چودھری پرویز کو فوت ہوئے ہفتہ عشرہ ہو چلا تھا مگر ابھی تک اس کی موت گھر، گھر موضوع بنی ہوئی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی حادثاتی موت کا شکار ہوا تھا، یا عالمِِ شباب میں اچانک ہی عزرائیل اس کے پاس آگیا تھا۔ وہ پانچ مربع اراضی کا مالک، تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کا باپ، الحاج کہلاتا ہوا 90 برس تک زندگی کی بہاروں سے شادکام ہوتا ہوا اب قبر کے حوالے کیا گیا تھا۔ پھر ایسی کیا بات تھی کہ اُس کی موت گائوں والے بھول نہیں پا رہے تھے!
دراصل اس کی ایک بہن شادی کے سات سال بعد بیوہ ہوگئی تھی۔ جب تک باپ زندہ رہا اُس کی گزربسر کا سامان کرتا رہا۔ پھر باپ کی وفات کے بعد پرویز اُس کا جانشین بنا تو بہن کا کچھ خیال کرتا رہا۔ پھر اپنے بال بچوں کی دیکھ بھال اور زمین و باغات کے مسائل میں، خرید و فروخت اور نفع کمانے کے نت نئے طریقوں میں ایسا کھویا کہ اپنی اکلوتی بہن کو بھول ہی گیا۔
بہن محنت مزدوری کرکے بچوں کو پالتی رہی۔ بچے بھی حلال کی روزی کھا کر بڑے ذہین اور تمیزدار نکلے۔ بڑے بیٹے نے میٹرک میں جب اسکول بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی تو ماں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بن کر آپریشن کرتے ہوئے دیکھنے لگی۔ مگر کالج میں داخلہ لینا، گائوں سے کسی بڑے شہر میں جاکر بیٹے کو ہاسٹل میں رکھنا یہ سب آسان نہ تھا۔ اس کے لیے پیسے کی ضرورت تھی اور پیسہ ہی تو اس کے پاس نہیں تھا، اور تب پہلا موقع تھا جب وہ بھائی سے بات کرنے اس کے گائوں گئی۔
اس نے حسن کی سنہری کامیابی کا بتایا، پھر موضوع کی بات کی، اور آخر میں ڈرتے ڈرتے باپ کی وراثت سے اپنا حصہ مانگا تو پرویز کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’زمین میں سے اپنا حصہ مانگ رہی ہے تُو…؟ ہوش میں تو ہے!‘‘ وہ غصے سے غرایا۔
’’میں تو اپنی بیٹیوں کو زمین نہیں دینے کا، اور تُو اپنا حصہ مانگ رہی ہے! یہ نہیں ہوسکتا۔ لے یہ پچاس ہزار روپے لے جا، اور اپنی زمین کو بھول جا۔‘‘
پرویز نے غصے سے پچاس ہزار کے نوٹ اس کی طرف پھینکے اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ابھی عصر کی اذان ہونے میں کچھ وقت تھا۔ اس نے بھیگی آنکھوں سے نوٹ اٹھائے اور چادر سے آنکھیں رگڑ کر گھر سے نکل آئی۔ بھابھی نے کھانا تو کیا، لسی پانی کا بھی نہ پوچھا۔
بیٹے کا داخلہ تو ہوگیا۔ وہ شام کو ٹیوشن پڑھاکر اپنا خرچا پورا کرتا رہا، ماں نے لوگوں کے ہاں مزدوری زیادہ کرنی شروع کردی۔ وقت کا پنچھی اپنی مخصوص رفتار سے پرواز کرتا رہا۔ حسن نے ایف ایس سی بھی امتیازی حیثیت سے پاس کرلیا، اب انٹری ٹیسٹ کا مرحلہ تھا۔
کالج میں داخلہ، پھر… صابرہ کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں۔ مگر خرچے کا خیال آتے ہی ساری چمک ماند پڑ جاتی۔
کئی روز کے غور و خوض کے بعد اس نے پھر بھائی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک صبح وہ اللہ کا نام لے کر رحیم پورہ روانہ ہوگئی۔ ہر قدم پر اس کے دل سے دعا نکل رہی تھی کہ بھائی مان جائے۔ مجھے میری زمین کا حصہ پیسوں کی صورت میں نقد ادا کردے یا زمین میرے نام لگوا دے تو میرے سارے ہی مسئلے حل ہوجائیں۔ دوسرا بیٹا بھی میٹرک کرنے والا تھا۔ یوں پیسے کی ضرورت تو ہر گام پر پڑے گی۔
صابرہ جب میکے پہنچی تو پرویز میٹھی لسی پی کر مونچھوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ صابرہ کو دیکھتے ہی چہرے پر ناگواری چھا گئی۔ بوجھل دل سے بولا ’’آئو بھئی صابرہ! بچے خیریت سے ہیں؟‘‘
’’ہاں شکر ہے بھائی جی، سب خیریت ہے۔ بچوں ہی کی خاطر تمہارے دروازے پر پھر آئی ہوں۔ دیکھو میرا حق جو مجھے اللہ سوہنے نے بخشا ہے اس سے محروم نہ کرو۔ میرا حصہ دے دو۔ میرا حسن ڈاکٹر جائے۔‘‘
’’دیکھ صابرہ، ایک بات بار بار کرنے کا فائدہ ہے کوئی؟ زمین کے خواب دیکھنا چھوڑ دے، یہ میرے تینوں بیٹوں کی ہے… نہ کہ بہن کی، نہ کسی بیٹی کی۔ نہ میرے باپ نے کسی ماں، بہن، بیٹی کو زمین میں سے حصہ دیا تھا، نہ میں دوں گا۔ تجھے جو کرنا ہے کرلے۔‘‘
وہ چارپائی سے اٹھا اور باہر جانے لگا۔ صابرہ نے جھٹ اسے کندھے سے پکڑ لیا اور روتے ہوئے کہنے لگی ’’بھائی پتھر نہ بنو، اللہ سے ڈرو… میرا حق اور مجھے ہی انکار!‘‘
پرویز نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے ہٹایا اور تکبر سے سر ہلاتا ہوا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا۔
صابرہ کہتی رہ گئی ’’پرویز اللہ دیکھ رہا ہے، دیکھو وہ دیکھ رہا ہے۔‘‘ وہ بھی اپنے گائوں کو چل دی۔ روتی جاتی اور ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ کی صدا لگاتی جاتی۔
گھر میں قدم رکھتے ہی حسن نے ماں کو دیکھا اور اسے ساری بات سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی۔ اس نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھر کر ماں کو دیا اور بڑے ہی پیار سے بولا ’’ماموں نے انکار کردیا ہے نا؟ میں جانتا تھا، مگر تیری آخری کوشش کا سن کر میں خاموش ہوگیا۔ فکر نہ کر ماں! جو میرے نصیب میں ہوگا وہ رب سچا مجھے دے کر رہے گا۔‘‘
حسن نے میڈیکل ٹیسٹ کا ارادہ چھوڑ کر پرائیویٹ طور پر بی اے کرنے کا سوچا، ساتھ ساتھ ٹیوشنز پڑھاتا رہا۔ لائق تو تھا ہی، ایم اے انگریزی ادب اچھے نمبروں سے پاس کرکے کالج میں پڑھانا شروع کردیا۔
اُدھر چودھری پرویز صابرہ کو ٹکا سا جواب دے کر کوئی ایسا پکا کام کرنے کا سوچنے لگا جس سے زمین کا بٹوارہ ممکن ہی نہ رہے۔ اس نے تینوں بیٹوں کے نام زمین کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں ہبہ کردیتا ہوں اپنے جیتے جی، یعنی ہدیہ میں دے دیتا ہوں۔ صرف ایک ایکڑ رکھ لیتا ہوں جو میرے بعد جیسے چاہیں تقسیم کردیں۔
اس فیصلے پر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ چنانچہ ایک دن تینوں بیٹوں کو لے کر وہ شہر کی عدالت کی طرف روانہ ہوا۔ شہر میں داخل ہوکر پہلا ہی موڑ کاٹا تھا کہ سامنے سے تیز رفتار ٹرالر نے گاڑی کو روند ڈالا۔ چودھری پرویز بڑے بیٹے کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا، نہ جانے کیسے لڑھک کر باہر جا گرا، مگر گاڑی اور تینوں کا حشر نشر ہوگیا۔ لوگ اکٹھے ہوئے، لاشوں کو بمشکل گاڑی سے نکالا۔ ایمبولینس منگوائی۔ پرویز کی جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور ایک خدا ترس شخص نے چودھری کے ساتھ تینوں لاشوں کو اندر ڈالا اور ڈرائیور کو گائوں کا پتا سمجھا کر کرایہ اپنے پاس سے دے کر روانہ کردیا۔ چودھری کی چپ جب ٹوٹی تو وہ اپنا دماغی توازن کھو چکا تھا۔
nn