پاکستان کا قیام تاریخ کا حادثہ نہیں بلکہ ایک بامقصد ،منزل شناس اور مرکز جو تاریخ کا آغاز ہے
تہذیبوں کے عالمی نقشے پر براعظیم جنوبی ایشیا کی مسلم تہذیب ایک عجیب خصوصیت رکھتی ہے۔ قدیم ترین انسانی روایت کے اجزا کو سمیٹ کر دنیا کی آخری وحی سے پیدا ہونے والے نظام کے تحت اس علاقے میں تہذیبوں کے درمیان روابط کے سلسلے میں ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا گیا۔ عہد جدید میں ان رابطوں کا جو نظام وجود میں آرہا تھا، اس میں یہ فیصلہ سب سے پہلے اور مؤثر طور پر اسی علاقے میں ہوا کہ اقتدار اعلیٰ کی اصل بنیاد مذہب ہے اور مذہبی تہذیب کے ثانوی اداروں اور اس کے معاشی اور معاشرتی مظاہر کی نشوونما کے لیے اس خاص مذہب سے پھوٹنے والے اقتدار اعلیٰ کے تصور کا مؤثر ہونا لازم ہے۔ اسی اصول پر پاکستان کی بنیاد ہے۔ اس امر کو ایک بار تسلیم کرلینے کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ مذہبی تشخص سے جنم لینے والے اس اقتدار اعلیٰ کے تہذیبی مضمرات کیا ہیں اور وسیع تر پس منظر میں اس سے کیا قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں وابستہ ہوتی ہیں۔ اس سے بھی پہلے ایک امر یہ واضح ہونا چاہیے کہ تہذیبی پس منظر میں اقتدار اعلیٰ کا اطلاق کس حقیقت پر ہوتا ہے۔ سیاسی تصورات کی کتابوں میں اس اصطلاح کی ڈھلی ڈھلائی تعریفیں دستیاب ہوجاتی ہیں لیکن جب ہم تہذیبی سیاق و سباق میں یہ اصلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی میں ایک اور گہری تہہ دکھائی دیتی ہے۔
تہذیب زندگی گزارنے کا صرف ایک طریقہ نہیں بلکہ یہ زندگی کو کسی اعلیٰ تصور کے مطابق، اس کی تمام سطحوں پر کسی تصور حقیقت کے تحت ہیئت اور اسلوب عطا کرنے کا عمل ہے اور اس طرح اقتدار اعلیٰ محض قانون کی قوت نافذہ ہی نہیں بلکہ تاریخ کے دھارے کو اس تصور حقیقت کے مطابق رخ دینے اور اس کے نتائج کو سمیٹ کر ایک حسی مظہر بنانے کی وہ قوت ہے جس کا جواز انسانی شعور میں آزادی کی فطر طلب کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے تہذیبی اقتدار اعلیٰ مسولیت اور ذمہ داری کا ایک وسیع تر سیاق و سباق پیدا کرتا ہے۔
پاکستان اپنے وجہ جواز یعنی اسلامی تہذیب کے اعتبار سے ذمہ داریوں کے دو تناظر پیدا کرتا ہے۔ مسلم امت کے نقطہ نظر سے اس کی کچھ تاریخی ذمہ داریاں ہیں اور عالمی تہذیب کے منظرنامے پر اس ملک کی ایک مخصوص مسولیت ہے۔ پاکستان بحیثیت ایک مملکت اپنی سیاسی ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ لیکن ایک تہذیب کی حیثیت سے اس کے کردار کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے اور اس وسیع تر دائرے کے بارے میں آج تک گفتگو بہت کم کی گئی ہے، لیکن جیسے جیسے یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ سیاسی طور پر موثر ہونا دراصل تہذیبی قوت سے ہی ممکن ہوتا ہے، اس پہلو پر گفتگو کی اہمیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔
افراد کی طرح تہذیبیں بھی تین مراکز سے حرکت میں آتی ہیں اور ان مراکز سے جنم لینے والی لہریں تاریخی مرحلوں کی صورت میں ظاہر ہوا کرتی ہیں۔ یہ تین مراکز درج ذیل ہیں
-1 عقل
-2 ارادہ
-3 عمل
عقل کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل، اصل وفرع اور موجود موہوم میں تمیز کرے اور اصول کی سطح تک ان میں خط امتیاز کھینچ دے۔ ارادے کا وظیفہ یہ ہے کہ اس امتیاز کے واضح ہوجانے کے بعد وہ حق اور اصل کو اختیار کرکے وجود کی قوتوں پر اسے اس طرح مرتکز کردے کہ عمل واجب ہوجائے۔ عمل کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ حق کو بنیاد بناکر زمان و مکان میں وہ ہیئتیں پیدا کرے جو حق کی فطرت کا تقاضہ ہیں۔ اس طرح گویا تصور حقیقت کو ایک خارجی اور تاریخی طور پر موثر وجود عطا کرے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عقل کا وظیفہ تصورات کی تشکیل نہیں بلکہ حقیقت کے ادراک میں امتیاز اور وحدت پیدا کرنا ہے۔
تہذیب کے اس تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تاریخ کا تصور بھی بدل جاتا ہے۔ تاریخ میں اگر عقلی ادراک اور شعوری ارادہ شامل ہوجائے تو پھر وہ باہم متعلق یا غیر متعلق واقعات کا ایک بہائو نہیں رہتی بلکہ قانون کائنات کے تحت فطرت انسانی کا مرحلہ وار ظہور بن جاتی ہے اور اس کے مظاہر پر مقصود اور نوع حقیقت کے اعتبار سے درست یا غلط کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ اس سارے عمل میں مسولیت کا تعلق تہذیبی اقداراعلیٰ سے ہوتا ہے اور اس میں تہذیب کے مختلف پہلو فطرت انسانی میں اپنی تربیتی اہمیت کے لحاظ سے شریک ہوتے ہیں۔
تحریک پاکستان میں عقل، ارادے اور عمل کے مراحل پوری طرح واضح ہیں اور تینوں کی خلقی وحدت اس امر کا ثبوت ہے کہ تخلیق پاکستان میں تہذیبی وجود کی پوری قوت بروئے کار آئی، لیکن پاکستان کے وجود میں آتے ہی تاریخ کا سیاق و سباق تبدیل ہوا اور یہ تبدیلی ایک نئے عقلی ادر اک تخلیقی ارادے اور عملی ظہور کی متقاضی ہوئی۔
تہذیبی اقدار اعلیٰ کی ہمہ جہت حرکت کی آزادی سے ذمہ داری کا ایک پہلو پیدا ہوا اور اس ذمہ داری کو ادا کرنا پاکستان کے تاریخی کردار اور اس کی تہذیبی نمو کا تقاضا ہے۔ یہ ذمہ داری محض قانون سازی سے پوری نہیں ہوسکتی، کیونکہ قانون کو وظیفہ اقدار کا تحفظ ہے نہ کہ اقدار کی تخلیق۔ دراصل موجودہ صورت حال میں بہت پیچیدہ تاریخی عوامل کے ذریعے تدبیر الٰہیہ نے پاکستان کو ایک اہم تہذیبی ذمہ داری سونپی ہے اور وہ ذمہ داری ہے ملت اسلامیہ کے لیے نقطہ اجرائے عمل (Praxis) کا کردار ادا کرنا۔
عہد جدید میں پاکستان وہ واحد مملکت ہے جو معتقدات کی وحدت سے پیدا ہونے والی ایک جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی۔
معقتدات کی وحدت میں حق و باطل کا امتیاز بھی شامل ہے۔ چنانچہ اجرائے عمل کسی انفعالی (Passive) وحدت یعنی وحدت لسان و مکان سے نہیں بلکہ شعوری اور فعال وحدت یعنی وحدت اعتقاد سے ہوا۔ وحدت اعتقاد فطرتاً فعال ہونے کی وجہ سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا ایک نصب العین ہو اور اس کی طرف حرکت مسلسل جاری رہے۔ اعتقادات کی اجتماعی کار فرمائی اسی نصب العینی حرکت کی مرہون منت ہے۔ بصورت دیگر یہ اجتماعی سطح پر موثر نہیں رہتی اور انفعالی وحدتیں اس کی جگہ لینا شروع کردیتی ہیں۔ تحریک آزادی کا پورا مرحلہ دراصل خط امتیاز کو حتمی اور فیصلہ کن طور پر متعین کرنے کا مرحلہ ہے اور قیام پاکستان کے بعد کا نصب العین تعمیر وحدت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے وحدت اعتقاد پر مبنی تاریخی جدوجہد ایک ایسی امتزاجی (Synthetic) تہذیب پیدا کرے، جس میں اس علاقے اور عالمی سطح پر موجود رجحانات کو قرآن کی فرقانی حیثیت کے استعمال کے ذریعے چھانا پھٹکا جائے اور ایک ایسی تہذیب تعمیر کی جائے جس میں روحانی وحدت اور عالم مظاہر کی کثرت، دونوں فطرت اشیا کی منطق کے تحت ایک مثالی توازن حاصل کرسکیں۔ یہ تہذیب اپنا نصب العین نمونہ کامل سے مستعار لیتی ہو اور اس اعتبار سے ملت اسلامیہ کے لیے وحدت اعتقاد کو تہذیبی اور تاریخی قوت میں ڈھالنے کا کام کی مثال بنے۔ اس طرح ملت اسلامیہ میں ایک نیا عمل شروع ہوسکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان پر اس ذمہ داری کا عائد ہونا محض ایک اتفاقی امر ہے یا تاریخ کے پس منظر میں اس کی کوئی اور تعبیر بھی ہوسکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کی اسلامی تہذیب اس اعتبار سے خصوصیت کی حامل ہے کہ یہاں اسلام کا تہذیبی پہلو بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے اور عرب عجم کے تقریباً تمام رنگ اس تہذیبی منطقے میں آکر نمایاں ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی پس منظر میں اترنے والی عالمگیر وحی کے آریائی دھن کے ساتھ اتصال نے ایک ایسا ہمہ گیر مزاج پیدا کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ممکن ہے یہی بات یورپی عیسائیت کے بارے میں کہی جائے، لیکن اس میں ایک فرق یہ ہے کہ جس طرح ان علاقوں میں اسلام کے مستند نمائندوں کے ہاتھوں تہذیبی تشکیل ہوئی، یورپی عیسوی تہذیب اس سے محروم رہی، چنانچہ اس میں عناصر میں عدم توافق میں زوال کی متنوع صورتیں پیدا کیں۔ اس کے برعکس اس علاقے میں تہذیبی عمل سے ایک ایسا مزاج پیدا ہوا جس میں ایک نئی معروفت ظاہر ہوئی۔ یہ معرفت امتیاز تھی۔
وحدت شہود روحانی اعتبار سے اپنے تاریخی کردار کی جہت سے اور افکار و واردات مابعد پر اپنے اثرات کے لحاظ سے شعور وحدت کے عمل کے بعد شعور امتیاز کے عمل سے متعلق ہے۔ یہ نقطہ نظر کہ وہ قومی نظریے کی بنیادیں افکار مجدد الف ثانیؒ میں موجود ہیں درست ہے اور اس اعتبار سے معرفت حقیقت سے الہامی نوعیت کا تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ شاید یہی وجہ ہو کہ اس سے متعلق تصورات کے پورے نظام نے بنیادی طور پر ایک شعری وجدان کے ذریعے اپنا ظہور کیا، کیونکہ وجدان کی یہ نوع باطن تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔
اگر یہ امر تسلیم کرلیا جائے کہ پاکستان کی اساسی حیثیت معرفت امتیاز کی مظہر ہے تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ اس وقت اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ ضروری چیز ایک ایسا شعور ہے جو مختلف میدانوں میں حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرکے اس سے ملت کا ایک نیا تشخص پیدا کرے۔
اس عمل کا آغاز خود قیام پاکستان کی تحریک ہے۔
یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تہذیبی کلیت کا تقاضا یہ ہے کہ امتیاز و تشخص کا یہ پورا سلسلہ زندگی کے ہر میدان میں جاری ہونا چاہیے اور ابتدائی طور پر اس کی جمالیاتی تعبیر بہت ضروری ہے۔ انہی معنوں میں پاکستان کی حیثیت ایک نقطہ اجرائے عمل کی ہے اور یہ ذمہ داری کسی خارجی دبائو سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ پاکستان کے وجود کی قوم ہے۔
پاکستان کو ’’اسلام کی تجربہ گاہ‘‘ قرار دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسلام کے آفاقی اور لازمانی اقدار اور نفس انسانی کی متغیرہ صورتوں کے درمیان ایک نئے نقطہ توازن سے سماجی، معاشی، سیاسی اور جمالیاتی ہیئتیں پیدا کی جائیں اور ان سب کو کسی نصب العینی حرکت کے تابع کیا جائے کیونکہ پاکستان کا قیام تاریخ کا حادثہ نہیں بلکہ ایک بامقصد ، منزل شناس اور مرکز جو تاریخ کا آغاز ہے۔
یثرب اولیں کا عکس بعید اور ’’الکتاب‘‘ سے جنم لینے والی وہ موج، جو ضمیر حاضر کے لیے ’’اذان‘‘ کا حکم رکھتی ہے۔