تبدیلی ناگزیر عمل ہے۔ یہ جاری رہتا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ تبدیلی نہ ہو تو دنیا رہنے کے قابل نہ رہ پائے۔ تبدیلی کا مطلب ہے زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان اور دل کش بنانے کا عمل۔ اس عمل کے پہلو میں چند ایک منفی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ کوئی کب فتح یاب ہوتا ہے؟ جب کوئی ہارتا ہے تب۔ اگر کوئی ہارنے کا نام نہ لے تو کوئی جیتے کیسے؟ کچھ ایسا ہی معاملہ تبدیلی کا بھی ہے۔ کسی بھی مثبت تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جس سے کچھ لوگوں کے مفادات پر ضرب لگتی ہے۔ یہ بالکل فطری معاملہ ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے اور اِسی طور چلتی رہے گی۔
ہر دور کا انسان کچھ نہ کچھ ایسا کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں اور دنیا کو ایک نئے انداز سے دیکھنے اور برتنے کی گنجائش پیدا ہو۔ اگر تبدیلی کی خواہش نہ ہوتی تو انسان آج بھی غاروں ہی میں جی رہا ہوتا۔ ہر دور کا انسان اِسی بات کا خواہش مند رہا ہے کہ زندگی کا سفر آگے بڑھے۔ اس عمل میں اگر کسی کا بھلا ہوتا ہے تو کسی کا بُرا۔ کوئی کسی کو زیادہ الزام نہیں دے سکتا۔ آج بھی ہمیں جو کچھ مل رہا ہے وہ ہم سے بہت کچھ چھین بھی رہا ہے مگر ہم کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ تبدیلی ایسے ہی گُل کِھلایا کرتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ تاریخ کو سمجھنا ممکن ہے۔ ہم عمومی سطح پر اس خیال کے حامل رہتے ہیں کہ جو کچھ آج تک ہوتا آیا ہے وہ سب کا سب سمجھنا ممکن نہیں اور بہت سے واقعات کا آپس میں کوئی خاص تعلق بنتا بھی نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ اُن کی رائے یہ ہے کہ ہر بڑا واقعہ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی بعض معاملات کو سوچ سمجھ کر ایک خاص نہج تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ مطلوب نتائج حاصل ہوں۔ اس کے نتیجے میں تھوڑا بہت بگاڑ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ سیاسی اور معاشی سطح پر ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو بڑی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کسی ملک پر حملے کے نتیجے میں بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ ہر دور میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جنہوں نے پورے کے پورے معاشرے تلپٹ کردیے۔ فی زمانہ طریقے بدل گئے ہیں۔ اب کسی ملک پر براہِ راست حملے یا قبضے کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی۔ طاقتور ممالک سیاسی اور معاشی معاملات میں اپنی طاقت منوا کر مطلوب مقاصد حاصل کر لیتے ہیں اور زیادہ بُرے بھی نہیں بنتے۔ امریکا اور یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے آٹھ عشروں سے بھی زائد مدت تک ایسا بہت کچھ کیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اور پورے پورے خطے تاراج ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ کیفیت بہت حد تک اب بھی برقرار ہے۔ بعض خطے ترقی کی دوڑ میں اِتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ اب ٹیکنالوجیز کی مدد سے بھی اپنا مقدر بدل نہیں سکتے۔ طاقتور ممالک سیاسی، سفارتی اور معاشی سطح پر ایسا بہت کچھ کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں کمزور خطے مزید کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بعض خطوں کو اس قبل چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ کچھ بن سکیں، بناسکیں۔ وہ ہر معاملے میں ترقی یافتہ دنیا کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور ہیں۔
تبدیلی کا عمل تو خیر ہمیشہ ہی جاری رہتا ہے تاہم بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں صدی سوا صدی کی مدت میں سامنے آتی ہیں۔ بڑی طاقتیں مل کر ایسے حالات پیدا کرتی ہیں کہ سو سوا سو سال میں بہت کچھ بدل جاتا ہے اور دنیا ایک نئے سانچے میں ڈھلتی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہے۔ کم و بیش 6 صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ مغربی طاقتیں مل کر دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالتی رہی ہیں۔ اُن کی کوشش رہی ہے کہ طاقت کا مرکز تبدیل نہ ہو۔ سترہویں صدی میں ہندوستان امیر ترین ملک تھا مگر یہ امارت محض مادّی اعتبار سے تھی۔ مال و متاع کے معاملے میں تو بہت کچھ تھا اور موافق بھی تھا مگر علم و فن کے میدان میں بھارت کے لوگ بہت زیادہ آگے نہ جاسکے اور دوسرے خطوں کو متاثر کرنے کے معاملے میں وہ بہت کمزور ثابت ہوئے۔ یہی سبب ہے کہ مالدار ترین ملک کو چند ہزار انگریزوں اور ولندیزیوں نے اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کو بدلنے میں کلیدی کردار علم و فن کا ہوتا ہے نہ کہ قدرتی وسائل کا۔ آج بھی سعودی عرب سمیت کئی ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور مالدار بھی بہت ہیں مگر پھر بھی عالمی سیاست و معیشت میں اُن کا کردار برائے نام ہے۔ اچھی خاصی تونگری کے باوجود اِن ریاستوں نے اعلیٰ تعلیم اور جدید ترین فنون کے سیکھنے اور سکھانے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ بینکوں میں دولت کے ڈھیر لگے ہیں مگر اِن ممالک کے لوگ ہر معاملے میں باہر کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔
بات ہو رہی تھی دنیا کو بدلنے کی۔ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر مغربی طاقتوں نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی بھرپور کوششیں شروع کردی ہیں۔ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت اُن کے لیے انتہائی پریشان کن ہے، بالخصوص یورپ کے لیے۔ یورپی طاقتیں چاہتی ہیں کہ دنیا کو چلانے کے معاملے میں فوجی قوت سے زیادہ کام نہ لیا جائے بلکہ نرم قوت یعنی علم و فن کا زیادہ سہارا لیا جائے۔ امریکا اب بھی یہی چاہتا ہے کہ جسے جتنا دبایا جاسکتا ہے دبایا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج کا حصول یقینی بنانے کے لیے اگر کسی ملک کو تاراج کرنا پڑے تو بصد شوق کیا جائے۔ ڈیڑھ عشرے سے بھی زائد مدت سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ طاقت کا مرکز تبدیل ہوسکتا ہے۔ ایشیا میں چین کے ساتھ ساتھ بھارت بھی بہت مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔ بھارت کے اندرونی مسائل بہت ہیں مگر پھر بھی اُس نے بیرونی سطح پر اپنے آپ کو اچھی طرح منوانے کی خاصی قابلِ قدر سعی کی ہے۔ روس بھی اچھی طرح کمر بستہ ہوکر میدان میں آگیا ہے اور یورپ کو سبق سکھانے کے موڈ میں دکھائی دے رہا ہے۔ سوا سو سال میں جو بہت بڑی تبدیلی رونما ہوا کرتی ہے اُس کے آثار اب بہت نمایاں ہیں۔
کورونا کی وبا کے بارے میں اب بھی بہت کچھ سوچا جارہا ہے۔ بہت سے زیادہ تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ یہ وبا دانستہ لائی گئی جس کا ایک مقصد یہ دیکھنا تھا کہ دنیا کو بدلنے کی کوئی بڑی کوشش کی جائے تو کامیابی کہاں تک مل سکتی ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ چین کے علاوہ امریکا اور یورپ میں بھی کورونا کے ہاتھوں بہت بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے اموات کو کورونا کی وبا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ یورپ کے نازک مزاج ایسی کسی وبا کے لیے تیار نہیں تھے۔ اُن میں قوتِ مدافعت برائے نام رہ گئی ہے۔ ہر اعتبار سے صاف ستھرے ماحول میں پروان چڑھنے کے نتیجے میں وہ کسی بھی بیماری کو زیادہ دیر جھیلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یورپی باشندوں کے جسم کسی بھی بیماری کے ابتدائی مرحلے ہی میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے زمانۂ عروج میں اٹلی، فرانس اور اسپین میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرم ناک تھا۔ بعض شہروں میں معمر افراد کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ اولڈ ہومز میں رہنے والے معمر افراد امدادی کارکنوں اور رضا کاروں کی آمد سے بہت پہلے چل بسے۔ یہ خیال ہی اُنہیں لے ڈوبا کہ کوئی اُن کا حال پوچھنے والا نہیں۔
بہت سوں کا یہ خیال تھا کہ دنیا کو ایک نئی طرزِ حیات کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ یہ خیال کچھ ایسا غلط یا بے بنیاد بھی نہیں تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مغربی طاقتیں دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کے طور پر ایک ایسی طرزِ حیات پوری دنیا پر مسلط کرنا چاہتی ہیں جس کے ذریعے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ عطا کیا جاسکے۔ اس کوشش میں بھرپور کامیابی ممکن نہیں بنائی جاسکی ہے۔ امریکا اور یورپ میں ایک ایسی طرزِ حیات عام ہے جس میں لوگ کم وقت میں زیادہ کام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ گھر بیٹھے کام کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اِسے بہت پہلے ٹیلی کمیوٹنگ کہا جاتا تھا۔ اب اِسے ورک فرام ہوم یا ہوم بیسڈ ورک کا نام دیا گیا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں غیر معمولی، بلکہ ہوش رُبا نوعیت کی پیش رفت نے گھر بیٹھے بہت سے کام ممکن بنادیئے ہیں۔ مغربی دنیا میں باضابطہ ادارے یعنی دفاتر وغیرہ قائم کرکے کام کرنے کا تصور دم توڑتا جارہا ہے۔ بڑے کاروباری ادارے اپنا کام ملازمین کو گھر بیٹھے دیتے ہیں۔ اِسی طور آؤٹ سورسنگ کا کلچر بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ مغربی دنیا کے بڑے اداروں کا اچھا خاصا کام اب ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ’’نیو نارمل‘‘ کی تیاری کا حصہ ہے۔ مغربی دنیا بہت حد تک کامیاب رہی ہے مگر فیصلہ کن نوعیت کی کامیابی ابھی بہت دور ہے اور یہ ایسی منزل ہے کہ پاس ہوتے ہوئے بھی بہت دور ہے۔
تین سال قبل جب کورونا کی وبا نے پَر پھیلانا شروع کیا تب یہ سوچا جارہا تھا کہ اب دنیا پوری کی پوری بدل جائے گی اور پُرانے طور طریقوں سے نجات پانے میں کامیابی حاصل کرلی جائے گی۔ کورونا کی وبا کے باعث نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں دنیا بھر میں معیشتی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوئیں۔ مغربی معاشرے بھی اس حوالے سے خاصے پریشان دکھائی دیئے۔ پس ماندہ معاشروں کا تو تیا پانچا ہوگیا۔ وہ اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ اب تمام ممالک آپس میں جُڑے ہوئے ہیں اس لیے ہر تبدیلی کسی نہ کسی حد تک سبھی کو متاثر کرتی ہے۔ بیرونی تجارت متاثر ہو تو کئی ممالک، بلکہ خطے شدید منفی اثرات کی زد میں آتے ہیں۔
کورونا کی وبا کے دوران دنیا نے گھر میں بیٹھ کر کام کرنا سیکھا یہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ انسان کسی نہ کسی شکل میں گھومنے پھرنے اور ملنے جلنے کا عادی رہا ہے۔ یہ ہماری فکری یا نفسی ساخت کا حصہ ہے۔ ہم معاشرے میں گُھلے ملے بغیر ڈھنگ سے جی نہیں پاتے۔ روزانہ دفتر، فیکٹری یا دکان جانا اگرچہ جاں گُسل مرحلہ ہے مگر اِس سے ہمارا دل بھی تو بہلتا ہے۔ گھر کی چار دیواری میں مقید رہتے ہوئے کام کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں۔ مغربی طاقتوں نے مل کر ایک ایسی دنیا تیار کرنے کی کوشش کی جس میں سب کچھ نیا تھا۔ ’’نیو نارمل‘‘ کی کوشش بھرپور تھی مگر زیادہ دیر تک کامیاب نہ رہ سکی۔ خیال کیا جارہا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران جن لوگوں کو گھر بیٹھ کر کام کرنے کی عادت پڑی ہے وہ اب گھر سے نکل کر کام کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے۔ آجروں کے لیے بھی اس میں فائدہ تھا۔ بہت سے اخراجات بچ رہے تھے اور دردِ سر سے بھی نجات مل رہی تھی۔ روزانہ دفتر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو جمگھٹ پریشان کن بھی ہے اور خرچیلا بھی۔ سوچا جارہا تھا کہ اب آجر بھی ورک فرام ہوم یا ٹیلی کمیوٹنگ کی طرف جائیں گے اور اُن کی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ کام گھر بٹھاکر کرایا جائے۔ اس میں ملازمین کا بھی فائدہ تھا۔ وہ روزانہ مقامِ کار تک کا سفر کرنے کی زحمت سے نجات پارہے تھے۔ خرچہ بھی بچ رہا تھا اور وقت بھی۔ ساتھ ہی ساتھ اضافی یا غیر ضروری تھکن سے بھی نجات مل رہی تھی۔ جو کام گھر میں ہوسکتے ہیں اُن کے لیے کسی کو دفتر بلانے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سوچ معقول تھی اور منطقی بھی۔ مگر افسوس کہ ’’نیو نارمل‘‘ کو طویل عمر عطا نہ ہوئی۔ کورونا کی وبا ختم ہوتے ہی دنیا دوبارہ اپنی پچھلی ڈگر ہی پر چلنے لگی۔
انسان کو تنہا کام کرنا اچھا نہیں لگتا۔ کسی بھی ماحول میں کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں سے ہٹ کر آسانی سے کوئی کام کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی مزاج عام ہے۔ لوگ کام پر جاتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں اور کام سے زیادہ ہا ہا ہی ہی میں دلچسپی لیتے ہیں۔ گھر بیٹھے کام کرنے کی صورت میں کام کرنا پڑتا تھا۔ یہ جواز بھی نہیں ہوتا تھا کہ دفتر آتے آتے تھکن ہوگئی ہے۔ جب انسان گھر میں بیٹھ کر کام کر رہا ہوتا ہے تو وقت پر آن لائن بھی ہونا پڑتا ہے۔ موٹر سائیکل کے پنکچر کا بہانہ بھی نہیں گھڑا جاسکتا۔ ٹریفک جام کو بھی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ راستے میں گڑھے بہت تھے جن کے باعث دفتر پہنچنے میں دیر ہوئی۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ دفتر پہنچنے کے بعد کون سا کام شروع ہوتا جاتا ہے۔ ابتدائی ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو حال احوال پوچھنے اور سوشل میڈیا کی نئی پوسٹوں پر تبصرے میں گزرتا ہے۔ اِس کے بعد بھی کام پورے من سے شروع نہیں کیا جاتا۔ کبھی کمپیوٹر یا نیٹ ورکنگ کی خرابی پر آئی ٹی والوں کو آواز دی جاتی ہے اور کبھی بجلی کی سپلائی کا رونا رویا جاتا ہے۔ گھر میں کام کرنے کی صورت میں ایسا کچھ بھی ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا یعنی کام کرنا ہی پڑتا ہے۔
’’نیو نارمل‘‘ رخصت ہو چلا ہے۔ دنیا بھر میں آجروں کو اس طرف آنا چاہیے۔ اس میں ان کا بھی فائدہ ہے اور اجیروں کا بھی۔ گھر بیٹھے کام کرنے کی صورت میں وقت کا ضیاع بھی روکا جاسکتا ہے اور اخراجات میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔ لوگ کام کے لیے یومیہ سفر پر عمر کا ایک بڑا حصہ ضائع کرتے ہیں اور توانائی بھی۔ آنے جانے کے خرچے سے گھر کا بجٹ بھی بگڑتا ہے۔ علاوہ ازیں مقامِ کار کا ماحول کبھی کبھی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ’’نیو نارمل‘‘ کو بخوشی اپنایا جائے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں عوام کی ذہن سازی کی جانی چاہیے۔ یوں کاروباری ادارے اپنے اخراجات میں بھی متعدبہ کمی لانے میں کامیاب ہوسکیں گے اور کام کرنے والوں کی زندگی بھی آسان ہوسکے گی۔