’’گمِ زندگی، گمِ بندگی، گمِ دو جہاں، گمِ جاوداں‘‘
گم گم کی رٹ لگاتی زویا کو میں نے اچنبھے سے دیکھا اور غور فرمایا تو وہ ’’گم‘‘دراصل ’’غم‘‘ تھا یعنی’’غمِ زندگی، غم بندگی…‘‘
اردو کی اس ناقدری پر سر نہ پیٹتی تو اور کیا کرتی! بہرحال اس کی اصلاح کی، مگر یہ خیال کہیں ذہن کے نہاں خانوں میں بس گیا کہ اردو زبان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ’’اردو زبان سے دوری‘‘ ہے، اور اس کے اثرات لامحالہ انگریزی اسکولوں میں اساتذہ کی زیر نگرانی پڑھنے والے معماروں پر پڑ رہے ہیں کہ جنہیں ’’اردو کا امین‘‘ بننا تھا وہ ’’انگریزی کے جانشین‘‘ بنے پھر رہے ہیں۔ مگر پھر خیال آیا کہ اُن معصوموں سے کیا شکوہ ’’کرگس سکھا رہے ہوں جنہیں بال و پر کی بات‘‘۔
بات دراصل یہ ہے کہ غلامی کی سب سے بدترین شکل وہ ہے جب غلاموں کو اپنی زنجیر سے پیار ہوجائے، اور آج ہمارا یہی المیہ ہے کہ انگریزی کو ہار سمجھ کر گلے میں لٹکا لیا ہے۔ ارے! یہ مذاق کی بات نہیں، المیہ ہے کہ آج انگریزی کو تھامنے کے چکر میں اپنی اردو ہاتھ سے پھسلتی جارہی ہے۔ انگریزی لب و لہجے میں منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے سے بولنے کے انداز میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے بھی اردو پر بہت برا اثر ڈالا۔ ’’غزل‘‘ کو ’’گزل‘‘ اور ’’غالب‘‘ کو ’’گالب‘‘ کہتے ذرا بھی جو اتنے قیمتی اثاثے کی ناقدری پر آنکھ نم ہو تو پھر ’’خزیمہ‘‘ کو ’’کھزیمہ‘‘ اور ’’غبارے‘‘ کوگبارے‘‘ کہنے پر کیا کسی کا دل دکھے گا؟
یہاں تک تو بولنے کی بات تھی، لکھنے کا حال اس سے زیادہ برا ہے۔ ’’رومن‘‘ کے استعمال سے جہاں اَن پڑھ معاشرے کا بھلا ہوا کہ ان کا انگریزی لکھنے کا شوق پورا ہوگیا، وہیں پڑھے لکھوں نے بھی آسانی کو اپناتے ہوئے رومن کو بصد خوشی قبول کرلیا۔
مانا کہ اردو ادب کے رموز و اوقاف سے زیادہ واقفیت ہمیں بھی نہیں، مگر ایک دلی لگاؤ ہے، جو اس ناقدری پر ’’آٹھ آٹھ آنسو‘‘ روتا ہے۔ کچھ ذوقِ ادب رکھنے والوں سے تعلق داری ہے۔
ایک بار ایک تقریری مقابلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اوّل آنے والے مقرر کی تقریر میں ’’زیر کو زبر‘‘ اور’’ زبر کو پیش‘‘ ہوتے دیکھ کر ابھی دل کو سنبھالا ہی تھا کہ ’’اُمیدِ صبح جمال رکھنا، کھیال رکھنا‘‘ پر دل ایسا تڑپا، ایسا تڑپاکہ پھر پوچھنا پڑا:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
تو جان لیجیے کہ اس کی دوا اس احساسِ کمتری سے نجات حاصل کرنا ہے کہ انگریزی اردو سے بہتر ہے۔
میری التجا تعلیمی اداروں سے ہے کہ انگریزی کو ایک مضمون ہی رہنے دیں۔ سیکھیں ضرور کہ وقت کی ضرورت ہے اور مومن علم میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا، مگر ’’ذریعۂ اظہارِ خیال‘‘ اردو کو ہی رہنے دیں۔ والدین سے التماس ہے کہ اپنے بچے کے لیے اچھے اسکول کے انتخاب میں اُن اسکولوں کو مدنظر رکھیں جو ’’تعلیم بہم پہنچائیں‘‘ نہ کہ ’’صرف انگریزی‘‘… ورنہ دنیا کو صرف ایسی قیادت ملے گی جن کا یہ حال ہوگا کہ اردو استانی کے تقرر کے انٹرویو کے لیے جانے والی استانی کو صرف اس بنیاد پر مسترد کردیا جائے گا کہ وہ انگریزی روانی سے نہیں بول سکتی۔