دیا ہے۔ گھر بیٹھے کمانے کے طریقے متعارف ہوئے ہیں۔ اپنے وقت کی درست انداز سے تقسیم سے ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

اپنے محدود وسائل میں صدقہ کرنا اور حتی المقدور ضرورت مندوں کی مدد کرنا نہایت نفع بخش سودا ہے۔ اللہ اپنی راہ میں دیے جانے والے پیسے کو بڑھا چڑھا کر بندے کو واپس کردیتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد محدود وسائل میں بھی برکتوں اور رحمتوں کے سائے میں پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں۔

حصہ