قیصروکسریٰ

316

کلاڈیوس کی بجائے مرقس نے جواب دیا۔ ’’مصالحت کی ضرورت ہمیں ہے آوارکو نہیں۔ اور ہم تو اسے بھی خدا کا احسان سمجھتے ہیں کہ خاقان نے ہر قلیہ آنا منظور کرلیا ہے‘‘۔

دوسرے رومی نے کہا۔ ’’مجھے اِس بات کا اعتراف ہے کہ تن تنہا تاتاریوں کے کیمپ میں جانے کا خطرہ مول لے کر کلاڈیوس نے ایک غیر معمولی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن مجھے یہ اطمینان نہیں کہ موجودہ حالات میں قیصر قسطنطنیہ چھوڑ کر ہر قلیہ جانا پسند کریں گے‘‘۔

مارٹن نے برہم ہو کر کہا۔ ’’تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے، قیصر اپنے محل میں بیٹھ کر تاتاریوں کا انتظار نہیں کرے گا۔ تاتاریوں سے مصالحت کی اُمید پر وہ اُن کے کیمپ میں جانے سے بھی دریغ نہیں کرے گا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’جہاں تک قیصر کی ذات کا تعلق ہے، اُن کے متعلق میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ قسطنطنیہ کو بچانے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس ملاقات سے کوئی خوشگوار نتائج پیدا کرنے کے لیے تنہا اُن کی جرأت کافی نہیں ہوگی، بلکہ ہمارے اکابر اور ہمارے عوام کو اُن کا ساتھ دینا پڑے گا۔ اگر ہر قلیہ میں ہم اپنی قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کرسکے کہ ہم اِس گئی گزری حالت میں بھی ان خانہ بدوش وحشیوں کو اپنے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے تو آوار قبائل کے سردار اور اُن کا خاقان قیصر کے سامنے زمین پر بیٹھتے ہوئے بھی فخر محسوس کریں گے، لیکن اگر ہم نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم قسطنطنیہ سے باہر نکلتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں تو مصالحت کے متعلق تاتاریوں کا رویہ ایرانیوں سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ میں تاتاریوں کے کیمپ میں اُن کے پہلوانوں کی کشتیاں اور شہسواروں، تیر اندازوں اور نیزہ بازوں کے مقابلے دیکھ چکا ہوں۔ خاقان نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے، مجھے چار دن اپنے پاس مہمان رکھا تھا۔ آوار سرداروں نے اپنے خاقان کے سامنے پیش کرنے سے پہلے مجھے اپنے ایک دیوقامت پہلوان سے قوت آزمائی کی دعوت دی تھی اور آج میں اس لیے زندہ ہوں کہ میں نے اُس کی گردن توڑ ڈالی تھی۔ سفید رنگ کا ایک خوبصورت گھوڑا جو اِس اوقت میرے اصطبل میں بندھا ہوا ہے، مجھے اِس کشتی کے بعد خاقان کی طرف سے انعام میں ملا تھا۔ میں خاقان کے کیمپ سے یہ تاثر لے کر آیا ہوں کہ ہر قلیہ میں خاقان کو ہماری طرف سے ظاہری شان و شوکت کے مظاہرے قیصر کی مصالحانہ باتوں سے زیادہ متاثر کریں گے‘‘۔

ایک نوجوان نے کہا۔ ’’جہاں تک قسطنطنیہ کے عوام کا تعلق ہے، وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے لیکن میں سینٹ کے ایسے ارکان کو جانتا ہوں، جن کے نزدیک جنگ کے پورے زمانے کی بدترین خبر یہ تھی کہ قیصر نے قسطنطنیہ سے قرطاجنہ منتقل ہونے کا ارادہ تبدیل کردیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ لوگ قیصر کا حکم سن کر بھی ہر قلیہ کا رُخ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے‘‘۔

مرقس نے کہا۔ ’’ہم سب ایسے ارکان کو جانتے ہیں، لیکن تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ اس مسئلہ میں اگر کسی نے بزدلی کا مظاہرہ کیا تو قسطنطنیہ میں اُس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی‘‘۔

مارٹن نے مسکراتے ہوئے کلاڈیوس سے پوچھا۔ ’’بیٹا اس محفل میں سینٹ کے ارکان پر سخت نکتہ چینی ہورہی ہے، کہیں تمہارے دوستوں کو یہ شبہہ تو نہیں ہوگیا کہ میں بھی ہر قلیہ جانے سے خوف محسوس کرتا ہوں‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’نہیں جناب! ابھی میرے دوست اِس قدر بددل نہیں ہوئے اور آپ کے متعلق وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ تاتاریوں کے کیمپ میں اگر کسی معمر اور تجربہ کار ایلچی کو بھیجنے کی ضرورت محسوس کی جاتی تو سب سے پہلے آپ کا نام لیا جاتا‘‘۔

مارٹن نے اُٹھ کر کہا۔ ’’کلاڈیوس اگر مجھے تمہاری تھکاوٹ کا احساس نہ ہوتا تو میں خاقان کے ساتھ تمہاری ملاقات کی پوری تفصیلات سنے بغیر یہاں سے اُٹھنا پسند نہ کرتا۔ لیکن تمہیں آرام کی ضرورت ہے اور میں تمہارے باقی دوستوں سے بھی یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ تمہاری قوت برداشت کا امتحان نہ لیں‘‘۔

مارٹن کے باہر نکلتے ہی کمرہ خالی ہونے لگا اور کلاڈیوس نڈھال سا ہو کر اپنے باپ کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔

فرمس اور عاصم کمرے میں داخل ہوئے۔ ’’کلاڈیوس نے آگے بڑھ کر پہلے اپنے خسر سے مصافحہ کیا اور پھر عاصم سے بغل گیر ہو کر کہا۔ عاصم میں تمہارے پاس آنا چاہتا تھا لیکن میں بہت مصروف تھا‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کی مصروفیت کا حال دیکھ چکا ہوں‘‘۔
چند معززین جو ابھی تک کمرے میں موجود تھے، ایک اجنبی کے ساتھ کلاڈیوس کو اس قدر بے تکلف ہوتا دیکھ کر پریشان ہورہے تھے۔ کلاڈیوس نے عاصم کے ساتھ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد اُن کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’شاید آپ میں سے بعض عاصم کو نہیں جانتے۔ یہ ایک عرب ہیں اور میں انہیں اپنا دوست اور بھائی کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں‘‘۔

مرقس نے کہا۔ ’’بیٹا اب تمہارا دوست کچھ عرصہ سے ہمارے پاس آنا پسند نہیں کرتا‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ جناب اِن دنوں میں کچھ زیادہ مصروف رہا ہوں، لیکن آئندہ مجھ سے کوتاہی نہیں ہوگی‘‘۔

ایک رومی نوجوان نے عاصم سے سوال کیا۔ ’’جناب میں یہ پوچھ سکتا ہوں، کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘۔
فرمس کو پوچھنے والے نوجوان کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز تبسم پسند نہ آیا اور اُس نے برہم ہو کر کہا۔ ’’یہ ایک سرائے میں کام کرتا ہے، تمہیں کوئی اعتراض ہے؟‘‘۔
’’جی نہیں‘‘۔ رومی نے کھسیانا ہو کر جواب دیا۔
کلاڈیوس کچھ دیر فرمس سے باتیں کرنے کے بعد عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’عاصم عنقریب ہر قلیہ میں ایک شاندار میلہ لگنے والا ہے۔ قسطنطنیہ سے میرے تمام دوست وہاں آئیں گے۔ اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم بھی چند دن کے لیے وہاں آجائو۔ وہاں ہمارے وہ قومی کھیل کھیلے جائیں گے جنہیں دیکھنے کے لیے ایک مدت سے اہل قسطنطنیہ کے عوام کی آنکھیں ترس گئی ہیں، وہاں شہ زوری، پہلوانی اور فنون حرب کے مظاہروں کے علاوہ رتھوں کی دوڑ بھی ہوگی۔ اور یہ تمام باتیں تمہارے لیے نئی ہوں گی ابا جان بھی وہاں آئیں گے اور ولیریس شاید اُن سے چند دن پہلے ہی وہاں پہنچ جائے۔ اگر تم چند دن کی سیروتفریح پسند کرو تو ولیریس تمہیں اپنے ساتھ لیتا آئے گا‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر وہاں کوئی اور دلچسپی نہ ہوتی تو بھی میرے لیے یہی کافی تھا کہ آپ وہاں گے، ضرور آئوں گا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اچھا میرے ساتھ آئو، میں تمہیں ایک چیز دکھانا چاہتا ہوں، ایک ایسی چیز جس کی صحیح پہچان صرف ایک عرب کو ہوسکتی ہے‘‘۔

ولیریس نے پوچھا، ’’کیا چیز ہے وہ؟‘‘۔
’’بھئی ہمارے ساتھ آکر دیکھ لو۔ آپ سب آسکتے ہیں‘‘۔
کلاڈیوس عاصم کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا اور باقی آدمی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اُن کے پیچھے چل دیے۔ کلاڈیوس کا باپ چند ثانیے تذبذب کی حالت میں بیٹھا رہا۔ لیکن پھر وہ بھی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
کلاڈیوس نے صحن میں پہنچ کر ایک غلام کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور کہا، ’’تم اُس گھوڑے کو لگام دے کر یہاں لے آئو‘‘۔

غلام بھاگتا ہوا اصطبل کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد کلاڈیوس کے مہمان ایک اُچھلتے کودتے اور ناچتے ہوئے گھوڑے کی تندی اور سرکشی اور اُسے لانے والے کی بے بسی دیکھ رہے تھے۔ آدمیوں کو دیکھا دیکھی گھر میں جمع ہونے والی خواتین بھی باہر آچکی تھیں۔ اور بعض نو عمر لڑکیاں غلام کی بدحواسی پر قہقہے لگارہی تھیں۔
کلاڈیوس نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں عاصم کیسا ہے یہ گھوڑا؟‘‘۔

عاصم نے آگے بڑھ کر سہمے ہوئے غلام کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگیں پکڑلیں اور پیار سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرنے کے بعد بولا۔ ’’ایسی چیز کو پہچاننے کے لیے کسی مہارت کی ضرورت نہیں۔ صرف آنکھیں کافی ہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم اِس سرکش جانور کو کسی اچھے سوار کی ضرورت ہے۔ تم اِس پر سواری کرنا پسند کرو گے؟‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں سواری کا شوق یہاں سے بہت دور چھوڑ آیا ہوں لیکن اگر آپ اِس گھوڑے کے متعلق کوئی اطمینان چاہتے ہیں تو میں آپ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

کلادیوس نے کہا۔ ’’میں اِس گھوڑے سے دو مرتبہ گر چکا ہوں اور تمہارے سوا مجھے اس بات کا اطمینان اور کوئی نہیں دلا سکتا کہ یہ مجھے تیسری بار نہیں گرائے گا‘‘۔
ایک نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’آپ کا مطلب ہے کہ اِس گھوڑے سے تیسری بار گرنے کی سعادت انہیں حاصل کرنی چاہیے‘‘۔
عام حالات میں عاصم شاید اس قدر جلد بازی سے کام نہ لیتا لیکن اُسے تماشائیوں کی مسکراہٹیں اور چند شوخ وطرار رومی لڑکیوں کے دبے دبے قہقہے پسند نہ آئے، چناں چہ اُس نے کسی توقف کے بغیر باگیں درست کیں، گھوڑے کو تھپکی دی اور پھر آنکھ جھپکنے کی دیر میں اُس پر سوار ہوگیا۔ سرکش گھوڑا کچھ دیر اُچھلنے، کودنے دولتیاں جھاڑنے اور پھنکارنے کے بعد ٹھنڈا ہوگیا اور عاصم ایک تنگ دائرے میں چند چکر لگانے کے بعد اُسے سرپٹ دوڑتا ہوا صحن سے باہر نکل گیا۔

مرقس نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ ’’کلاڈیوس سچ کہو تم واقعی اِس گھوڑے سے دوبار گرے تھے؟‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’نہیں ابا جان میں عاصم جیسے دوست کو ایک ناقابل اعتماد گھوڑے پر سوار ہونے کی دعوت کیسے دے سکتا تھا۔ یہ بات میں نے صرف اُسے ترغیب دینے کے لیے کہی تھی‘‘۔
ایک عمر رسیدہ آدمی نے کہا۔ ’’خاقان کا یہ تحفہ یقیناً بیش قیمت ہوگا، کم از کم میں نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت گھوڑا نہیں دیکھا۔‘‘
کلاڈیوس بولا۔ ’’اگر یہ گھوڑا عاصم کو پسند آگیا تو میں بھی اسے بیش قیمت سمجھوں گا۔ عاصم جس گھوڑے پر سواری کیا کرتا تھا، وہ اِس سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا‘‘۔
تھوڑی دیر بعد صحن میں جمع ہونے والے بیشتر لوگ وہاں سے جاچکے تھے اور کلاڈیوس اپنے گھر کے افراد اور چند بے تکلف دوستوں کے ساتھ مکان کے کشادہ کمرے میں بیٹھا عاصم کا انتظار کررہا تھا۔ غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل جب اُن کی پریشانی اضطراب میں تبدیل ہونے لگی تو باہر اچانک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی اور ایک خادم نے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’جناب وہ آگئے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ