مچھلی انسانی صحت کے لیے بہت اہم غذا ہے۔ اس میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو کسی اورگوشت میں نہیں پائے جاتے۔ مثلاً آیوڈین، جو انسانی صحت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی کمی سے جسم کے غدودی نظام کا توازن بگڑ سکتا ہے، گلے کے اہم غدود تھائی رائیڈ میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے، جس کی وجہ سے جسم میں بہت خرابیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
مچھلیاں بے حد بڑی بھی ہوتی ہیں جو سمندر میں پائی جاتی ہیں اور ان میں کئی کئی ہاتھی ایک ساتھ سما سکتے ہیں۔ کچھ اڑنے والی ہوتی ہیں۔ کچھ قسمیں کھارے پانی میں ہوتی ہیں اور کچھ میٹھے پانی یعنی جھیل، دریا، تالاب وغیرہ میں۔ ہمارے ہاں مہاشیر اور روہو بہت شوق سے کھائی جاتی ہیں جن کا گوشت عمدہ ہے۔ اور بنگال میں ایک مچھلی ہلسہ کے نام سے ہوتی ہے جو بہت پسند کی جاتی ہے، اس کا گوشت نازک ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں بو ہوتی ہے مگر یہ مچھلی مزیدار ہوتی ہے۔ اسی طرح پاک و ہند میں ٹرائوٹ، دھوتر، روہو، ہیرا، پلا، سرمائی، گلفام، کھگہ، پاپلیٹ، مشکا، سنول، کیرل، لاچی، گینڈ، مونہہ، بھڑکا، گیگرا، بام، سنگھاڑا، نرینی، سنگھی، کٹوا، بھاٹ مچھلی، مور مچھلی وغیرہ سمیت بہت سی قسمیں ہیں۔ مچھلی کے فائدے بے شمار ہیں۔ جب سے دل اور اعصابی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے، لال گوشت کے مقابلے میں مچھلی (سفید گوشت)کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مچھلی میں موجود حیوانی پروٹین اور اس کا تیل خاص طور پر دل و دماغ کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔
غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو ہفتہ میں دو مرتبہ 200 گرام تک مچھلی ضرور کھانی چاہیے۔ خواتین اور وہ جو ماں بننے والی ہوں اُن کے لیے تو یہ بہت محفوظ غذا ہے۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد گہرے پانی کی چکنائی والی مچھلی ضرور کھائیں۔ مچھلی کے ساتھ مچھلی کا تیل بھی فائدہ مند ہے۔
مچھلیوں کی آنکھوں پر پپوٹے نہیں ہوتے۔ یہ اپنے نتھنوں کو سانس لینے کے بجائے سونگھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ منہ کے قریب دمبالے سے لگے ہوتے ہیں جن سے چکھنے کا کام لیتی ہیں۔ مچھلی کے کان اندر کی طرف ہوتے ہیں اور دانت جبڑوں کے بڑھے ہوئے حصے پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زبان اور کلوں پر بھی دانت ہوتے ہیں۔
مچھلیاں اپنی دُم کو دائیں بائیں حرکت دے کر اس کی مدد سے تیرتی ہیں۔ یہ اپنے پروں کی مدد سے توازن قائم رکھتی ہیں۔ ان کے پر باریک چپٹی ہڈیوں کے ہوتے ہیں جن پر کھال منڈھی ہوتی ہے۔ جسم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے چھلکوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ روہو مچھلی کے جسم پر چھلکے بڑے ہوتے ہیں۔
کچھ بڑی گوشت خور مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہیں، جبکہ کچھ کائی اور پانی کی گھاس وغیرہ کھاتی ہیں۔ بیرنگ مچھلی کی طرح کچھ مچھلیوںکے گلپھڑوں کے قریب چھلنیاں لگی ہوتی ہیں جن سے پانی چھن جاتا ہے اور چھوٹے موٹے جانور پھنس جاتے ہیں جو مچھلی کی خوراک بنتے ہیں۔ دنیا میں ہزارہا قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن میں سب سے بڑی وہیل اور سب سے چھوٹی جھینگا مچھلی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہیل، مچھلی نہیں ہے۔
مچھلی کی قسمیں بے شمار ہیں۔ ان میں بہترین وہ ہیں جن کا ذائقہ اچھا لگے، مقدار خوراک زیادہ نہ ہو اور جلد موٹی نہ ہو۔ اچھی مچھلی وہ ہے جو صاف اور چلتے ہوئے پانی میں ہو۔ اس کی خوراک آبی نباتات پر مشتمل ہو۔ جس دریا سے مچھلی پکڑی جائے، اس میں پتھر اور ریت ہوں اور اس کے پانی پر کھلی دھوپ پڑتی ہو۔ اس کا پانی رواں ہو یا اس میں موجیں اٹھتی ہوں۔
مزاج کے لحاظ سے تازہ مچھلی پہلے درجہ میں سرد اور دوسرے درجہ میں تر ہے، لیکن بعض مچھلیاں گرم وخشک بھی ہیں۔ چنانچہ بام مچھلی گرم و تر ہے۔ اور نمک لگاکر سُکھائی گئی مچھلی گرم ہوتی ہے۔ سنول اور روہو مچھلی بھی گرم ہیں۔
سمندری مچھلی میں عمدہ غذائیت ہوتی ہے، اس کی تاثیر سرد لیکن زود ہضم ہوتی ہے۔گرم مزاجوں کی اصلاح کرتی ہے۔ نمکین پانی کی مچھلیاں اپنے اثرات میں فضیلت رکھتی ہیں، اس کے علاوہ مچھلی کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
مچھلی جسم کو فربہ کرتی ہے۔ مقوی ہے۔ سل، دق، خشک کھانسی اور ضعفِ گردن میں مفید ہے۔ مچھلی کھانے یا اس کا شوربہ پینے سے کئی جانوروں کے زہر کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ مچھلی کھانے کے بعد پیاس لگتی ہے، اس کو رفع کرنے کے لیے سرکہ کی سکنجبین یا تھوڑی سونٹھ کا استعمال بہت مفید ہے۔ مچھلی جلد ہضم ہوتی ہے۔ روٹی کے ساتھ کھا رہے ہوں تو دیر سے ہضم ہوتی ہے۔ مچھلی کے کباب اگر کوئلوں پر سینک کر یا گرل کرکے بنائے جائیں تو زیادہ فائدے مند ہیں۔
جس مچھلی کو بیسن لگا کر تلا گیا ہو اُس کو اگلے دن کھانے سے اس کی غذائیت میں کمی آجاتی ہے اور وہ پیٹ کے لیے نقصان دہ بھی ہوتی ہے۔ چشموں کی مچھلی امراضِ چشم میں بہت مفید ہوتی ہے۔ اس کے مسلسل کھانے سے بال سیاہ ہوسکتے ہیں۔
جتنے گہرے سمندر کی مچھلی ہوگی اتنی ہی اس میں چربی زیادہ ملے گی۔ یہی چربی اومیگا تھری کی حامل ہے۔ سمندر کی بالائی اور درمیانی سطح میں پائی جانے والی مچھلیوں میں چربی کم ہوتی ہے، لہٰذا ان میں اومیگا تھری بھی کم ہوتا ہے، نیز ان میں پارہ (مرکری) اور سیسہ (لیڈ) بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بیماریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر سمندری مچھلی نہیں مل رہی، تو دریائی مچھلی ہی سہی، یہ سب سے بہترین ہے۔ تازہ پانی کے باعث اس میں آلائش بھی کم ہوتی ہے اور غذائیت سمندر کی مچھلی جیسی۔ معیار کے لحاظ سے سب سے کم تر فارمی مچھلی ہے۔
مچھلی میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ہوتی ہے۔ یہ چکنائی دل کی شریانوں میں لوتھڑے نہیں بننے دیتی اور خون پتلا رکھتی ہے۔ پہلے سے بنے لوتھرے یا تھکے نرم کرکے توڑ دیتی ہے اور پہلے سے بنے لوتھڑے کھانے سے اچانک ہارٹ فیل ہونے کے امکانات 50فیصد کم ہوجاتے ہیں۔ دل کے علاوہ اومیگا تھری دماغ، آنکھوں، جلد اور معدے و آنتوں کے لیے بھی نعمت ہے۔ یہ چکنائی خون میں کولیسٹرول کم کرتی، ذیابیطس قسم 2 کو روکتی اور زندگی کا صحت مند دورانیہ لمبا کرتی ہے۔
جن لوگوں کی غذا میں مچھلی شامل ہوتی ہے ان کے دماغ کے یادداشت اور فہم و ادراک سے متعلق حصے میں موجود ’’گرے میٹر‘‘ کا حجم زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ (گرے میٹر یا بھورا حصہ مرکزی اعصابی نظام کا ایک حصہ ہے جو دماغ کے ’’وائٹ میٹر‘‘ سے الگ نظر آتا ہے۔ خلیاتی اجسام اور عصبی خلیوں پر مشتمل گرے میٹر معلومات حاصل کرنے اور اسے پروسس کرنے کا کام انجام دیتا ہے)
مچھلی کھانا دماغی ڈھانچے کی تبدیلیوں کے لیے زیادہ اہم ہے، بالخصوص بڑھاپے کی زندگی میں بہتر دماغی صحت کے لیے غذا میں مچھلی کی افادیت بہت زیادہ ہے۔
’’یونیورسٹی آف پیٹس برگ‘‘ کے جیمس بیکر نے کہا ہے کہ جن لوگوں کی غذا میں مچھلی شامل تھی اُن کے دماغ کے یادداشت اور ذہانت سے متعلق حصے میں بھورا حصہ حجم کے اعتبار سے زیادہ بڑا ہوتا تھا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ نتائج سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملی کہ طرزِ زندگی کے دیگر عوامل مثلاً ورزش وغیرہ کی طرح غذا بھی دماغی صحت کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مچھلی اگرچہ ایک حیوانی غذا ہے، لیکن حیوانی غذائوں کے بالکل برعکس اس میں موجود تیل جسم میں چربی پیدا نہیں کرتا۔ لحمیات حاصل کرنے کے لیے مچھلی سے بہتر غذا نہیں ہوسکتی۔گائے اور مرغی کے گوشت کے مقابلے میں مچھلی میں زیادہ غذائیت ہوتی ہے۔ مچھلی3 سے 4 گھنٹوں میں ہضم ہوجاتی ہے۔ مچھلی کھانے سے کھانسی اور خاص طور پر خشک کھانسی اور نزلہ میں فائدہ ہوتا ہے۔ کمزور بچوں کے لیے مچھلی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ سردیوں میں مچھلی ہفتے میں ایک بار ضرور کھانی چاہیے۔
مچھلی دنیا میں انسانوں کی غذا کا اہم حصہ ہے۔ ہلکی آنچ پر دھویں میں پکی ہوئی مچھلی یا گرل پر سینکی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا کھانے سے دماغ کے اس حصے کو فائدہ پہنچتا ہے جو یادداشت سے متعلق ہے۔ یاد رہے تلی ہوئی مچھلی میں تیز درجہ حرارت سے اومیگا تھری اینٹی ایسڈ ختم ہوجاتے ہیں۔
200 گرام مچھلی ایک وقت کی غذا کا بدل ہوسکتی ہے۔ یہ بدن میں خون پیدا کرتی ہے، بلغم کی پیدائش کم کرتی، دل، جگر، دماغ، گردوں اور اعصاب کو طاقت دیتی ہے اور حرارت عزیزی پیدا کرکے بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کردیتی ہے۔ یہ معدہ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی اور گیس اور کمزور معدہ والوں کے لیے اچھی غذا ہے۔ بھنی ہوئی مچھلی سب سے زیادہ غذائیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد شوربے دار سالن والی مچھلی کا نمبر ہے۔ مچھلی کے ساتھ یعنی جب تک وہ معدے میں ہضم نہ ہوجائے دودھ پینے سے پرہیز ضروری ہے۔
امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہفتے میں دو یا اس سے زائد بار مچھلی کھانے والے افراد بڑھاپے میں بینائی کی کمی سے محفوظ رہتے ہیں۔ وہ افراد جو نے ہفتے میں دو یا اس سے زائد بار مچھلی کھائیں، بڑھاپے میں Macular Degeneration سے محفوظ رہتے ہیں جو Retina میں موجود سیلز کو مُردہ بنادیتی ہے۔ تحقیق کے مطابقMackerel, Salmonاور Tunaمچھلیوں میں پایا جانے والا کیمیائی عنصر ’’فیٹی ایسڈ اومیگا تھری‘‘ بڑھاپے میں نظر کی کمزوری کو روکتا ہے۔ واضح رہے کہ بڑھاپے میں عام طور پر مرکزِ نگاہ کمزور ہوجاتا ہے جس کے باعث ایسے افراد کے لیے لکھنا پڑھنا، ڈرائیونگ کرنا یا ٹیلی ویژن دیکھنا ممکن نہیں رہتا، مگر مچھلی میں موجود اومیگا تھری بڑھاپے میں آنکھوں کے Retina سیل کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں دو بار مچھلی کھانے سے بلند فشار خون، دل کی بے ترتیب دھڑکنوں، خون کی شریانوں میں چربی کی زیادتی اور مضر صحت Triglycerideکی سطح میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مچھلی کھانے والوں میں پروسٹیٹ اور جلد کے سرطان کے خدشات بھی کم ہوتے ہیں۔
مچھلی کا تیل:
مچھلی کھانے میں بہت مزے دار اور غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے۔ مچھلی کے تیل کے بھی بہت فائدے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مچھلی کا تیل (کاڈ لیور آئل) سبزیوں کے تیل کی طرح مفید ہوتا ہے، جو جسم میں موجود خراب کولیسٹرول کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مچھلی کے تیل میں موجود مفید صحت چکنائی (اومیگا۔3) نسوں کی تعمیر و مرمت میں مدد دیتی ہے۔ مچھلی کے تیل میں ایسی چکنائی پائی جاتی ہے جو انسانی جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ تیل ہمارے جسم کے نظام کو درست رکھتا ہے۔ سردیوں میں مچھلی کا تیل پینا زیادہ فائدے مند ہے۔ اسے پینے سے جسم کو ایسی توانائی ملتی ہے، جس سے مدافعتی نظام مضبوط ہوجاتا ہے۔ مچھلی کا تیل بیماریوں کا حملہ غیر مؤثر بنادیتا ہے۔ طبی ماہرین نے مچھلی کا تیل انجائنا کے کئی مریضوں کو استعمال کرایا، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس میں شامل اومیگا۔3 چکنائی امراض قلب سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔
جب ہمارے خون میں چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو یہ چربی شریانوں میں جمنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں اور خون کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ مچھلی کا تیل پینے سے سکڑی ہوئی شریانیں کھلنے لگتی ہیں۔ شریانوں میں جمی ہوئی چربی کی تہ کم ہونے لگتی ہے اوردل کے امراض کا خطرہ دور ہوجاتا ہے۔
دمے کے مرض میں مچھلی کا تیل پینے سے دمے کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مچھلی کا تیل پینے یا کیپسول کھانے سے سانس کی نالیوں میں چکنائی نہیں جمتی اور وہ درست انداز میں کام کرتی ہیں۔ مچھلی کا تیل جسم کا مدافعتی نظام بھی درست رکھتا ہے۔ یہ تیل عام نوعیت کی بیماریوں، جیسے سردی لگنا، نزلہ زکام اور کھانسی سے محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔ اس تیل کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کے استعمال سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوتا۔ مچھلی کا تیل معالج کے مشورے سے پینا چاہیے۔
مچھلی کے تیل میں اومیگا۔3 روغنی ترشے بڑی مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو جسم میں اسپرین کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ خون کو پتلا رکھ کر تھکے بننے کے امکانات کم کرتے ہیں، رگوں میں سوجن کا عمل روکتے ہیں، شریانوں میں چربیلی تہ (پلاک) بننے کا رجحان ختم کرتے ہیں اور حملہ قلب کے خطرات میں کمی لاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جن اقوام مثلاً اسکیمو اور جاپانی قوم میں روغنی مچھلی روز کی غذا میں شامل رہتی ہے، ان میں امراض قلب کی شرح خاصی کم ہوتی ہے۔
اومیگا۔3 روغنی ترشے بعض پودوں اور نباتی تیلوں میں بھی موجود ہوتے ہیں، لیکن ان میں صرف چھوٹی زنجیر والے اومیگا۔3 لینو لینک ایسڈ ہوتے ہیں، جب کہ مچھلی کے تیل میں طویل زنجیر والے روغنی ترشے ہوتے ہیں۔ مچھلیاں آبی پودے کھاکر انہیں حاصل کرتی ہیں۔ مچھلی کے تیل کے ضمیمے بعض افراد میں تھوڑا سا بلڈ پریشر کم کرسکتے ہیں۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق یہ فائدہ اُن افراد میں ظاہر ہوتا ہے جن میں بلڈ پریشر اور کولیسٹرول دونوں کی سطح بلند ہوتی ہے۔
ابھی تک ذیابیطس کے حوالے سے مچھلی کے تیل کے فوائد واضح نہیں ہوسکے، تاہم بعض محققین امید ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے ذیابیطسی افراد جو کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسرائیڈز میں اضافے کا شکار ہوں، مچھلی کے تیل سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ مچھلی کا تیل جوڑوں کی مفاصلی سوزش میں ورم کی علامات دور کرسکتا ہے۔ روغنِ مچھلی سے نملے (PSORIASIS) میں سرخی اور کھجلی کی شکایات کم ہوتی ہیں۔