سردیاں ہمیں بہت پسند ہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کوپسند نہ ہوں تو ہمیں اس سے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ پسند اپنی اپنی، خیال اپنا اپنا۔ خیر ہم بات کررہے تھے سردیوں کی… سردی کا موسم بچپن اور لڑکپن میں تو اس لیے اچھا لگا کرتا تھا کہ اس موسم میں لذتِ کام و دہن کے تمام عوامل خود بہ خود ہی اچھے لگتے تھے۔ نہ جانے کیا جادو ہے اس موسم میں کہ چھوٹے بڑے سب ہی کو مزے مزے کے کھانے یاد آنے لگتے ہیں۔ ہم بھی آغازِ نومبر میں ہی مونگ پھلی، اخروٹ، کشمش، گجک، ریوڑیوں اور چلغوزوں (متوسط گھرانوں کی ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے چلغوزے کھا رکھے ہیں) کے خواب دل میں بسا بسا کر ابو جی سے پوچھا کرتے کہ ابو جی! سردیاں آرہی ہیں نا؟ تو ہمارے پیارے ابو جی اوائل نومبر سے ہی ہمیں ’’نہیں… نہیں‘‘ کہہ کر اتنا تھک چکے ہوتے کہ آخرکار جاتے نومبر کی تیس تاریخ کو سردیوں کے آنے کا مجرمانہ لہجے میں اقرار کر ہی لیتے’’ ہاں کل یکم دسمبر ہے، سردی آ نہیں رہی، آگئی ہے۔‘‘
ہم چاروں طرف دیدے گھما کر کہتے’’اگر سردی آگئی ہے تو ہمیں لگ کیوں نہیں رہی؟ یہ پنکھے کیوں چل رہے ہیں؟‘‘
پچھلے برس ان دنوں ہم پاکستان ٹور پر گئے تھے تو کراچی جاتے اور حیدرآباد آتے ہی گاڑی کے شیشے اوپر اور کندھوں پر پڑا سوئٹر پہن کر بیٹھ جاتے تھے، اور پھر آگے جہاں بھی جاتے پنکھے بند ہی پاتے، مگر یہاں تو…
ابو جی بھی بیزار ہوجاتے تو کہہ بیٹھتے ’’تو کیا ہوگیا ہے، تم بھی پنکھے بند کردو۔‘‘
اچھا جی یہ تو ہم نے سوچا ہی نہ تھا۔ چلیں اب سوچ لیا۔ ہم نے جلدی سے سارے کمروں کے پنکھے بند کردیے۔ امی جان کے پیچھے پڑ کر شنیل کی نرم ملائم سی رضائی بھی نکلوا لی۔ آخر کو کل یکم دسمبر تھا، سردی آگئی تھی، اسی خوشی میں پنکھا بند کرکے رضائی اوڑھ کر سوگئے۔ سخت گرمی اور گھٹن، اوپر سے پیاس کی شدت نے اٹھا دیا تو دیکھا ارمانوں سے اوڑھی ہوئی رضائی زمین بوس ہوچکی تھی اور ہم ایڑی سے چوٹی تک پسینہ پسینہ۔ وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بجے تھے۔ یکم دسمبر میں گھنٹہ باقی تھا جو سردی کو خوش آمدید کہنے کے لیے گزار لیا، مگر ذرا جو سردی آکر دی ہو۔ بارہ سے ایک بج گیا سردی نہ آنی تھی ، نہ آئی۔ مگر ہماری برداشت جواب دے چکی تھی۔ ہم نے پنکھا فل اسپیڈ میں چلا کر ٹانگوں پر رضائی اٹکائی کہ سردی کی سنت ہی ادا ہوجائے۔ اور پھر کیا تھا، ایسی مزے کی نیند آئی کہ مت پوچھیے۔
صبح سویرے فجر کے وقت جب سچ مچ ہوا میں میٹھی سی خنکی تھی، ہم نے پنکھا بند کرکے اسے’’شدید سردی‘‘ کا نام دے دیا۔ گرم گرم چائے پیتے ہوئے اس ’’سردی‘‘ کو خوب انجوائے کیا۔ یونیفارم کے ساتھ سوئٹر پہن کر جب اسکول پہنچے تو پورا کراچی ہماری ہی طرح کلینڈر دیکھ کر سردی منانے پہنچا ہوا تھا۔ کمرۂ جماعت میں تیز پنکھے چلا کر سوئٹر پہن کر بہ مشکل گھنٹے، دو گھنٹے بعد سوئٹر بینچ کی پشت پر اور ہم گھر واپسی پر بغیر سوئٹر کے۔
یاد نہیں پڑتا کہ کراچی کی ان سردیوں میں ہم سمیت کتنے ہی بچوں نے سوئٹر کھونے کے بعد دوبارہ پایا یا خریدا ہو۔ ان کی تعداد بتانا بہت مشکل ہے، کیونکہ آپ سب تو جانتے ہی ہیں کہ کراچی میں سردی ’’بہت زیادہ‘‘ پڑتی ہے۔
یہ تو پرانی یادیں تھیں مگر سچ تو یہ ہے کہ کراچی میں سردی آج بھی یکم دسمبر سے شروع ہوجاتی ہے، اب بھی اس کے آنے کی خوشی ہوتی ہے۔ وجوہات بدل گئی ہیں، خوشی کا جذبہ قائم ودائم ہے۔ اب آپ وجوہات پوچھنے کے لیے تنگ نہ کیجیے گا ، ہم خود ہی بتائے دیتے ہیں کہ یکم دسمبر سے گھر بھر کے پنکھے بند کرتے ہوئے بجلی کے کم ہوتے بل کا خیال دل کو بہت گدگداتا ہے، میاں جی سے ’’سردی کی شاپنگ‘‘ کے نام پر روپے اینٹھنے کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔ اور رکیے، ایک اور وجہ سنتے جائیں… پہلے ہم بچے تھے تو سردی میں ہی زیادہ چرتے، ہمارا مطلب ہے کہ کھاتے تھے۔ آج کے بچے بھی ’’کراچی کی سردی‘‘ میں یکم دسمبر سے کھانے کی نت نئی چیزوں کی فہرست بناکر کھاتے ہیں تو ان کا کھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ سوچ رہی تھی اِس مرتبہ انہیں چلغوزوں کی تصاویر بھی دکھاؤں گی، قوی امکان ہے کہ سردی کی شدت کچھ کم ہوجائے گی۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے نا، کہ کراچی میں سردی بہت زیادہ پڑتی ہے۔