علم دوست شخصیت طارق جمیل نے اپنی رہائش گاہ پر فنونِ لطیفہ سے گہری دل چسپی رکھنے والے کچھ افراد کے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا جو کہ مذاکرہ اور مشاعرہ کی صورت میں تبدیل ہو گیا اس مذاکرے میں پاکستان میں اردو زبان کا سرکاری سطح پر نافذ نہ ہونا۔ اس کے نفاذ میں مشکلات کاجائزہ لیا گیا۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور اردو کو رومن انگریزی میں لکھنے پر احتجاج کیا گیا۔ اس مذاکرے اور مشاعرے کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جنہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو زبان کی ترقی میں جو لوگ رکاوٹیں ڈال رہے ہیں وہ قابلِ مذمت ہیں کہ اردو بین الاقوامی زبان ہونے کے علاوہ ہماری قومی زبان ہے یہ پاکستان میں رابطے کی زبان ہے ہر آدمی اس زبان کو سیکھتا ہے کہ یہ اس کی ضرورت ہے علاقائی زبانوں سے اردو زبان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ علاقائی زبانوں کی ترقی میں اردو زبان کی ترقی مضمر ہے لیکن عدالتی ریمارکس کے باوجود اردو ابھی تک سرکاری زبان کا درجہ نہیں حاصل کو پائی اس سلسلے میں مختلف ادارے کام کر رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ تعاون کریں۔ سوشل میڈیا کے اینکرز غلط اردو بول کر ہمارے بچوں کو ڈسٹرب نہ کریں وہ اردو سیکھیں کہ یہ ان کی ذمے داری ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم متحد ہو کر اردو کے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ مذاکرے کے بعد مشاعرہ ہوا جس میں پروفیسر سحر انصاری‘ فراست رضوی‘ سعد الدین سعد‘ خالد میر‘ شائق شہاب‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی اور دیگر نے کلام پیش کیے۔ خالد میر نے نظامت کے فرائض انجام دیے جب کہ طارق جمیل نے کلماتِ استقبالیہ میں کہا کہ مشاعرے ہماری ذمے داری ہے کہ یہ ادارہ اردو کی ترقی میں لازمی ہے اس کے علاوہ مشاعروں سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے شاعری ہماری روح کی غذا ہے۔ فراست رضوی نے کہا کہ ہمارے ملک میں وڈیرہ شاہی ہے ہم مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں اردو زبان کی ترقی میں جو مشکلات میں ہمیں مل جل کر ان کا ازالہ کرنا ہے ہم اردو کے محافظ ہیں۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ ہر قوم اپنی زبان کی حفاظت کرتی ہے۔ ہم انگریزی ضرور سیکھیں کہ یہ کاروباری زبان ہے لیکن اردو سے منہ نہ موڑیں کہ یہ ہماری قومی زبان ہے۔